• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیا افغانستان اور پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

نیا افغانستان اور پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ہمارے روایتی حلقوں میں یہ سوچ بڑی مستحکم تھی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آتے ہی وہاں ہماری دوست ریاست وجود میں آجائے گی۔ افغانستان کی طرف سے بالکل مطمئن ہو کر اپنی پوری توجہ مشرقی بارڈر پر کرسکیں گے۔ کچھ پاکستانیوں کو اس وقت بڑا دھچکا لگا، جب پاکستان کی طرف سے بھجوائی جانے والی امداد لے جانے والے ٹرک پر لگے پاکستانی جھنڈے کو طالبان کے بعض جنگجووں کی طرف سے توہین آمیز انداز میں اتارا گیا۔ اس کے خلاف شدید ردعمل کو دیکھ کر ہماری حکومت نے بھی اور افغان حکومت نے بھی کچھ اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا۔ پھر بڑے پیمانے پر وہ ویڈیوز شیئر ہونے لگیں، جن میں افغان حکومت کے بڑے عہدیدار پاک افغان بارڈر پر لگی باڑ کو اکھاڑ رہے ہیں۔ یہ کوئی جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور فکر کے ساتھ انجام دیا جا رہا تھا۔ اس فکر کے مطابق یہ باڑ درست نہیں ہے، اشرف غنی حکومت کی بھی یہی رائے تھی کہ یہ باڑ درست نہیں ہے۔ ہاں دونوں کے انداز میں ذرا فرق ہے۔ اشرف غنی زیادہ سختی سے ایسا کہتے تھے اور موجودہ طالبان حکومت ذرا اخلاقی، پختونوں کی تقسیم اور اس طرح کے انداز سے کہتی ہے، دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ یہ باڑ نہیں ہونی چاہیئے۔

ہم پاکستانی بڑے جذباتی ہیں، جب ہم کسی کو حق سمجھتے ہیں تو سو فیصد حق سمجھتے ہیں اور جب کسی کو ناحق سمجھتے ہیں تو سو فیصد باطل کا علمبردار قرار دے ڈالتے ہیں۔ ہم ریاست اور حکومت میں فرق سمجھنے سے بھی قاصر رہے ہیں۔ انڈین لابی اور پچھلے بیس پچیس سال میں امریکہ نے جس افغان نسل کی تربیت کی ہے، وہ اپنے مسائل کی ذمہ دار پاکستان کو سمجھتی ہے۔ ویسے بھی لڑنے والی قوم دشمن ساز ہوتی ہے۔ ہماری ناکامی یہ رہی ہے کہ ہم یہ واویلا تو کرتے رہے کہ انڈیا پروپیگنڈا کر رہا ہے، مگر ہم اس پروپیگنڈا کے جواب میں کوئی بیانیہ نہیں بنا سکے، ایسا بیانیہ جو افغان نوجوانوں کو ہمارا مدعا سمجھا سکے، جس میں ان کے ذہنوں میں آنے والے سوالات کے جوابات ہوں۔ فوجی کامیابیاں اسی صورت میں دیرپا ہوسکتی ہیں، جب ان کے پیچھے مضبوط نظریاتی بنیادیں موجود ہوں۔ بے نظریہ قومیں منگولوں کی طرح جنگ کے میدان میں کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، جلد ہی طاقتور نظریات کے سامنے ڈھیر ہو جایا کرتی ہیں۔

کچھ دن پہلے اسلام آبادکے معروف تجارتی مرکز کراچی کمپنی میں پولیس ناکے پر طالبان نے حملہ کیا اور پولیس والوں کو شہید اور زخمی کر دیا۔ اس کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کر لی، دنیا بھر کا میڈیا رپورٹس دے رہا ہے اور تھنک ٹینکس اس پر کام کر رہے ہیں کہ جب سے افغان طالبان حکومت میں آئے ہیں، پاکستان میں تشدد بہت بڑھ گیا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بم دھماکوں کے واقعات بھی یہی بتا رہے ہیں۔ اسلام آباد کے محفوظ علاقے سے لے کر انار کلی جیسے معروف ثقافی اور عوامی مراکز تک کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ کے پی کے میں بھی مسلسل تشدد بڑھنے کے اشارے ہیں۔ بلوچستان میں پچھلے ایک ماہ میں دہشتگردی کے دو بڑے واقعات ہوئے ہیں، جن میں پاک فوج کے کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے، اس طرح کے حملے ماضی قریب میں تقریباً رک گئے تھے۔ اتنے جان لیوا حملوں کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا محب وطن قوتوں کو پریشان کر رہا ہے۔

افغان طالبان نے پاکستان حکومت سے پاکستانی طالبان کے مذاکرات کرائے اور ایک ماہ کی جنگ بندی بھی ہوگئی، مگر پاکستانی طالبان پرامن زندگی کے موقع کو ضائع کر رہے ہیں، انہوں نے اس آفر سے فائدہ نہیں اٹھایا اور پرامن زندگی کی طرف نہیں پلٹے۔ بارڈر پر پیش آنے والے مسلسل واقعات اور ایک دو جھڑپوں کے بعد ہمارے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف صاحب کابل تشریف لے گئے۔ انہوں نے وہاں طالبان قیادت سے مذاکرات کیے اور اہم پیغام پہنچائے۔ طالبان قیادت بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ افغان سرزمین کسی پڑوسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر عملی طور پر ایسا لگ نہیں رہا۔ کل کی بات ہے کہ افغانستان کے اندر سے ہماری فوج پر حملہ ہوا، جس میں پاک فوج کے پانچ جوان شہید ہوگئے۔ ریاستی مفادات بڑے ظالم ہوتے ہیں، محققین کے لیے یہ موضوع کھلا ہے کہ کہیں افغان طالبان پاکستانی طالبان کو پاکستانی ریاست کو دباو پر رکھنے کے لیے ایک فوجی اثاثے کی صورت میں برقرار رکھنے کا فیصلہ تو نہیں کرچکے۔؟ اگر ایسا ہے تو ہمارے پاس کیا آپشنز باقی رہ جاتے ہیں۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ افغان طالبان کی حمایت کی وجہ سے سے امریکہ بہادر مسلسل ہمیں نظر انداز کر رہا ہے۔ ابھی سینیٹ میں اور تھینک ٹیکس لیول پر افغانستان میں امریکی شکست کے معاملات زیر بحث آرہے ہیں۔ اس میں بار بار پاکستان کا کردار ڈسکس ہو رہا ہے، وہاں اب انڈین لابی بہت زیادہ طاقتور ہوگئی ہے، کئی ایسے ادارے ہیں، جن کے سربراہ انڈین بن چکے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پاس کیا راستے ہیں۔؟ اس پر ابھی غور کرنا ہوگا اور یقیناً غور ہو رہا ہوگا۔ ویسے ہم جن سے تعاون پر دنیا بھر میں بدنام ہو رہے ہیں، اگر وہی ہمارے لیے مسائل پیدا کریں تو معاملہ کافی سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ افغان طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح نہ دنیا ان کے ساتھ چلے گی اور نہ ہی پاکستان ان کے ساتھ چلے گا۔ پاکستانی طالبان نے ہمارے بچوں کو شہید کیا ہے، اگر ریاست انہیں فقط جان کا تحفظ دے کر واپس آنے کی بات کرتی ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے، ورنہ تو معصوم بچوں کے قتل عام پر عام پاکستانی بڑا حساس ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply