• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برصغیر کے عوام کسی ایک جنگ کا انتخاب کریں۔۔۔۔ نیّر نیاز خان

برصغیر کے عوام کسی ایک جنگ کا انتخاب کریں۔۔۔۔ نیّر نیاز خان

بھارت اور پاکستان کو جغرافیائی طور پر تقسیم کرنے والی سرحد کے دونوں اطراف غربت اپنے خونی جبڑے کھولے غرا رہی ہے ۔ غربت کا یہ عفریت الیکٹرانی ساعت کی ہر جنبش پر کسی انسانی زندگی کے خاتمے کا اشارہ دیتا ہے ۔ سرحد کے دونوں اطراف ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش تیس فیصد انسان انتہائی غربت کی قاتلانہ حد پر بڑی مشکل سے سانس لیتے ہوئے زندوں کی صف میں شامل ہیں ۔ کم و بیش پینتالیس سے پچاس فیصد انسان بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ یعنی دونوں اطراف ملا کر پچھتر سے اسی کروڑ انسان فی کس دو ڈالر یومیہ کی آمدنی پر زندہ ہیں ۔ لگ بھگ اس سے زیادہ آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔ مناسب خوراک کی عدم دستیابی اور صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نو مولود اور کم عمر بچوں کی شرح اموات میں اس خطے کا موازنہ افریقہ کے کسی پسماندہ ترین علاقے سے کیا جا سکتا ہے ۔ دونوں اطراف کروڑوں بچے بنیادی تعلیم سے محروم رہنے کی وجہ سے چائلڈ لیبر جیسے انسان دشمن نظام کا ایندھن بننے پر مجبور کر دئیے جاتے ہیں ۔ حکمران طبقے کی پبلک ہیلتھ سسٹم میں عدم توجہی کے سبب ہیپاٹائٹس سی ۔ ذیابیطس ۔ کینسر ۔ دل کی بیماریاں ہر الیکٹرانی پل اموات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں ۔ ایچ آئی وی ایڈز پورے خطے میں پسماندگی کی وجہ سے تیزی کے ساتھ پھیلنے والی وبا کی بھیانک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے

پرانی گاڑیوں کا استعمال اور سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت ہر موڑ پر لاشوں کے ڈھیر کا سبب بن رہی ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لئے موثر اور قابل عمل نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی اور ہر دو موسموں کی شدت نے زندگی کی بقاء کے نظام کو مفلوج کرنا شروع کر دیا ہے ۔ نتیجے کے طور پر گرمی کی حدت اور شدید سردی کی لہر زندگی کی بقاء سے موت کے کھیل کا نیا باب شروع کئے ہوئے ہیں

جرائم پر قابو پانے کے موثر نظام کی عدم موجودگی میں ہر دو اطراف کالا دھن معاشرے کی مجموعی معاشی حالت کو نت نئے زاویے سے پستی کی طرف لے جا رہا ہے ۔ قانون کے رکھوالے ہر دو اطراف خوف اور تشدد کی علامت سمجھے جاتے ہیں ۔ رشوت دونوں اطراف سماج کی اخلاقیات اور مقابلے میں میرٹ کی بالادستی کو کاری ضربیں لگا رہی ہے ۔ اونچ نیچ پر مبنی سماجی اور زرعی پیداواری نظام سماج کی پرتوں سے جڑت اور ایکتا کے بنیادی اجزائے ترکیبی کو زنگ آلود کر چکا ہے ۔ اور ان ساری سماجی۔ معاشی ۔اخلاقی اور معاشرتی وجوہات میں دونوں اطراف تقریبا ایک جیسے عوامل کارفرما ہیں ۔ وہ اس لئے کہ سینتالیس کے بٹوارے کے دوران زمین تقسیم ہوئی اس پر بسنے والے انسان قتل ہونے کے ساتھ تقسیم ہونے ۔ وسائل تقسیم ہوئے۔ لیکن تقسیم کرنے اور ہونیوالے دونوں اپنی آزادیوں کے مان میں اتنے مگن ہو گئے کہ اپنی عادات کو تقسیم نہ کر سکے۔ کسی ایک طرف بھی دوسرے طرف رہنے والے کے لیے مثال بننے کی کوشش نہ کی گئی۔ ہاں البتہ رام اور رحیم کے نام پر خوب کاروبار ہوا اور اس کاروبار میں شدت پسندی کا عنصر بھی دونوں اطراف سرکاری سرپرستی میں ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج شدت پسندی دونوں اطراف صحافت جیسے مقدس اور مدبرانہ پیشے کو بھی بیچ بازار ننگا کر رہی ہے اور دکھ دہ بات یہ کہ شدت پسندی کے اس کاروبار کو ہر دو اطراف “حب الوطنی ” کے ریشمی و اطلسی غلاف میں لپیٹ کر بیچا جا رہا ہے ۔

جغرافیائی حدود اور ان کی نزاکت اور تقدس اب نئے عہد میں ماضی کا قصہ بن چکا ہے ۔ جنہوں نے سرحدی تقدس کے نظام کی داغ بیل ڈالی تھی وہ تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مصنوعی لکیر کھینچ کر اس پر باوردی چوکیدار کھڑا کرنے سے نہ ہی انفرادی اور نہ ہی اجتماعی آزادیوں کا تحفظ ممکن رہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی آزادیوں کا تحفظ باہمی احترام اور تعاون کی شرط پر ممکن ہے ۔

ہمارا سماجی حلیہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا براہ راست عکاس ہوتاہے ۔ ہم باہم رابطے سے لے کر پیداواری صلاحیت کی بڑھوتری تک اپنے عہد کے اوزاروں کی ترقی کی وجہ سے کامیاب یا ناکام ہوتے ہیں ۔ اور جس عہد میں ہم زندہ ہیں ۔ اس عہد کو درپیش مسائل کا حل ماضی کے اوزاروں اور نفرت پر مبنی سوچ میں نہیں ۔ بلکہ مشترکہ مسائل کا حل مشترکہ کوششوں میں ہی مضمر ہے۔

تین سے چار دہائیوں میں ہماری دنیا بالکل نئے مسائل کا سامنا کر رہی ہوگی۔ جب موسمیاتی تبدیلیوں کو اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو دنیا کے بہت سارے خطوں میں سے برصغیر متاثر ہونے والا ایک بڑا علاقہ ہوگا۔ اگر آئیندہ چار دہائیوں میں مجموعی درجہ حرارت تین سے چار ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا تو ھمالیہ کے پہاڑ جن پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے دونوں ممالک سامان حرب خریدنے کے لئے اسی کروڑ انسانوں کو غربت میں دھکیل چکے ہیں ۔ یہی ہمالیہ کے گلیشیئر دہلی۔ ممبئی۔ کراچی اور ڈھاکہ کی مشترکہ تباہی کا باعث بنیں گے ۔ جنھیں نہ تو کوئی عسکری مہم جوئی ۔ نہ ہی سرحدی لکیر اور نہ ہی کوئی ایٹم بم بچا سکے گا۔ اس لئے کہ فطرت کا عذاب سرحدوں تقدس اور عسکری قوت سے بالاتر ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے انسانی ہجرت کا وہ طوفان آ سکتا ہے ۔ جو انسانی تاریخ نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔

پورے برصغیر کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ پانی کے وسائل کی منصوبہ بندی کا بڑھتی آبادی اور ضرورت کے مطابق نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے زمین کی بالائی سطح پر ہر گزرتے دن پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ اور زمین کی اندرونی پرتوں کی قدرتی ساخت سرحدی لکیروں کے تابع نہیں ہوتی۔ اس اندرونی ساخت کا ایک عالمی اور ایک علاقائی نظام موجود ہوتا ہے۔ اور اس اندرونی جیولاجیکل ساخت کے اعتبار سے برصغیر ایک ہی نظام کے تحت جڑا ہوا ہے

اگر ہم نے غربت ۔ بیماریوں ۔ رشوت۔ اونچ نیچ کے نظام ۔ جہالت ۔ پسماندگی ۔ نفرت اور جنگ کے نظام کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو آنے والا وقت زندگی کی بقاء کے لئے سازگار نہیں ہو گا۔ اور یہ وہ سنگین مسائل ہیں جن کی نشاندہی ہر ذی شعور انسان کر رہا ہے ۔

صاحبو! آزادیاں بلاشبہ مان کا سبب ہوتی ہیں ۔ لیکن اس مان کے لئے آزادیوں کی اصل حیئت اور روح کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ آزادیوں کا تحفظ بندوق کی نوک، یا عسکری سازوسامان سے نہیں ۔ بلکہ صحت مند معاشرے کے قیام سے ممکن ہوتا ہے ۔ اگرسامان حرب اور سرحدوں پر کھڑے کمانداروں کی وجہ سے آزادیوں کو بڑھوتری ملتی تو سویٹزرلینڈ کی آزادی کب کی لٹ چکی ہوتی۔ لیکن گزشتہ کئی سالوں سے بنیادی آزادیوں کے عالمی انڈیکس میں سوئیٹزرلینڈ ۔ ناروے فن لینڈ ۔ سویڈن ۔ ڈنمارک ۔ کنیڈا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک جو عسکری سازوسامان کے بجائے تعلیم صحت ۔ رہائش۔ روزگار ۔ قانون کی حکمرانی ۔ انصاف کے نظام ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پر اپنی قومی آمدن کا زیادہ تر حصہ خرچ کرتے ہیں وہ اولین درجے پر نہ ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

برصغیر کے آزادی و انسان دوست عوام کے سامنے دو آپشنز ہیں ۔ یا تو وہ حب الوطنی کے ریشمی و اطلسی غلاف میں لپٹی بالا دست حکمران طبقے کی مفاداتی جنگ کو عسکری محاذ پر جاری رکھتے ہوئے زندگی کی آسائشوں کو ہمیشہ کی طرح گروی رکھنے ہوئے جنگ وجدل۔ قتال۔ اور نفرت کے کاروبار میں اجتماعی طور پر شراکت دار بن جائیں تاکہ قومی غیرت پر آنچ نہ آئے اورتعلیم ۔ صحت ۔ روزگار ۔ انصاف اور زندگی کے خواب کو بھول جائیں ۔ یا پھر اقلیتی اشرافیہ کے حب الوطنی کے جعلی اور استحصالی نعروں کو رد کرتے ہوئے مشترکہ دشمنوں یعنی غربت ۔ بے روزگاری ناقص نظام صحت جان لیوا بیماریوں ۔ جہالت ۔ نفرت ۔ پسماندگی اور شدت پسندی کے خلاف آخری معرکہ آرائی اجتماعی طور پر کریں ۔ دونوں جنگوں کے نتائج بالکل مختلف ہوں گے ۔ اول الذکر تباہی بربادی۔ خون ۔ آگ اور نوحوں پر منتج ہو گی جب کہ آخرالذکر اجتماعی آزادی ۔ خوشحالی ۔ مشترکہ خوشیوں اور مجموعی ترقی پر۔ دونوں جنگوں میں سے ایک کا فیصلہ بہرحال برصغیر کے عوام نے کرنا ہے۔ اس لئے کہ دونوں ممالک جمہوریت کے دعویدار ہیں اور سنا ہے کہ جمہوری نظام میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply