نفرت کے پجاری ۔۔علی انوار بنگڑ

‏انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک سے بہت سے فنکار ایسے نکلے ہیں جن کے فن کو سرحدیں بھی نہ روک پائیں، ان فنکاروں کے ہنر نے دونوں دیسوں کے باسیوں کے دل میں جگہ بنائی۔ ہمارے ہزار ہا خراج عقیدت ان فنکاروں کے ہنر  کےآگے محض رائی کا پہاڑ ہیں۔ ان فنکاروں نے ایسے ایسے شہہ پارے تشکیل دیے ہیں جو مذہبی نفرت کے باوجود دونوں ملک کے لوگوں کے دل میں بس گئے۔ فنکاروں کے فن نے کئی بار ان نفرت کی سرحدوں کو توڑا ہے اور انہیں جھوٹا ثابت کیا ہے۔ نصرت کی قوالی ہو یا محمد رفیع کے گانے، نور جہاں کی ٹھمری ہو یا لتا منگیشکر کے رس گھولتے گیت، جگجیت کی غزل ہو یا استاد سلامت کی کلاسیکل گائیکی۔ غرض ہر بار کوئی نہ کوئی آواز کا دیوتا اٹھتا ہے جس نے دل میں بسی نفرتوں کو کم کیا۔ ان مہان لوگوں کی گائیکی نے ان لوگوں کو بھی سننے پر مجبور کیا ہے جن کے دل ایک دوسرے کے لیے نفرت سے بھرے پڑے ہیں۔

یہ بات گائیکی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر شعبے سے ایسے لوگ نکلے ہیں۔ جن کے فن نے ان خونی سرحدوں کو بنانے والے کھوکھلے نظریات کو منہ چڑایا ہے۔ لاہور کے استاد دامن نے جب دہلی میں روۓ اسی وی سی روۓ تسی وی او پڑھی تھی تو سامنے رونے والے دہلی والے تھے۔ جب امرتا پریتم نے لہو سے بھری چناب دیکھ کر وارث شاہ سے گلہ کیا تو یہاں کی ہیریں بھی بین کرنے لگیں۔ آج بھی سرحد کے اس پار سے آۓ بزرگوں کی آنکھوں میں اپنے گھر دیکھنے اور دوستوں سے ملنے کی امنگ دیکھتا ہوں تو ان خاردار تاروں کو کھڑا کرنے والے نظریے کھوکھلے لگتے ہیں۔

ایک طرف تو ایسے لوگ ہیں جن کا ہنر اِن نفرت کی سرحدوں کو اونچا ہونے سے روکتا ہے تو دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو جانے انجانے میں نفرت کی دیواریں اونچی کرنے میں لگے رہتے ہیں اور افسوس یہ ہے ایسے لوگ اکثریت میں ہیں۔

لڑکپن میں جب دونوں دیس کے لوگوں کو ایک دوسرے ملک کے فنکاروں کے فن پر محظوظ ہوتے دیکھتا تو سوچتا تھا کہ ان لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت کہاں سے آتی ہے؟ پہلے پہل تو یہ ہی خیال رہا کہ ٹی وی پر ایک دوسرے پر دھاڑتے اینکرز، تجزیہ نگار، سیاست دان یا ایسے ہی لوگ ذمہ دار ہیں جن کا کاروبار دونوں ممالک کے درمیان نفرت یا جنگ پر ٹکا ہوا ہے۔ اور ان کی ذہن سازی کی وجہ سے خود بھی بھارت اور دوسرے مذاہب والوں کو مکروہ ہی سمجھتا تھا۔ پھر جب مذہب اور محب الوطنی کی دھونس سے باہر نکل کر سوچنا شروع کیا تو سمجھ آیا یہاں تو نفرت کو عقیدت بنا کر پوجا جاتا ہے اور آنے والی نسل کو یہ نفرت گُڑتی میں دی جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کا دور آیا تو دونوں ملکوں کے عام لوگوں کے خیالات تک رسائی آسان ہوگئی۔ کبھی بھارت کا کوئی فنکار مرتا ہے یا کوئی اور حادثہ ہوتا ہے اور یہ خبر کسی بڑے چینل کے فیس بک پیج پر یا ٹویٹر ہینڈل پر لگتی تو نیچے کمنٹس میں دو طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ ایک افسوس کرنے والے جن میں زیادہ تر بھارت سے ہونگے اور چند ایک پاکستانی۔ اور باقی پاکستانی اس خبر پر ہنس رہے ہونگے۔ تضحیک آمیز کمنٹس کررہے ہونگے اور اسی طرح پاکستان میں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو صورتحال میں یہ بدلاؤ آتا ہے ،اب کی بار افسوس کرنے والے پاکستان سے ہونگے اور ہنسنے والے بھارت سے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں اِن نفرتوں کے موجد کون ہیں؟ پھر چاہتے ہوئے بھی اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈتا۔ جب کوئی اپنا غلطی کرتا ہے تو انسان جانتے ہوۓ بھی انجان بن جاتا ہے۔ انگلی صرف دوسرے کی غلطی پر اٹھاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال اپنا ہے جو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا نہیں چاہتا کہ کہیں اس نفرت کے موجدین میں سے کوئی اپنا معتبر نہ نکل آۓ۔

سروں کی ملکہ کہلاۓ جانے والی لتا بھی رخصت ہوگئی۔ میرے الفاظ اتنے قابل نہیں کہ لتا جی کی شان میں لکھ سکوں۔ جن کے گیتوں نے لاکھوں، کروڑوں انسانوں کے کانوں میں رس گھولے۔
دکھی لوگوں کے لیے ان کے گیت ایک امید بنے رہے ہیں اور بنتے رہے گے۔ لیکن دل دکھی تب ہوتا ہے جب لتا جی اور ان جیسے مہان لوگوں کے رخصت ہونے پر نفرت کے بیوپاری نفرت کا مینا بازار سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں جن جن لوگوں نے لتا جی کے رخصت ہونے پر ان کے لیے الوداعی کلمات اپنے فیسبک کے پیج یا ٹویٹر اکاؤنٹ پر لگائی۔ نیچے کمنٹس میں ان کا عقیدہ سیدھا کرنے والے کثیر تعداد میں موجود تھے۔ کسی کو اس میں شرک نظر آیا تو کوئی جنت کا مالک بنا ہوا تھا۔ تو دوسری طرف بھارت میں لتا جی کے لیے شاہ رخ خان کی دعا مانگنے کے بعد پھونک مارنے کو تھوک پھینکنا قرار دے دیا گیا۔
ابھی تک دو ملکوں کے خداؤں سے واسطہ پڑا ہے اور دونوں کا خدا بہت ہی نازک ہے۔ کسی کا خدا دوسرے مذہب کے ماننے والے کی  مرگ پر تعزیتی کلمات سے ناراض ہوتا ہے تو کسی کا حجاب پہننے سے۔ کسی کا خدا دوسرے مذاہب کے تہواروں پر نیک خواہشات بھیجنے پر ناراض ہورہا ہے تو کسی کا گوشت کھانے پر۔ ایک طرف تو لوگ اپنے اپنے خدا کو انسانوں سے محبت کرنے والا بتاتے ہیں، تو دوسری طرف خدا کے نام پر مار دھاڑ بھی کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہب کے نام پر ہم نے مل کر ایک نفرت کا در کھولا تھا اس کے نتیجے میں آج نفرت کے سو در کھلے ہوۓ ہیں۔ اور ہر کوئی اپنی ہی نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ پتہ نہیں وہ دن کب آۓ گا جب کسی بھجن والے کو اذان کی آواز میں کراہت محسوس نہیں ہوگی اور اذان والے کو بھجن کی آواز میں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply