حجاب سے بَیر ہے یا مسلمانوں سے؟ ۔۔ابھے کمار

اُتر پردیش اور پنجاب سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے اہم اسمبلی انتخابات سے عین قبل، بھگوا طاقتوں نے ایک بار پھر مسلم مخالف کارڈ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ اس بار ہنگامہ حجاب کے مسئلہ کو اُچھال کر کیا جا رہا ہے۔ کوشش بھی اس بار یہی ہے کہ حجاب کے ذریعہ لوگوں کو مذہبی بنیاد پر گولبند کیا جائے۔ مگر طویل مدتی منصوبہ یہ ہے کہ حجاب کے ایشوز کی آڑ میں مسلم طالبات کو ناخواندگی کے کنوئیں میں دھکیل دیا جائے اور مظلوم اقلیت پر ہی شدت پسند اور خواتین مخالف ہونے کے بیانیہ کو مزید طاقت دی جائے۔ مگر سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لبرل اور حقوق نسواں کے پاسبان اس پورےکھیل کو یا تو سمجھ نہیں رہے ہیں یا دانستہ طور پر سمجھنا نہیں چاہتے ہیں اور کئی بار مظلوم کو ہی قصوروار ٹھہرا کر بھگوا طاقتوں کا کام آسان بنا رہے ہیں۔

حجاب کے مسئلے پر تازہ معاملہ ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں سامنے آیا ہے، جہاں بھگوا طاقتیں بر سر اقتدار ہیں ۔کچھ دنوں پہلے کرناٹک انتظامیہ نے حجاب پوش مسلم طالبات کو کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا ہے، جس کے خلاف زبردست احتجاج ہو رہا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ملک کی کئی سیکولر اور سماجی انصاف کی پارٹیوں نے مظاہرین کی  حمایت کی ہے۔ مگر بھگوا سرکار اپنے فیصلہ کو واپس لینے کے بجائے اس معاملے پر انتہائی افسوسناک بیان دیا ہے کہ ایسے کپڑے مساوات ، ملک کی سالمیت اور نظم و ضبط کو تباہ کرتے ہیں اسے کلاس روم میں پہننے کی اجازت نہیں دی جائےگی اورایسی پابندی شہریوں کی  مذہبی آزادی کے خلاف بھی نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں، اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے بھگوا حکومت نے کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۸۳ کا بھی سہارا لیا ہے اور کہا ہے کہ کالج کے ذریعہ طے شدہ لباس کو پہننا طلبہ اور طالبات پر لازم ہے۔

ایسی باتیں کہہ کر بھگوا حکومت عدالت اور پبلک کے سامنے خود کو قانون کے راستہ پر چلنے والی سرکار بتلانا چاہتی ہے۔ مگر اس کی اصل منشا مسلمانوں کے زخم  پر  مزید نمک چھڑکنا ، ان کو پسماندہ اور مذہبی شدت پسندقرار دینا ہے اور خود کو آئین کا محافظ اور مساوات اور خواتین کےحقوق کا چیمپئن بتانا ہے۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ حجاب پر پابند ی لگانے کا یہ فیصلہ نہ صرف مسلم خواتین بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی بھگوا حکومت کر رہی ہے، ویسی نفرت انگیز اور مسلم مخالف پالیسی یور پ اور دنیا کے دیگر حصوں کی دائیں بازو حکومتوں نے پہلے ہی اپنا لیا ہے اور اس طرح سے انہوں نے سماج کے اندر   کشیدگی پیدا کی ہے۔ سرکار کو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی زبان کانپتی ہے کہ کیسے کوئی پوشاک نظم و ضبط کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے؟ کیا سرکار نے کوئی تحقیق کی ہے جس کی بنیاد پر وہ کہہ  سکتی ہے کہ حجاب پہنے والا جرائم پیشہ ہوتا ہے اور بھگوا چولا پہننے والا نہ تو کسی مذہبی مقامات کو مسمار کر سکتا ہے، نہ ہی وہ کسی فسادات میں حصہ ہی لے سکتا ہے اور نہ وہ بم دھماکہ میں شامل ہو سکتا ہے؟

حجاب پر پابندی سے بھگوا طاقتوں کو وقتی فائدہ یہ مل سکتا ہے کہ اس طرح کے تنازعات رائے عامہ کی  سمت   کو بنیادی سوال سے ہٹا کر مذہبی اور جذباتی مسائل کی طرف کر دیتے ہیں۔ بھگوا طاقتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ دن رات دھرم اور مذہب پر بات ہو اور لوگ خود کو اپنے مذہبی تشخص سےباہر نہ دیکھیں ۔ ملک کی اقتصادی پالیسی کس سمت میں جا رہی ہے، لوگوں کو روزگار اور صحت عامہ کی سہولت کس حد تک مل پا رہی ہے، نوجوان کیسی تعلیم لے پار ہے ہیں، ان سارے سوالوں سے بھگوا سیاسی جماعت ہمیشہ سے بھاگتی رہی ہے ۔ کورونا وبا کے دوران بھی جب ساری دنیا بیماری سے لڑ رہی تھی اور غریب اور مزدوروں کو مدد پہنچائی جا رہی تھی، تب بھی بر سر اقتدار بھگوا جماعتوں نے کورونا کا مذہب دھونڈنکالا اور اس کے پھیلاوٴ کے لیے تبلیغی جماعت اور مسلمان کو بلی کا بکرابنایا ۔ سرکار کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے، مسلمانوں کو گالی دی گئی اور ان  کا معاشی بائیکاٹ تک کیا گیا۔ بہت سارے مسلمانوں کو جیل تک بھیجا گیا۔کچھ ایسا ہی گیم پلان اس بار حجاب کے تنازع  میں بھی دِکھ رہا ہے۔

حجاب پر بین لگا نے کے پیچھے ایک بڑی سازش یہ ہے کہ پہلے سے ہی تعلیمی طور پر پسماندہ مسلم خواتین کو تعلیمی  میدان میں مزید  پیچھے دھکیلا جائے۔ اصول اور عمل میں بھگوا طاقتیں یہ کبھی بھی نہیں چاہتی ہیں کہ پسماندہ اور اقلیت طبقات کے افراد تعلیم یافتہ ہوں۔ ان کو ڈر ہےکہ اگر محکوم اور مظلوم پڑھ لکھ جائیں گے تو وہ ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں گے اور اس طرح غیر برابری اور استحصال پرمبنی ذات برادری کا یہ نظام ٹوٹ جائے گا اور اس کے مالک بنے ہوئے چند مٹھی بھر لوگوں کے ظلم و زیادتی بند ہو جائے  گی ۔ اعلیٰ طبقات کے اسی نظام نے صدیوں سے دلت، آدی واسی، پسماندہ اور خواتین کو تعلیم سے دور رکھا ۔ مہاتما  جیوتی با پھُلے اور بابا صاحبَ امبیڈکر ان باتوں کو سمجھتے تھے اور انہوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ۔ ان کی قربانیوں کی بدولت آزاد ملک کی  درس گاہ کو سب ذات اور دھرم کے لیے کھول دیا گیا ۔ اس وقت بھی اور آج بھی بھگوا طاقتیں یہ نہیں چاہتی ہیں کہ محکوم طبقات تعلیم حاصل کریں ۔حجاب پر بین لگا کر بھگوا حکومت مسلم طالبات کو اَن پڑھ رکھنا چاہتی ہیں، کیونکہ ان بہادر خواتین نے شہریت ترمیمی قانون کے دوران یہ دکھلا دیا تھا کہ عورتیں تحریک کی قیادت کرنا بھی جانتی ہیں۔ یاد رکھیے پرائیویٹ یونیورسٹی اور کالج نے پہلے ہی اپنے کیمپس کے باہر موٹی فیس کی اونچی دیواریں کھڑی کرکے  محکوم طبقات کو تعلیم سے محروم کر  دیا ہے اور جو مسلم خواتین سرکاری تعلیمی اداروں میں کسی طرح پڑھ لیتی تھیں ، اب ان کو باہر کرنے کا  ماسٹر پلان تیار کر لیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں ایک طرف بھگوا طاقتیں حجاب پر بین لگا کر اپنی مسلم مخالف سیاست کو آگے بڑھا رہی ہیں، وہیں کچھ لبرل اسکالر اور ایکٹویسٹ بھی حجاب کے خلاف بیان دے کر بھگوا سیاسی جماعت کےبیانیہ کو تقویت فراہم کر رہے ہیں۔ان لبر ل جماعت کے ساتھ دِقت یہ ہے کہ وہ ریاست اور سماج کو زمین پر دیکھنے کے بجائے کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ یہ سچ بات ہے کہ بھارت میں ایک سیکولر آئین ہے اور یہاں کے شہر وں کو مذہب کی آزادی اور اقلیتی حقوق دیے گئے ہیں۔ مگر اچھا قانون بن جانا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ سماج میں سب کو انصاف مل جائےگا ۔ اگر قانون کو نافذ کرنے والے لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہو اور محکوم طبقات کو اقتدار سے باہر رکھا جائے تو سماج میں ظلم کا سلسلہ نہیں روک پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے سماج، معیشت اور سیاست میں اکثریت سماج کا ہی تسلط قائم ہے۔ جب بھگوا طاقتیں اقتدار میں قابض ہو جاتی ہیں تو یہ تسلط صاف طور سے ہر جگہ دکھنے لگتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا لیڈر کورونا وباکے سارے احتیاط کو طاق پر رکھ کر ایودھیا میں مندر کے سنگ بنیاد کے موقع پر پوجا پر بیٹھ جاتا ہے ، مگر ملک کے ٹی وی چینل اسے سیکولرازم کی پامالی نہیں بلکہ ملک کو  مضبوط کرنے والا قدم بتاتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں پروگرام کی شروعات پوجا پاٹھ اور دیپ جلا کر ہوتی  ہے، ان سب کاموں کو جائز کہا جاتا ہے۔اتنا ہی نہیں ان موقع پر سنگھ پَرچارک سرکاری مہمان ہوتے ہیں اور و ہ اپنی تقریر میں بھارت کی تمام برائی کے لیے مغلوں اور مسلمانوں کوکوستے ہیں ، مگر اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتا ۔ وہیں دوسری طرف با حجاب خواتین کو مجرم سمجھ کر درس گاہوں میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ یہ پابندی سرکار کی بیٹی بچا وٴ اور بیٹی پڑھاوٴ کی سچائی کو بھی بیان کرتی ہے۔ اس بڑی سازش سے لڑنا ہی ہوگا ۔ظلم کے خلاف مزاحمت ہی تو زندہ ہونے کی علامت ہے۔
( مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں) 

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply