بیرن نیند نہ آئے۔۔عاصم کلیار

میں کئی  دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ لتا جی سے پہلی بار میں کب آشنا ہوا تھا مجھے کچھ یاد نہیں پڑتا مگر مجھے اس بات کا یقین کی حد تک گماں ہے کہ شعور کی سیڑھی پر پہلا قدم میں نے لتا جی کی مدھر آواز کے تعاقب میں ہی رکھا ہو گا۔

وقت کا آبِ رواں کئی  طغیانیوں سمیت دوڑتا رہا، مجھے بہت کچھ بھول گیا مگر کچھ یاد بھی رہا، تیس  سے اوپر کچھ سال پہلے کا منظر اب بھی یادوں کے دبستان میں محفوظ ہے ،گرمیوں کی لُو سے بچنے کے لیے  ابو نے گاؤں والے گھر کی دیوڑھی میں ریت ڈلوا کر پانی کاچھڑکاؤ کروایا ہے، اور دوستوں کے ساتھ ساری دوپہر تاش کھیل رہے ہیں، پس منظر میں قاری باسط کی دل میں اتر جانے والی آواز میں سورۃ رحمٰن کی تلاوت لگی ہے مگر ان کے پرس میں لتا جی کی تصویر ہے، جسے  گاہے گاہے دیکھتے ہوۓ وہ کہتے کیا عمدہ گاتی ہے ،شام کا وقت ہوا ،ابو قاری باسط کی بجاۓ لتا جی کے گانوں کا کیسٹ لگاتے ہیں، اور اس گانے کے مکھڑے نے  سارے ماحول میں اداسی کا رنگ بھر دیا۔
بیرن نیند نہ آۓ
موہے بیرن نیند نہ آۓ

اور اسی رتجگے میں مجھے ابو مدن موہن،راۓ بہادر چنی لال اور فلمستان کے بارے بتاتے ہوۓ لتا جی کے بارے اپنی ذات سے وابستہ کئی  کہانیاں سناتے ہیں ،منتظر ماں مری کی وسیع و عریض کوٹھی کے ڈرائیو وے کی سمت کھلنے والی کھڑکی سے لگی اپنے بیٹے کی کئی  ماہ بعد ہوسٹل سے آنے کی منتظر ہے ابو گھر میں داخل ہوتی کار سے ہی دیکھ لیتے کہ دادی مرحومہ ایک بت کی مانند نجانے کب سے ان کے انتظار میں ممتا کے جذبے سے سرشار آنکھوں کو پتھر کیے کھڑی ہیں ،ابو گاڑی سے اترتے ہی ماں سے لپٹ جاتے ہیں، عین اسی وقت آل انڈیا ریڈیو سے لتا جی کی آواز میں گانا گونجنے لگتا ہے۔
گھر آیا میری پردیسی
اور دادی اماں نجانے عمر بھر کے کس کس دکھ پر بیٹے سے ملنے کی خوشی کے نام پر ابو سے لپٹے ہوۓ مسلسل روۓ جا رہی ہیں۔

ازل سے ہی وقت کے آبِ رواں نے رکنے سے انکار کر رکھا ہے۔

برسوں بیتے دادی حقے کا کش لگا رہی ہیں اور ابو کسی کتاب کی ورق گردانی میں مگن ہیں میں سائیکل کے سامنے لگی ٹوکری میں Walkman رکھے کانوں  پر ہیڈ فون  لگاۓ لتا جی کی ریشم سے ملائم آواز میں کسی گیت مالا کا خاص نمبر لگاۓ ان کے گرد چکر لگا رہا ہوں۔

انسان تصور ہی نہیں کر سکتا کہ ہمیشہ سے وقت ماضی میں ڈھلتے ہوۓ ادھورے نقوش یاد کی دیوار پر چھوڑ کر کس چابکدستی سے گزر جاتا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب بچپن گم ہوا جاتا تھا اور لڑکپن تھوڑے سے فاصلے پر سامنے کھڑا تھا تب خواب کیا دیکھتا کہ کوئی سلسلہ ہی نہ تھا مگر اس وقت سے لے کر آج تک سانولی من بھانولی ریکھا کا خواب آفریں چہرہ سرسوتی کے اس گانے
“دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوۓ”سے جڑا، آج بھی پردہ خیال پر نمودار ہو کر ایک ہلچل سی مچا جاتا ہے یہ اعجاز بھی شائد صرف لتا جی کو حاصل ہے کہ ان کی آواز کے ساۓ کو تھام کر برسوں ایک چہرے کو یاد رکھا جا سکتا ہے۔

سبزہ خط سیاہ پوش ہو رہا تھا، ہم سب کلاس فیلو ایک ستواں جسم کے نقوش کو دیکھنا تعلیم سے بھی مقدم سمجھتے، ایسے میں ہماری ساری جماعت کورس کی صورت یہ بول گاتی
میرے درزی سے آج میری جنگ ہو گئی
کل چولی سلائی آج تنگ ہو گئی

وقت کی بساط پر دن بھر مصروفیات سے مقابلہ رہتا ادھر رات دھرتی کو بہانوں میں بھرتی ادھر میں لتا جی کے گانے سننے لگتا ایک گانا سینکڑوں بار سننے کے باوجود ہر بار نئی سرشاری میں بھگو دیتا۔
کروٹیں بدلتے رہے ساری رات ہم
آپ کی قسم

وقت کا سایہ بڑھتا رہا اور عمر کی دھوپ گھٹتی رہی آنکھوں میں دامن یار کا سایہ نجانے کس رتجگے کے موسم سے تھامے ہوۓ عمر کی کئی  منزلیں پلک جھپکتے میں یوں طے ہوئیں کہ کسی کے خیال میں کروٹ لیتے ہوۓ بدن دُکھ سا جاتا ہے، مگر اب بھی گاہے گاہے  غروبِ آفتاب   کے ساتھ آمدِ مہتاب اور تاروں کی چھت تلے آنکھوں میں گزرے ہوۓ ماہ و سال کے بھیگتے لمحوں میں جھانکتے ہوۓ بدن میں اٹھنے والی ٹیس پر غالب کے شعر کو مکھڑا بنا کر گلزار کی لکھی آستائیاں لتا جی کی آواز میں ہر موسم اور ہر قریہ میں مرہم کا کام یوں کرتی ہیں کہ لگتا  زمان و مکان تھم سے گئے ہیں-
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ  رات دن
بیٹھے رہیں   تصورِ جاناں کیے ہوئے
جاڑوں کی نرم دھوپ اور آنگن میں  لیٹ کر
آنکھوں پر کھینچ کر تیرے دامن کے ساۓ کو
اوندھے پڑے رہیں کبھی کروٹ لیے  ہوۓ
دل ڈھونڈتا ہے۔۔۔
بیٹھے رہیں ۔۔۔
یا گرمیوں کی رات جو پروائیاں چلیں
ٹھنڈی سفید چادروں پہ جاگیں دیر تک
تاروں کو دیکھتے رہیں چھت پر پڑے ہوۓ
دل ڈھونڈتا ہے۔۔۔
بیٹھے رہیں ۔۔۔
برفیلی سردیوں میں کسی بھی پہاڑ پر
وادی میں گونجتی ہوئی خاموشیاں سنیں
آنکھوں میں بھیگے بھیگے سے لمحے لیے ہوۓ
دل ڈھونڈتا ہے۔۔۔
بیٹھے رہیں ۔۔۔

چار دن کے لیے  سہی جوانی سب پر جھومتی ضرور ہے انہی چار دنوں میں زمانے کو پشت پر ڈالے وقت کے منہ زور گھوڑے کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوۓ بغیر سوچے سمجھے جذبات کے تابع یا اِدھر یا اُدھر کا فیصلہ کرنے میں لتا جی کے اس گانے نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آج پھر جینے کی تمنا ہے
آج پھر مرنے کا ارادہ ہے

مگر ہمیشہ کی طرح جینے کی تمنا جیتی زمانے کے بوجھ نے بدن کے سب لوچ و خم یوں ختم کیے کہ وقت کا منہ زور گھوڑا سینے کو روندتا ہوا سارے سپنے اور ارمان بھی اپنے ساتھ لے گیا مگر آج بھی یہ گُھتی سلجھتی ہی نہیں کہ اس گانے میں وحیدہ رحمن نے ساز کی لے پر رقص کیا ہے یا کہ شکستہ عمارت کی دیوار کہنہ پر لتا جی کی سدا بہار آواز کے زیر و بم پر مچلتے ہوۓ دنیا سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذاتی حوالے سے لتا جی کا ہر گانا کسی یاد کا معتبر حوالہ ہے اور ہر یاد سے لتا جی کی آواز کسی آکاس بیل کی مانند لپٹی ہے۔ ان کی کانچ سے نازک آواز وقت کی روانی کو نہ صرف روک سکتی ہے بلکہ حال کو ماضی میں بدل کر وقت کو زمانی قید سے بھی آزاد کرنے کی صلاحیت  رکھتی ہے۔ چہرے پر سنجیدگی کا ہالہ لیے  رنگ رنگ کے باڈر والی سفید ساڑھی زیب تن کیے جب سرسوتی مائیک کے سامنے آتی تو سننے والوں کے جذبات ان کی دلگیر آواز کے زیر اثر رہتے وہ رونے والوں کو مسکرانے پر مجبور کر سکتی تھیں اور مسکرانے والوں کو ان کی آواز رلانے پر قادر تھی۔ فوٹوگرافی،کرکٹ اور ہیروں کے کاروبار سےوابستگی ان کے ذاتی مشاغل تھے۔ ہندوستان کی فلمی دنیا میں گانے کے حوالے سے ان کی اجارہ داری تھی ۔ایک زمانے میں وہ تمام اسٹوڈیو اپنے نام سے بک کروا لیتی ،پھر ان کے علاوہ کسی اور کے گانے کی ریکارڈنگ کیسے ممکن تھی ،مگر آفرین ہے او-پی نیّر پر جس نے بطور موسیقار ایک گانا بھی لتا جی کے ساتھ کے بغیر اپنا نام پیدا کیا، پہلی بار ہندوستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیتی تو لتا جی نے ان کے لیے  بغیر معاوضے کے ایک شو کیا ،کسی اور رفاعی فنڈ کے لیے  جب لتا جی رتن ٹاٹا کے دفتر گئیں تو اس نے blank چیک ان کو دان کرتے ہوۓ کہا دیدی رقم کا خانہ خود بھر  لیجیےگا۔ ہندو مسلم فسادات کے دوران لتا جی کی دلیپ صاحب کو راکھی باندھتے ہوۓ تصویر شائع ہونے کے بعد قتل و غارت کے واقعات کم ہونے لگے ۔نور جہاں کو لتا جی استاد کا درجہ دیتی تھیں تقسیم کے بعد دونوں کے درمیان واہگہ کے بارڈر کی زیرو لائن پر ہونے والی پہلی ملاقات بھی لتا جی کی خواہش پر ہوئی۔ کہیں پڑھا تھا کہ نورجہاں اور لتا جی کے درمیان ایک زمانے میں ہفتہ وار فون پر بذریعہ ٹرنک کال بات چیت ہوتی تھی کاش ہوا کی لہروں سے کوئی ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو محفوظ کر سکتا۔

لتا جی کے گزر جانے کی اطلاع مجھے عزیز دوست عمران ٹاوری نے دی ۔میرے پاس چپ رہنے کے علاوہ بھلا کیا جواب ہو سکتا تھا۔ اگلے روز میرے مہربان دیوان اقبال نے بتایا کہ لتا منگیشکر نے دہائیوں پہلے ان کے خط کے جواب میں اپنی دستخط شدہ تصویر ان کو بھجوائی تھی۔ قاسم جعفری نے بتایا کہ ان کی لتا جی سے ملاقات رہی ،کاش جعفری صاحب ان ملاقاتوں کا احوال لکھ پائیں ،عزیز دوست ذوالقرنین نے لتا جی کے ساتھ اپنی پہلی ٹیلی فونک گفتگو کو محفوظ کر لیا تھا ۔لتا جی کے ساتھ اس کے فون پر رابطے کے بعد میں نجانے کتنی دیر اسے حسد سے دیکھتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت کا دریا اٹھکھیلیاں کرتے ہوۓ گزر رہا ہے آبِ رواں کی لہروں پر لتا جی کی آواز کے ساۓ ماضی،حال اور نجانے کب تک مستقبل میں ارتعاش پیدا کرتے رہیں گے۔
؀حاصل یہ کہ بقاۓ دوام فن میں ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply