جنت سے نکالے ہوئے لوگ(1 )۔۔شاہین کمال

سکول سے واپسی پر اپارمنٹ کے سامنے میدان میں کار پارک کر کے میری متلاشی نظریں بلی کی کھوج میں تھیں تاکہ لنچ باکس میں اہتمام سے رکھی ہوئی ہڈیاں اور چوتھائی بچی ہوئی سینڈوچ اس کے پیٹ پوجا کا ذریعہ بن سکے۔ مجھے دور عمارت کی سائیڈ کی پتلی گلی میں گوہر مقصود نظر آیا اور میں نے نور کا ہاتھ پکڑ کر اُدھر کی دوڑ لگا دی۔ جیسے ہی ریمبو( سفید بِلا) کی نظر ہم لوگوں پر پڑی اس نے خیر مقدمی میاؤں کی۔ یہ محلے کا آوارہ اور بلا کا لڑاکا بلا تھا، اس لیے اس کا نام ریمبو رکھ دیا تھا۔
ریمبو اب اس طرح کی ضیافت کا عادی ہو چلا تھا۔ میں جب ٹیفن باکس اس کے آگے خالی کر کے پلٹی تو کونے میں دیوار کی اوٹ میں مجھے ایک آدمی دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپے بلکتا نظر آیا۔
دل تو چاہا کہ رک کر ماجرہ پوچھوں، مگر کچھ اپنی جھجھک اور کچھ اس کی شرمندگی کا خیال کر کے سیدھے نکلتی چلی گئی۔ جانے کیوں ہمارے یہاں مردوں کے رونے کو کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے، بھئ دل ایک آبگینہ ہی تو ہے ٹھیس لگے گی تو چھلکے گا بھی اور پھوٹے گا بھی۔ اس میں مرد کیا اور عورت کیا؟

اس کو دکھی دیکھ کر دل خراب ہو گیا۔ اس کے جسم پر کنسٹرکشن والوں کی مخصوص وردی تھی اور اس سے تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ قریبی زیرِ تعمیر عمارت کا ہی مزدور ہے اور لنچ کے وقفے میں یہاں کونے میں منہ چھپا کے اپنا غم منا رہا ہے۔ پتہ نہیں گھر سے کیسی خبر آئی ہے؟
پردیس کا دکھ اور اکلاپے کے آزار سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ یہاں تو رونے والوں کو کندھا بھی میسر نہیں۔ شام تک وہ میرے اعصاب پر سوار رہا۔ میاں (حسیب) آئے تو ان کو بھی یہ بات بتائی۔
وہ بھی ذرا دکھی ہو گئے اور پھر بھاپ اڑاتی چائے کے ساتھ پرایا غم بھی دھواں ہو گیا۔

میرا نام امبر ہے اور پچھلے چار سالوں سے ہم لوگ صحرا نشین ہیں۔ میں،میرے میاں اور بیٹی، نور شارجہ میں الخان میں رہتے ہیں۔ اس علاقے کی سب سے بڑی خوبصورتی اور افادیت   یہ ہے کہ سمندر سے صرف دس منٹ کی واک پر ہے۔ کراچی والوں کو بھلا اور کیا چاہیے؟
سمندر اور پکوان کراچی کے ٹریڈ مارک ہیں۔
کراچی! میرے شہر دلبرا کی اور بھی بہت خوشنما دلربائیاں تھیں مگر سیاست کے مکروہ ہاتھوں نے میرے محسن و حسین شہر کی خوشنمائی اور سکون کو تاراج کر دیا ہے۔ اب کراچی ابتری اور افرا تفری کی مثال ہے۔ کراچی کی فریاد سننے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ فراخ دل شہر جس نے سب کو سمیٹا، پر اب اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

میاں بینک میں ملازم ہیں اور میں امریکن اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ بیٹی پری اسکول میں۔ دونوں عمارتیں (میرا اسکول اور بیٹی کا پری اسکول) چونکہ متصل ہیں اس لیے لنچ کا وقفہ بیٹی کے ساتھ ہی بسر ہوتا ہے۔ گھر آتے آتے ڈھائی بج جاتے ہیں۔ اسکول گھر سے بارہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔
ہم دونوں کی کمائی ملا کر ٹھیک ٹھاک ہے پر شاید اب برکت اٹھ گئی ہے،پوری ہی نہیں پڑتی۔ وہی رونا ” ہائے اللہ سر کھلا”۔ کیا امیر کیا غریب سب کی ایک ہی دھائی ہے۔ گویا ننگا نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔
میرے ماں باپ حیات نہیں سو میکہ بھی نہیں۔ ایک بہن اور بھائی اور دونوں کینڈا میں سیٹل بلکہ ہم لوگ بھی امیگریشن فائل کرنے کا سوچ رہے تھے، بس چھوٹی نند کی شادی کا انتظار تھا کہ خیر سے اس کی ذمہ داری سے فارغ ہو جائیں تو پھر ہم لوگ اور ممی بھی کینیڈا نکلنے کی کریں۔

میرے گھر پہنچنے کے ایک گھنٹے بعد حسینہ میری بنگالی کام والی آتی ہے۔ اس کے ذمہ صفائی اور کپڑوں کی استری تھی۔ ویسے بھی ان دنوں میرے علاقے میں کنسٹرکشن ہو رہی تھی سو ہمہ وقت گرد و غبار کا بادل ہی منڈلاتا رہتا تھا۔ ابھی ڈسٹنگ کر کے فارغ ہو، دو گھنٹے بعد ہر چیز پھر گرد سے اَٹی ہوئی ملتی ۔ شام کے وقت میں کھڑکی کھولے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مستقل A.C سے مجھے گھٹن ہونے لگتی ہے سو مجھے تازہ کھلی ہوا لازمی درکار ہے، حسینہ ہفتے میں تین دن آتی۔ وہ درمیانے قد اور مسکراتے چہرے کی اچھی ملیح خاتون، بولنے کا خبط تھا، کئی دفعہ ٹوکنا پڑتا ۔ ایکھون چپ کورو ماں ، آمی کاج کورتا سی۔( اب چپ ہو جاؤ، ہم کام کر رہے ہیں)۔ پر اللہ کی بندی دس منٹ کا وقفہ لیتی اور پھر شروع۔ میرے ہزاروں بکھیڑے۔ آتے ہی نماز سے فارغ ہو کر کچھ الٹا سیدھا کھانا، نور کو نہلایا، پھر اس کو سلا کر مشین میں دھونے کے لیے کپڑے ڈالنا۔ کھانے کی تیاری اور ساتھ ساتھ ذہن ڈیلی لیسن پلان کی تیاری میں مشغول۔ کام کا ایک تسلسل ہے۔ مصروفیت کا یہ عالم کہ فون پر بھائی بہن یا ممی سے تفصیل سے بات کئے بھی مہینوں بیت جاتے ہیں۔ زندگی کیا تھی گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ ذرا ادھر اُدھر ہوئے اور ساری روٹین تتر بتر ۔

یہاں شارجہ میں اسکول کا ایڈمنسٹریشن مانو ٹرمینیشن لیٹر ہاتھ میں لئے ہر گھڑی تیار کہ کوئی چوک ہو اور آپ کو باہر کا راستہ دکھایا جائے۔ میرا اقامہ تو میرے میاں کے ساتھ ہے ورنہ جو بیچاری ٹیچرز اسی ملازمت پر ہائر ہو کر آئی تھیں ان کو تو باقاعدہ کانپتے دیکھا ہے۔ یقین کیجیے مڈل ایسٹ میں نوکریاں مورڈن سلیوری کی اعلیٰ  مثال ہیں۔ ہم لوگوں کی حیثیت بالکل غلاموں والی ہے۔ کبھی استاد معظم اور محترم ہوا کرتے تھے اب تو ان کی اوقات ریوڑیوں اور بتاشوں سے بھی کم تر ہے۔

جب رسد طلب سے زیادہ ہو تو نا قدری اور بے توقیری نصیب ٹھہرتی ہے۔ ڈیلی لیسن پلان اور ویکلی لیسن پلان کی مشقت ایک طرف اور غیر مہذب اور اجڈ بچے، خاص کر لوکل بچوں کی بدتمیزیاں الاماں الاماں! اس پر استاد پابند سلاسل۔ یعنی ہاتھ پیر باندھ کے سمندر میں دھکا دے دو۔

حسینہ کی بھی ایک کہانی ہے۔
حسینہ ویسے تو بہت ہنستی ہنساتی ہے مگر ہے بہت دکھی۔ برسوں پہلے بنگلہ دیش میں آنے والے سیلاب میں، اس کا میاں سانپ کے کاٹے سے مر گیا تھا۔ حسینہ کی ماں اور حسینہ کی بیٹی روپالی بچیں۔ حسینہ نے بہت مشکل سے پائی پائی جوڑ کر اور زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا بیچ کر ایجنٹ کو پیسے دیے اور شارجہ کا ویزہ لیا۔ اب یہاں وہ دن رات مشقت کرتی ہے اور کھلنا پیسہ بھیجتی ہے تاکہ بیٹی اچھے سے پڑھ لکھ سکے۔ حسینہ کا بس ایک ہی خواب ہے کہ بیٹی ڈگری کر لے پھر اس کی شادی ہو جائے اور اس خواب کے حقیقی روپ کے دھارن کے پیچھے حسینہ نے اپنا آپ مٹی کر لیا ہے۔
یہاں جب ہم کنسٹرکشن ورکر اور ڈلیوری کرنے والوں کو دیکھتے ہیں تو دل خوں کے آنسو روتا ہے۔ محنت تو ہر شخص ہی کر رہا ہے۔

کسی کا کام بھی آسان نہیں پر پچاس ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی اوپر درجہ حرارت میں کام! گرمی بھی ایسی شدید کہ چیل بھی گھونسلہ چھوڑ دے۔ ایسی گرمی میں سخت محنت بہت جوکھم کا کام ہے۔
انسان بال بچوں کے لئے اپنے پیاروں کے لیے کتنا جتن کرتا ہے، نہ کافی خوراک، کوئی میڈیکل سہولت نہیں۔ ایک کمرے میں دس، دس، بارہ لوگ ٹھسے ہوئے۔ گھر سے دوری، تنہائی کا عذاب الگ اور مرے پہ سو درے کفیل کا توہین آمیز رویہ۔ انسان کا اپنے انسان ہونے پر سے اعتبار ہی اٹھ جائے۔

ہماری بلڈنگ کے نیچے ایک ملباری ہوٹل تھا۔ اس کی زعفرانی چائے غضب کی ہوتی تھی۔ صبح اور شام پراٹھے بھی ملتے تھے. مزے کے تو بہت ہوتے تھے پر اتنی چکنائی ہضم کرنا مشکل تھا۔ پھر وزن جو بڑھتا تو بندہ مانند ہشت پا ہی ہو جاتا۔ اس لئے میں تو مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی کھاتی تھی۔ حسیب کا البتہ پسندیدہ ناشتہ تھا اور ہر سنچیر کی روٹین ۔ حسیب کو یہ آسانی تھی کہ انہوں نے جم جوائن کی ہوئی تھی سو وہ اس قسم کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے تھے۔ میں تو ہر دن، رات کے کھانے کے بعد ٹہلنے کا پکا پروگرام بناتی اور ہر رات تھک کر بےہوش بستر پر گر جاتی۔ کیسا ٹہلنا اور کدھر کا ٹہلنا۔ سارے ارادے وعدے ریت کی دیوار ثابت ہوتے اور پھر یہ وعدہ گرمیوں کی چھٹی تک قفل بند ہو جاتے۔ حسیب اکثر اپنی اسمارٹنس پر اتراتے تھے پر میں دونوں کانوں کا جائز استعمال کرتے ہوئے سنی ان سنی کر دیتی۔

حسیب رات کے کھانے کے بعد ملباری سے زعفرانی چائے منگوایا کرتے تھے۔ اکثر جو شخص چائے لے کر آتا تھا بڑا خستہ حال سا ہوتا تھا۔ میرے خیال میں پاکستانی تھا۔

عجیب بے زار بے زار، متفکر سا۔ ایک دن میں نے حسیب سے اس کے متعلق پوچھا بھی مگر وہ کہنے لگے تم کو کیا سب کے متعلق تجسس ہوجا تا ہے؟
ہو گا اس کا کوئی مسئلہ۔ یہاں کون ہے جس کے مسائل نہیں؟
بات ان کی بھی باون تولے پاو رتی سچی تھی۔
یہاں ہر شخص اپنی صلیب خود اٹھاتا ہے، اپنے آنسو خود پوچھتا ہے اور ” میں خیریت سے ہوں” لکھ کر خط ارسال کر دیتا ہے ، منی آڈر یا ڈرافٹ کے ساتھ۔ گھر والوں کو بھی منی آڈر کی زیادہ خوشی ہوتی ہے باقی باتیں اضافی ہیں۔ ضرورت کی عفریت نے بہت کچھ نگل لیا ہے۔ پیار اور قرار قصہ پارینہ ہوئے۔ اب بیشتر دل کی جگہ کیلکولیٹر اور جزبات اور ضروریات کی مول تول ہی ہے، پتہ نہیں ہم لوگ بدل گئے یا وقت بدل گیا؟پر بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ایسا نقصان ہو گیا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔

آج کل حسینہ بہت سنجیدہ اور کچھ رنجیدہ سی لگ رہی تھی۔ ایک دو دفعہ میں نے پوچھا بھی کہ کیا بات ہے ؟
سب خیریت تو ہے؟
آج کل روپالی کی نہ تصویر دکھا رہی ہو، نہ اس کی کوئی بات بتا رہی ہو؟
بس یہی کہتی، ” نا آپا آمی بھالو، تمی چینتا کورونا۔” ( نہیں، آپا ہم خیریت سے ہیں آپ فکر مت کیجیے۔) بات آئی گئی  ہو گئی۔ مگر اس کا کام پر دھیان نہیں تھا۔ وہ بہت جان مار کر صفائی کرتی تھی مگر اب صفائی بھی بس کام چلاؤ تھی اور اس نے میرے عبایا کی آستین بھی استری کرتے ہوئے جلا دی تھی۔ پھر تین دن حسینہ غائب ہو گئی۔
نہ کوئی اطلاع نہ میسج۔
یا خدا! ایسی غیرذمہ دار تو وہ نہ تھی۔ فون کا بھی کوئی جواب نہیں۔ بلڈنگ کے چوکیدار سے بھی پوچھا کہ اس کے ساتھ اگر کوئی دوسری ماسی آتی ہو تو اس سے حیسنہ کی خیر خبر لے۔ خدا جانے اس کا ایڈرس اور شناختی کارڈ کی کاپی کہاں رکھا گئی تھی۔ رات کھانے کے بعد دل جمعی سے ڈھونڈا تو شکر ہے کہ فلیٹ کے ایگریمنٹ کی فائل میں اس کے گھر کا پتہ بھی مل گیا۔ کل ویسے بھی جمعرات ہے سو میں نے پکا ارادہ کیا کہ اسکول سے واپسی پر اس کی خیریت لینے کا۔ اس کی کھولی آسانی سے مل گئی۔ وہ اور دو اور ماسیاں مل کر شئیر کرتی تھیں ایک کمرے کو۔ اسی کی ساتھی نے دروازہ کھولا اور ہمیں کو اندر لے آئی۔ عجیب تاریک سا کمرہ اور اس میں ٹمٹماتا ایک مدقوق سا بلب۔ حسینہ زمین پر بچھے گدے پر لیٹی تھی۔
کہنے لگی آپا تم کیوں بےبی کو لیکر آ گئی۔
میں آ جائے گی کام پر کل پرسو سے۔

میں نے کہا پر ہوا کیا ہے اللہ کی بندی؟
نہ کوئی میسج، نہ اطلاع، نہ فون اٹھاتی ہو۔ میں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ ٹھنڈی برف تھی چہرہ بھی پیلا پھٹک۔ عجب مردہ سی حالت۔
میرا تو دیکھ کے جی ہی الٹ گیا۔ کیا بیمار ہو؟
گھر میں تو خیریت ہے؟
بس ایک چپ۔
آپا آپ جاؤ ،ہم کل کام پہ آ جائے گی۔
چلو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ میرا خود جی گھبرانے لگا تھا کہ وہ ماحول نور کے لیے باکل مناسب نہیں تھا۔ گھر آ کر میں نے حسیب کو کچھ نہیں بتایا کہ میرے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر ان کا لیکچر شروع ہو جاتا، کیوں نور کو لیکر گئی ، کچھ ہو جاتا تو؟
فلاں دھماں۔ میرا سر ویسے ہی درد سے پھٹ رہا تھا۔ ایک تو یہ حسیب بھی کسی کسی وقت زندگی سے بے زار کر دیتے تھے۔ ان کی زبان کے آگے خندق اور بلا کے چٹورے۔

مجھے یاد ہے نور چھ ماہ کی تھی. اس کی طبیعت بھی زرا خراب تھی۔ اس کو ڈے کیر میں چھوڑتے ہوئے میں نے اس کی نینی کو بتا دیا تھا۔ اس نے نور کو غور سے دیکھا اور کہا کہ آج تو ٹھیک ہے لیکن اگر کل بھی طبیعت ٹھیک نہ ہوئی تو اس کو ڈے کیر مت لانا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ وہ دن ہی کچھ اوکھا تھا۔ ایک ٹیچر نہیں آئیں تھیں ان کے دو پریڈ بھی میرے سر پڑ گئے۔ کوآرڈینیٹر نے بلا کر لیسن پلان میں میری ایک غلطی کی بھی نشان دہی کر دی تھی اور اس بھاگ دوڑ میں لنچ بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply