اک پھیرا اپنے دیس کا (1)۔۔کبیر خان

’’چھی چھی چھی۔۔۔  میں کہتی ہوں ، بھگیاڑجتنا منہ کھول کر مت دیکھو ، اُوپر والے نے اس کام کے لئے تمہیں یہ بڑی بڑی دوآنکھیں دے رکھی ہیں ۔ بندہِ خدا! گورے کالے، نیلے پیلے براعظموں میں جوتیاں چٹخا کے آئے ہو، پھر بھی راولاکوٹ کی گلیوں میں کسی پرائی کال سری کو دیکھ کر تمہارا منہ بیساختہ کیوں کھُل جاتا ہے؟ ۔ کُف برادری کے کسی فرد نے تمہیں یوں ندیدوں کی طرح دیکھتے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا  ؟میں کہتی ہوں نیچے دیکھ کر چلو۔  گٹر پر ڈھکن کے طور پردھرا پتھر آپ ڈگمگا رہا ہے ، تمہیں لڑھکنے سے خاک روکے گا ؟‘‘
یہ پُل صراط تمنّا کی سخت راہیں ہیں
قدم سنبھال کے اٹھاؤ، کہ خواب لرزاں ہیں
وغیرہ وغیرہ ۔
لیکن ہم کوئی مرزا صاحباں والے پیلو ہیں کہ اپنی زوجہ محترمہ کوبد دعائیں دینے پر اُتر آئیں ؟
پنج ست مرن گوانڈناں ، رہندی آں نوں تپ چڑھے
ہٹّی سڑے کراڑ دی ، جتھے دیوا نت بلے
کُتّی مرے فقیر دی ، جیہڑی چوں چوں نِت کرے
سُنجیاں ہو جان گلیاں ،تے  وچ مرزا یار پھرے

تاہم مدّتِ مدید سے ایک معصوم سی خواہش کلبلا رہی تھی کہ بیگم کی ذاتی نگرانی کے بغیر ، اپنے راولاکوٹ کی سُنسان گلیوں میں ہم بھی مرزے یار کی طرح کھلم کھلا پھر کردیکھ لیں ۔ گھر والی کی  سرپرستی میں صراط ِ مستقیم پر گھٹنیوں چلنا اب خیال است و محال است ،اور نرا وبال است ۔

(زیست کی اوبڑ کھابڑ راہوں میں ہمارے چال چلن کا خاص خیال رکھنے والی بیگم کا اپنا حال یہ ہے کہ گھر کے برآمدے سےلان میں جانے کے لئے فقط دو عدد آرائشی پوہڑیاں بھی بقدم خود نہیں اُتر سکتیں ۔ کسی نہ کسی بچّے کی اُنگلی پکڑ تی ہیں ، تب ’’پہاڑی رستہ‘‘طے کرپاتی ہیں  )

امسال بھی ہمیں اُن کی سرپرستی برابرحاصل تھی ،لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اسی اثناء  میں  خاندان میں اچانک ایک شادی آن گِری ۔ جس کی تیاری میں وہ اس قدر مصروف ہوئیں کہ رہبری کا فریضہ ہی نہیں ، گمراہ کو بھی یکسربھول گئیں ۔ اور یوں موقع مل گیا کہ ہم اپنے گاؤں گوٹھ میں مرزا یار کی طرح پھر سکیں، چنانچہ جی جان سے پھرے۔

سب سے پہلے ہم ’’ساہنے‘‘پر گئے ،اور مردانہ وار گئے۔ یعنی جھاڑ جُھنڈ سے گتھم گُتھا گئے۔ ساہنہ پڑوس کی وہ ٹیکری ہے، جہاں ہمارا بچپن اور لڑکپن پروان چڑھا ۔ بیاڑ کے چند پیڑوں کے بیچ ایک کھیت نما ۔ کھیل کود اور ہڑبونگ کا میدانِ کارزار۔ یہیں پھلّہ، اشکُر، بوڑا، ٹِنگوُ،پھِرکی، تھاپا، بھُرجوُ، لہنا،چُکہّ، اِدری،رتّا، پھجّا،ڈھبری،کلّا اور اسی قبیل اور قبیلے کے یار بیلی بسا کرتے تھے۔ یہیں ہم نے بارہا بگوگوشے، ناخ ، بٹنگیاں اورککڑیاں وغیرہ چرانے کے جرم میں اجّی (ایک انتہائی کم گو اورکم آمیز پڑوسی بزرگ) سے باجماعت ڈانٹیں اور ماریں کھائیں ۔ مال مسروقہ کی طرح اجّی کی ڈانٹ ڈپٹ اور مارپھٹکار بھی بڑی سوادلی اور زود ہضم ہوا کرتی تھی۔ جتنی مرضی ہے کھا لو، جی بھرتا تھا نہ پیٹ اپھرتا تھا ۔ چوری کے کچّے پلّے املوک کھا کربھی کبھی کھٹی ڈکاریں نہیں آئیں ۔ تب کا ہمارا پاپی پیٹ لکڑ ہضم ، پتھرہضم چلا آرہا ہے ۔ ہم آج بھی وہ بے ضرر سی گالیاں ، ڈانٹیں اور پھانٹیں کھانے کو صدقِ دل سے تیار ہیں لیکن فی زمانہ ویسے’’وہیلے‘‘ (فارغ قسم کے) اجّی ناپید ہیں
؎  ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

