جمہوری و غیر جمہوری طالع آزما۔۔شہزاد سلیم عباسی

اسلامی جمہوریہ پاکستان بیسیوں مفکرین، ہزاروں علمائے کرام، لاکھوں شہیدوں اور کروڑوں پاکستانیوں کے خوابوں کی اُمنگوں کا ترجمان ہے۔ قائد اعظم سے لیکر جناب اقبال ؒ، مولانا مودودیؒ،، علامہ شبیر عثمانی اور ابو الکلام تک، ایوب خان سے جنرل یحیی،بھٹو، بے نظیر،نوا ز شریف تک، جنرل مشرف سے پھر زرداری، نوا ز و عمران تک ہر ایک کو ہم نے غداروطن، متضاد العقیدہ، منافق، مفسد، غیرنظریاتی، شیطان یا بھارت و اسرائیل کا حامی ہونے کا سرٹیفکیٹ  تھمایا ہے اور تنقید برائے تنقید، منفی سوچ اور عدم مساوات کو پروان چڑھایا ہے۔ پاکستان چونکہ نظریاتی، روایتی اور فطری طور پر جمہوریت پسند واقع ہوا ہے مگر بدقسمتی سے حکمرانوں اور عوام الناس کی ذاتی پسند وناپسند رویوں کی وجہ سے اسے بین الاقوامی تحقیقاتی رسالوں میں بے انصاف اور کرپٹ ملک کا خطاب بارہا مل چکا ہے۔

47ء کے بعد سے طالع آزماؤں نے جمہوریت کے حسن کوماند کرنے اور جمہوریت کی ناؤ کو کمزور ترین بنانے کے لیے جمہوریت کی پیٹھ پر چھرا گونپا ہے جو کہ ہنوز جاری ہے۔ اور جس کا جرات مندانہ تذکرہ وزیر اعظم عمران خان ڈیوس فورم پر بھی کر چکے ہیں۔ طالع آزماؤں نے صرف یہی گناہ نہیں کیا بلکہ اپنے ناکردہ گناہوں پر کور ڈالنے کے لیے جمہوری قوتوں کو برابر منافع کے ساتھ عوام الناس کے ساتھ ابدی کھلواڑ پر لگا دیا۔ چنانچہ طالع آزماؤں کی دو قسمیں سامنے آئیں

1۔ جمہوری طالع آزما

2۔ غیر جمہوری طالع آزما۔ جمہوری  طالع آزماؤں کی تاریخ سے قوم واقف ہے مگرانہوں نے جمہوریت پسندوں کا جو حال کیا وہ ملاحظہ کریں۔انہوں نے جمہوریت پسند سوچ رکھنے والوں کو دائیں بائیں بازوؤں Right & left mindsets کی جماعتوں اور ان کے متبعین میں بدل دیا۔پھر دائیں بازوؤں والی جماعتوں میں بھی دو طرح کی سوچیں بیدار ہوئیں۔

1۔ سیاسی اور عملاََ غیر پارلیمانی: جو کہ محلے کی ناکام و نامراد سیاست کر کے عوام کو چونا لگانے میں ہمہ دم مصروف ہیں اور ارض وطن کی درخشندہ تاریخ میں آج تک کوئی قابل تقلیدوتعریف کارنامہ سرانجام نہیں دے سکیں جیسا کہ مسلم لیگ ن، پی پی پی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، اے این پی، بی این پی وغیرہ

2۔ سیاسی و دینی جماعتیں: جو کہ خود کو دین کیساتھ ساتھ اقبال کے شعر ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ پر پورا اتارنے کے لیے سیاست کو بھی ساتھ ساتھ چلاتے ہیں جیساکہ جے یو آئی اور جماعت اسلامی وغیرہ۔

3۔ سیاسی اوردینی و مذہبی و مسلکی جماعتیں: تحریک لبیک، ملی مسلم لیگ وغیرہ

4۔مسلکی و گروہی جماعتیں: دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع وغیرہ۔

عملی طور پر جمہوری طالع آزماؤں نے بھی حقیقی طالع آزماؤں سے کم بد بختی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ملک کا المیہ برس ہا برس یہ یہی رہا کہ آمروں نے جمہوری قوتوں کو استعمال کر کے ملک کی تقدیر بدلنے کے بجائے مفادات کی جنگ میں دھونس دیا۔جیسے جیسے ملک میں سیاسی وغیرسیاسی،پارلیمانی و غیر پارلیمانی اور دینی و مذہبی گروہوں میں رنجش و چپقلش بڑھتا گیا ویسے ویسے ملک میں معاشی معاشرتی، سماجی، ادارہ جاتی اور خاندانی تفریق کا عفریت پھیلتا گیا۔

اب گزشتہ 10 سالوں سے تو دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کا بھی فرق ختم ہو گیا ہے اور سیاسی جماعتیں بغیر کسی نظریے اور وژ ن کے بے جان مردے کی مانند ہیں اور روح و ضمیر کے بغیر بے سدھ و بے سیدھ کھڑے ہیں۔گزشتہ 50 برس سے طبقاتی نظام نے غریب عوام کو اپنے گرداب میں پھنسا کر رکھا ہے۔جہاں حکمران طبقے نے معاشرے کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا ہے وہاں دینی و مذہبی طبقے نے بھی اپنی ذاتی دکان کو چمکانے پر دھیان دیا ہے۔ایلیٹ مائنڈ سیٹ نے عصری تعلیم اور مدرسہ تعلیم میں خلیج پیدا کر دی۔ سکول میں پڑھنے والے بچوں کو ماڈ سکواڈ جبکہ مدرسہ اسکالر کو مولوی کا خطاب ملا۔ حالانکہ عصری تعلیم کا مطلب تھا زمانہ کی تعلیم (یعنی حالات حاضرہ کی آگاہی) جبکہ مدرسہ تعلیم کا مطلب انسان کی دینی تربیت کا حصول۔ اور جب دونوں تعلیمات کسی ایک میں ہوں تو اسے عصر الرجال کہا جاتا ہے مگر جب ا ن میں سے کسی ایک تعلیم یا اسکی آگاہی میں کمی ہو تو پھر تربیت سازی اور اخلاق سازی میں فرق ضرور پڑھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیاسی یا غیر سیاسی نظام بذات خود کوئی سند، نظریہ، ڈاکٹرائین یا روش نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ رویوں کا نام ہے۔سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں نے خود کو حقیقی جمہوری رویوں سے عاری کر کے نفرت اور جہالت کی بنیادی اینٹ رکھی ہے۔ یقین جانیے! یہ اینٹ کسی خوبصورت گھر کی تلاش میں ہے اور وہ گھر پیاراپاکستان ہے اور یہ اینٹ اس میں جمہوری سوچ رکھنے والے ہی پیوست کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو ایک سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ صحیح معنوں میں سیاسی اور جمہوری ہو۔ایسی قیادت جو کہ مسلکی تفرقہ بازی سے بالا تر ہو کر بات کرے اور جمہوری نظام کو قرآن وسنت کی روشنی میں اسلامی بنیادوں پر استوار کرے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران غیر کی چال بازیوں، ریشہ دوانوں اورجنگوں سے خود کو الگ رکھیں اور معتدل انداز میں چلتے ہوئے انصاف کے نظام کو بحال کریں۔ کیونکہ 73 ء کے آئین کے مطابق جس دن انصاف کا نظام نافذ ہو گیا اس دن پاکستان ترقی و خوشحالی کے درجے پر سرفہرست ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply