• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہدإ پارک کے افتتاح پر ہمارے جمہوریت پسند سیاست دان ۔۔ محمد علی عباس

شہدإ پارک کے افتتاح پر ہمارے جمہوریت پسند سیاست دان ۔۔ محمد علی عباس

اس بات کو دن تو کافی گزر چکے ہیں اور اب کی بار بھی بہانہ مصروفیت کا ہی ہوگا کیونکہ ان دنوں ہم ٹیکس مشیران کی کچھ مصروفیت زیادہ ہوتی ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ تھوڑا وقت چند سطور کو سپردِ قرطاس کرنے کے  لیے  نہ نکال سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی روایتی سُستی ہی ہمیشہ آڑے آتی ہے اور بہت سے کام رہ جاتے ہیں۔

بہر حال یہ بات ہے   پانچ ستمبر کی، مجھے بیرسٹر وسیم سے ملنے کی خواہش تھی کہ ان کا ہمارے علاقے چکوال سے تعلق ہے۔ موصوف نے دنیا کی بڑی بڑی جامعات سے وکالت میں ڈگریاں لے رکھی ہیں اور شہر ِاقتدار میں کارپوریٹ پریکٹس کر رہے ہیں۔ ہمارا کام ان سے کچھ میل کھاتا ہے تو یہ پروفیشنل حوالے سے بھی اہم تھا کہ ایسے لوگوں سےبہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ جنرل عبدالقیوم ہمارے مہربان ہیں اور بیرسٹر وسیم سے ان کے اچھےمراسم ہیں تو وہ اسلام آباد سے آتے ہوۓ بیرسٹر صاحب کو ساتھ لیتے آۓ تھے۔ دن میں ہم نے ان سے ڈھوک قادہ میں برادر عثمان زمرد کے والد اور اپنے مُربّی چوہدری زمرد ڈھوک قادہ کی رسم چہلم میں سرسری ملاقات کی اور پھر شام کو چکوال شہر کے وسط میں تعمیر ہونے والے شہدإ پارک میں ملنے کا پلان ترتیب دیا ،خلافِ روایت میں شام پانچ بجے شہدإ پارک کے سامنے پہنچ چکا تھا۔ جنرل عبدالقیوم اور بیرسٹر وسیم نے مجھے سوا پانچ کا ٹا ئم  دیا تھا تو میں ون فائیو سے کمیونٹی سینٹر تک چہل قدمی کرنے لگا۔ ایک دو چکر لگاۓ اور حالات کا جائزہ لیا تو ایسا محسوس ہوا کہ کچھ” خاص” ہے جو ایک طرف سے سڑک بھی بند ہے اور پولیس کی نفری ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں کچھ زیادہ ہی چُست ہے۔ ون فائیو چوک کی طرف ایک سی این جی سٹیشن ہے اس سے تھوڑا ہٹ کے کھڑا ہوا تو کیا دیکھا کہ ایک اعلیٰ تحقیقاتی ادارے بیوروکریٹ دوست جو ہمیشہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں آج وہ فرنٹ سیٹ پر براجمان تھے اور گاڑی کوئی  اورچلا رہا تھا۔ اتنے میں ایک پراڈو سی این جی سٹیشن کے پاس آکے رکی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پہ سردار غلام عباس کے بھائی  سردار سُلطان خان شانی بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر میرے محترم چوہدری ظلِ حسنین لطیفال براجمان تھے۔

میں ماضی میں چلا گیا۔۔ جب چوہدری ظل حسنین کے بھائی  یونین کونسل ناظم کا الیکشن جیت کر سردار گروپ میں شامل ہوۓ تھے تو سردارانِ کوٹ چوہدریاں نے باوجود ان کی اپنے گروپ میں شمولیت کے وہ قدر نہ کی جتنی آج ان کی اور ان کے بھائی  کی کر رہے تھے، ہمدردیاں ان کے فریق مخالف اور اپنے دوست چوہدری گلستان خان کے ساتھ رکھی تھیں۔ وقت بھی کیسا انتقام لیتاہے۔ دنیا جانتی ہے کہ آج سردار غلام عباس جہاں ہیں اس میں کس کا کیا کردار ہے۔ بہر حال کچھ دیر میں چوہدری اشتیاق حیدر لطیفال کی گاڑی بھی یہیں آ کر رکتی ہے جس سے معززین لطیفال اترتے ہیں۔ سب لوگ رکے رہتے ہیں اور جب سردار نجف حمید کی گاڑی پاس سے گزرتی ہے تو گاڑیوں کا یہ قافلہ شہدإ پارک کی جانب بڑھ جاتا ہے۔ میں بھی ون فائیو چوک کی طرف چل پڑتا ہوں کہ شاید کچھ اور ایسے مناظر دیکھنے کو مل جائیں کہ ایک اور گاڑی جس کی فرنٹ سیٹ پر جنرل مسرور بیٹھے ہیں اسے سردار آفتاب اکبر چلا رہے تھے، نظر آتی ہے۔ اب وضع داری بھی کوئی  چیز ہوتی ہے۔ جنرل مسرور کے ساتھ تعلقات کی ”لاج“ رکھنے کےلیے ان کی گاڑی چلانے میں حرج ہی کیا ہے کیونکہ جب ایک وقت میں نو دولتیے  مین پاور ایکسپورٹر کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی جا سکتی ہے تو جنرل مسرور سے تو سرداران کوٹ چوہدریاں کے پرانے مراسم ہیں۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب یہ تعلقات کس نہج پر ہیں لیکن یہ موضوع نہیں تو اسے کسی دوسرے موقع پر اٹھا رکھتے ہیں۔

گاڑیوں کا یہ سلسلہ یہاں ہی رک جاتا تو ٹھیک تھا لیکن جب سابق ایم این اے میجر طاہر اقبال اس جانب بڑھے تو حیرت تھوڑی اور بڑھ  گئی ۔ اتنے میں جنرل عبدالقیوم آ گئے تو میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ پارک میں داخل ہوتے ہی جنرل عبدالقیوم کہنے لگے کہ ”سنا ہے جنرل فیض حمید نے آنا ہے؟“ اب ان کے سوال اور سوال کرنے کے انداز میں ایک خاص معنی تو تھا ہی لیکن میں خود ابھی تک حیرت میں تھا کہ ایک پارک کے افتتاح کے  لیے  پاکستان کی اہم ترین شخصیت کا آنا؟ یہ سب کم ازکم میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ مگر سن ایسے ہی رکھا تھا اور ماحول بھی کچھ ایسے ہی لگ رہا تھا۔ میں نے اتنا ہی کہا کہ ”سنا تو ہے“ جنرل قیوم میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ کے کہنے لگے کہ ”رات کو تو افغانستان میں تھے“ میں نے بات ٹالنے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اتنے میں ہم پنڈال میں پہنچ چکے تھے۔ یہاں ایک طرف ریٹائرڈ جرنیلوں کی قطار بیٹھی تھی جن کا تعلق ضلع چکوال سے تھا، جبکہ سیاستدانوں میں کیا حکومتی اور کیا اپوزیشن جماعت کے ضلعی قاٸدین سب استقبالیہ نظروں سے باہر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ شہدإ پاک فوج سے منسوب پارک میں ریٹائرڈ فوجی افسران کا آنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن سیاستدان جو یقیناًاپنی بہت سی مصروفیات ترک کے آۓ ہوں گے،ان کی آمد سمجھ سے بالاتر نہیں، حکومتی جماعت کے ممبران اسمبلی ہوں یا اپوزیشن کے نعرے کو اپنا نعرہ کہنے والے سردار عباس کے بھائی ، تنویر اسلم سیٹھی اور مہوش سلطانہ ہوں یا میجر طاہر اقبال۔ ”تیری دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوۓ“ کے مصداق منتظر تھے کہ تینتیس نمبر بنائیں اور گھر جائیں۔

ماحول سے ایسے ہی لگ رہا تھا کہ جنرل فیض حمید آئیں گے۔ لیکن جنرل قیوم نے جس انداز میں مجھ سے بات کی تھی میں سمجھ گیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ تاہم ضلع کی اہم سیاسی شخصیات کو بیٹھا دیکھ کر حیرت ضرور ہوئی ۔ اس میں کوئی  دو راۓ نہیں کہ یہ سب لوگ نہ سہی ان میں سے ننانوے فی صد سیاست دان بس اس لئیےیہاں تشریف لائے تھے کہ شاید جنرل فیض حمید آ جائیں  اور یہ ان کو اپنی شکل دکھا کر حاضری لگوا سکیں۔ تقریب کا آغاز ہوا، تلاوت کلام مجید اور نعت رسول مقبول حضور خاتم النبیین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ڈی سی چکوال نے پارک کے قیام کے بارے میں بتایا کہ ”یہ انتظامیہ کی کاوش ہے۔“

واقعی یہ انتظامیہ کی ہی کاوش ہے اور یہاں ”انتظامیہ“ سے مراد ”ضلعی انتظامیہ“ ہی لی جاۓ۔ ڈی سی کی تقریر کے بعد میں نے حیرت زدہ چہرے تب دیکھے جب افتتاح کے لیے جنرل عبدالقیوم کو بلانے کا اعلان ہوا۔ حالانکہ کوئی  درجن سے زائد جنرلز اور کرنلز پہلی قطار میں موجود تھے۔ جنرل مسرور ریٹائرڈ ضرور ہو چکے ہیں مگر ان کی اہمیت سے صرفِ نظر ممکن نہیں تھا مگر سب جرنیلوں میں جنرل قیوم چونکہ سینئر تھے اور ہمارے ڈی سی بھی فوجی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور فوج میں رہ بھی چکے ہیں تو وہ سینئر جونئیر کا فرق جانتے ہیں۔ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جہاں سینئر جونیئر میں فرق ہمیشہ رکھا جاتا ہے۔ چاہے وہ بعد از ریٹائرمنٹ پلاٹوں کی الاٹمنٹ ہو یا نوکریوں کی بندر بانٹ۔ بہرحال میرےلیے تو یہ دہرا اعزاز تھا کہ اوّل جس پارک کا افتتاح ہونے جا رہا تھا اس کےمرکزی دروازے کو بابا گدا بیگؒ کے نام سے منسوب کیا گیا تھا جن کا میں عقیدت مند ہوں، اور دوم یہ کہ اتنے بڑےسیاست دانوں کی موجودگی میں میرے گاؤں کی ایک شخصیت کو یہ اعزاز حاصل ہو رہا تھا کہ وہ چکوال کےسب سے بڑے پارک کا افتتاح کر رہے تھے۔

خیرجب جنرل عبدالقیوم کے ہمراہ جنرل اصغر فاروق اور جنرل خالد افتتاح کے لٸیے آگے بڑھے تو پنڈال میں موجود بہت سی شخصیات کے چہرے اتر چکے تھے کہ کیا سوچ کر آۓ تھے اور ہو کیا گیا؟ کیا تحریک انصاف اور کیا ن لیگ والے سب ہی اپنے بناؤ سنگھار سمیت کرسیوں کے ساتھ چپک سے گئے تھے۔ بہت سوں سے تو اٹھا ہی نہ گیا۔ فیتہ کٹا اور مہمان پارک میں بنے مانومنٹ کو دیکھنے لگ گئے کہ جس میں لگی سنگ مر مر کی سلوں پہ چکوال سے تعلق رکھنے والے شہدإ کے نام لکھے تھے۔ اب آہستہ آہستہ میرے شہر کے جمہوریت پسند معززین اپنی کرسیوں سے اٹھ کر ریفریشمنٹ کی طرف آ رہے تھے۔ جو کاٹن اور واسکٹیں پہن کر وہ تشریف لائےتھے کہ جنرل فیض حمید کو دیکھیں گے انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے جنرل عبدالقیوم کو افتتاح کرتے دیکھا تھا۔ اگر جنرل فیض خود یہاں ہوتے بھی تو بھی شاید افتتاح جنرل قیوم سے ہی کرواتے کہ فوج میں بہر حال  سینئر جونیئرکا ایک رشتہ ہے جو سیاست میں نہیں ہوتا۔ ہم پارک سے نکل کر واپس جا رہے تھے اور میرے ضلع کے معزز سیاست دان اب نائب تحصیل دار سردار نجف حمید کو سلام کر کے اپنی حاضری لگوا رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نہ جانے کیوں پارک سے نکلتے ہوۓ اپنے ”جمہوری“ سیاستدانوں کی حالت دیکھ کر میں یہ گانا گنگنانے کو جی چاہا۔
”دل کےارماں آنسوؤں میں بہہ گئے“

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”شہدإ پارک کے افتتاح پر ہمارے جمہوریت پسند سیاست دان ۔۔ محمد علی عباس

Leave a Reply