ساہنے پر ایک ’’زر‘‘(خزانے کا مدفن ) بھی ہے۔ جس کی رکھوالی اُن دنوں ایک اژدہا کیا کرتا تھا۔ اژدہا سال میں ایک بار، بوقت نصف النہارپانی پینے کے لئے ’’لَلّے کی باہ‘‘ پر جاتا تھا ۔ لیکن کمینہ شکی مزاج ایسا کہ دُم زر والے بیاڑ کے تنے سے لپیٹتا اور باقی جسم کے بل کھولتا( De-coil? ہوتا ہوا)،ایک کلو میٹر دورچشمے پر پہنچ جاتا۔ پانی پیتا اور پھر لپٹتا ہوا واپس زر تک پہنچ ، کہیں غائب ہو جاتا ۔ (اُستاد جھُلّی نے عرق ریزی کے ساتھ ریسرچ کی اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ ا ژدہا کا مدفون پرپایا جانا مستند ہے۔ لیکن اُس کو زیرِدام یا دم درود لانا کچھ ایسا آسان بھی نہیں ۔ کیونکہ بقول اسلام عظمیؔ
یہ دشتِ نارسائی ہے، یہاں رہتے ہیں انساں بھی
یہاں سانپوں کو بھی دو چار منتر یاد رہتے ہیں

ایک بار خواب میں وہ اژدہا ہماری زیارت کو بھی آیا تھا ، سامنا ہوتے ہی بزدل ہماری تمّی گیلی کر کے بھاگ گیا تھا ۔ لیکن گاؤں کی کم و بیش ہردادی نے بقائمی ہوش و حواس، کانی اور کاہنی آنکھ سے’’بچشمے دید‘‘ خود اُسے دیکھ رکھا تھا۔ ایک دادی نے تو اُسے دیکھتے ہی گھُنڈ نکال ، تاک کر ایسا ’’انہورا‘‘مارا تھا کہ مقابل’’تھاں پر چُرّ‘‘ہوگیا تھا۔ لیکن اگلے چاند کی پندرہویں کو پھر ’’پھونساڑنے‘‘(پھُنکارنے) لگا تھا۔ تب یاروں نے دادی سے مہلک انہورے مارنے کی سہ روزہ تربیت حاصل کی اور’’سُکّے ڈھاکے والے پیر‘‘کے اِذن سے لیس ہو کر باجماعت میدان کارزار میں اُتر پڑے
؎ یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک

عجب نہیں کہ انہورے کی ضربِ شدید اب بھی باقی ہو۔ یہی سوچ کرمہم جو یاروں نے راتوں رات جملہ دلدّر دور کرنے کے لئے اپنے سپہ سالار جھُلّی کی قیادت میں ساہنے کے سومناتھ پرسترہواں حملہ کیا ۔ محولہ محمود غزنوی نے تو اشاروں کنایوں میں یہ عندیہ بھی دے چھوڑا تھا کہ زیادہ نہیں ، فقط دو پتھّ (دس سیر پکّے بٹّے؟) ہیرے جوہرات نکل آئیں تو کل سے وہ مرغی چوری ترک کر دے گا۔ صرف لہو گرم رکھنے کے لئے کبھی کبھاراصیل کُکڑوں کا شکار کیا کرے گا، اور بس ۔ لیکن ہوا یہ کہ تیشہ چٹّان سے ٹکرا گیا۔ اور’’لمبی باڑی‘‘کے اُس کنارے پر، آدھی رات کواجّی کی آنکھ کھُل گئی۔ وہ اژدہے کی طرح پھنکارے۔  ’’کیہڑا بےخصما ایں ؟‘‘۔ اورپھنکار سُن کرمحمود غزنوی کو ہتھیار پھینک کر پسپاہی اختیارکرتے ہی بنی۔

زر کےاسی مدفن کے پہلو میں بیٹھ کر ہم لوگ سالانہ تعطیلات کا ہوم ورک کیا کرتے تھے۔ اسی مقام پر یار لوگ گراں موہڑے کےاجّیوں ، ماٹیوں کو لُوٹنے اور اژد ہے کو چکمہ دینے کی اسکیمیں بناتے تھے۔ چاچی مکھنی کی ہمہ صفت (اللہ میاں کی) گائے تلے ٹِنگو اور اُس کے ’’لیلے‘‘(مینڈھے) کو باجماعت چھوڑ کر تماشہ دیکھتے تھے۔ (اور بعد میں ’’ٹِک ّ سُکّ کے ڈہاکے چڑھنے‘‘یعنی دودھ نہ دینے پرچاچی گائے کے لئے میاں شاہ محمد سے دھاگہ تعویذ کرواتی تھیں)۔اسی مقام پر مال مویشیوں کے سودے اورگاوں کی نسل نو کے جوڑے طے ہوا کرتے تھے ۔ اور یہیں سے فتنے فتورگھُٹنیوں چل کرگھروں تک پہنچتے تھے۔ پھر راتوں رات پھل پھول کرتوُتکار سے ہاہاکار تک پہنچ جاتے تھے۔ اسی مقام پر بچیاں ، ہڑالہ کڑالہ ، چیچاں ، گول کبڈی اور انّی چوہی تھپلا جیسے مقبول عام کھیلوں کے میچ بپا ہوتے تھے۔ گویا ساہنہ گاوں کا ایک اوپن ڈرائنگ روم تھا ، جہاں ہر قسم کا ’’اَنّ‘‘(انت؟) مچا ہوتا تھا۔

ہم بیاڑ کے اُسی پیڑ تلے چپل اتار کر دبے پاوں گُم گشتہ بچپن اور لڑکپن کا پیچھا کرنے لگے۔ وہاں ہمارے نقوش پا کی ٹھیکریاں اور کرچیاں تو تھیں،عمررفتہ کے چِتراور چھتّر کہیں مٹ مٹا چکے تھے۔ اسی کشتِ ویراں کے وسط میں جہاں ہڑالہ کڑالہ کا کھوُت ہوا کرتا تھا،ایک جھلّ (گلاب جیسی خاردار اور پھول دارجنگلی جھاڑی)اس قدر پھیل چکی تھی کہ دوسری طرف کی دُنیا اوجھل ہو گئی تھی۔ ہم راس امّید جیسا ایک لمبا چکر کاٹ کر جب دُنیا کی اُس نُکرے پہنچے تودیکھ کر حیران رہ گئے کہ چیچاں کے فیلڈ میں تین چھولداریاں نصب تھیں ۔ تجسّس کے مارے لپکے تو ہوا کا رخ بدل گیا۔ ایک لمحے
میں یوں محسوس ہوا جیسے کلیجہ منہ کو آنے لگا ہے۔ نگاہوں کے سامنے کراچی کے گندے نالے والی جھگی بستی پھرگئی ۔ بدبو کے وہ بھبھکے کہ الامان ۔ تعفن کی وجہ سے ہمیں ابکائی آئی تو ایک چھولداری انگڑائی لے کر اُٹھی ۔ جس کے نیچے سے پلاسٹک کی بوتلوں کا الاوٗ ، اورالاوٗ سے ایک اود بلاؤ برآمد ہوا۔ اُس کی سُرخ آنکھوں کے ڈھیلے نکل باہر ٹپکنے کو تھے۔ ناک یوں رِس رہی تھی جیسے سنگل سلنڈرڈیزل انجن کے ڈرین پلّگ سےموبل آئل کا ٹپکا ۔ لرزتے سراپے سمیت اُس کے ہونٹ بھی لٹک کر کپکپا رہے تھے۔ اُس کے سر پر ربّ جانے کیا سوار تھا ، وہ کیسی اذیت کا شکار تھا ۔ اُس کے چہرے کا سبزہِ نورستہ بھی ’’لیل کہیل‘‘(بے طرح لتھڑا) ہوا تھا۔ معلوم ہوا جنہیں ہم چھولداریاں سمجھے تھے، وہ اونی چادریں تھی ۔ جن کے نیچے اودبلاو بیٹھے ہوئے مصروف عمل تھے ۔ فاعتبرو یا اولی الابرار! بدبو کے بھبھکوں کوبرداشت کرنے والے کم سن لڑکے تین خاندانوں کے چشم و چراغ تھے، جو ساہنے پر منّشیات سے کماحقہ مستفید ہو رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہمارا ساہنہ ہی نہیں ، علاقہ بھر میں جتنے بھی ساہنے، پوٹھے اور نکّے ہیں ، اسی طرح شاد و آباد ہیں ۔ نشئیوں کے نشے ہو گئے۔۔۔ لگتا ہے اب راولاکوٹ میں سب ہی شرفاٗ ہیں ، ایک بھی صوبیدار سلیمان خان باقی نہیں ہے جو’’کھاتے پیتے گھرانوں‘‘ کے چشم ہائے چراغ کو’’باعزت‘‘اُن کے گھروں تک پہنچا آئے ۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھنے کو تھے لیکن تعفن نے ہمیں اپنے ساہنے سے پسپا ہونے پر مجبور کردیا ۔ اور یہ پسپاہی ہمارے ماتھے پر ہی رقم نہیں ہوئی، بیسیوں اور بھی شکست خوردہ نکلے۔
’’تم تو مُلک موہڑا ہی چھوڑ ’پارلے اور باہرلے‘ ہو چکے ہو، ہم نے یہیں رہنا ہے اور عزت بچا کر رہنا ہے۔۔۔۔‘‘ایک پڑوسی نے کہا۔ لیکن موصوف نے یہ نہیں سوچا کہ کبوتر منشیات کے جن اود بلاوٗ سے آج چشم پوشی کر رہے ہیں ، وہ کل ساہنوں سے صحنوں میں بھی اُتر سکتے ہیں ۔ وہ چھولداریوں سے کابکوں میں در آئے تو۔۔۔۔ ؟؟؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply