جدید استعماریت اور چین۔۔محمد ہاشم

استعماریت (colonialism) کا نام آتے ہی سب سے پہلے جس عظیم سلطنت کا نام ذہن میں آتا ہے وہ ہے عظیم برطانیہ یا تاج برطانیہ (Great Britain)۔
سلطنت برطانیہ نے اپنی سب سے پہلی Established کالونی بادشاہ جیمز ششم (James VI) کے دور میں سنہ 1607 میں موجودہ امریکی ریاست ورجینیا کے شہر جیمزٹاؤن میں قائم کی۔
تب سے لے کر سنہ 1920 تک برطانیہ دنیا کے خشک حصے کے 24% فیصد پر قابض ہوچکا تھا اور تب برطانوی سلطنت کے لئے ایک مشہور جملہ کہا جاتا تھا کہ “وہ سلطنت جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا”۔

برطانیہ کسی ملک یا ریاست پر قبضہ کرنے کے لئے یا تو تجارت کے بہانے گھس جاتا اور اپنی طاقت و چالاکی کی بنیاد پر قبضہ کر لیتا یا پھر غریب اور جدید دنیا سے دور افریقی ممالک پر ترقی, شعور اور اپنی جدیدیت سے روشناس کرانے کے بہانے قبضہ کر کے ان کو غلام بنایا کرتا تھا۔

تب کا دور ایک تاریک دور تھا جب گلوبل ولیج کا تصور دور دور تک نہیں تھا اور عالمی اتحاد, جدید ترقی, انسانی حقوق اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ وہ دور طاقتور کا دور تھا اور برطانیہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کہیں بھی قبضہ کرتا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

اب جبکہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ انسانی حقوق, آزادی و خودمختاری, عالمی اتحاد اور تحریری و غیر تحریری معاہدوں کے باعث ایسا ممکن نہیں کہ کوئی بھی ملک دوسرے ملک پر قبضہ کر کے ویسی کالونی بنائے جیسے برطانوی راج میں ہوتا رہا ہے۔
لیکن دور جدید میں بھی استعماریت (colonialism) کا ایک ایسا نظام چل رہا ہے جس سے دوسرے ممالک پر قبضہ کیا جارہا ہے اور ایسے شاطر طریقے سے کیا جا رہا ہے کہ دنیا کچھ کہہ بھی نہیں سکتی اور وہ ممالک یا ریاستیں خود اپنی مرضی سے اس ملک کی کالونی بنتی جارہی ہیں۔

اس جدید استعماریت کا بادشاہ ہے ہمارا ہمسایہ ملک چین۔
جدید دور بلاشبہ معاشی ترقی کا دور ہے اور ایک مضبوط اور ابھرتی معیشت ہی اصل طاقت رکھتی ہے۔ چین نے اپنی آزادی کی آدھی صدی میں ہی ترقی کے وہ منازل طے کئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ آج چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ سے بھی کھلے عام ٹکر لیتا ہے۔

چین نے جہاں اپنی معاشی ترقی اور طاقت سے اپنے ہمسایوں انڈیا, پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے زمینی خطوں پر قبضہ کیا یا قبضہ حاصل کیا ہے وہاں اپنے جغرافیائی حدود سے دور افریقی ممالک جبوتی, زیمبیا, جنوبی افریقہ نائیجیریا اور افریقہ کے جنوبی صحرائی ممالک اور سری لنکا کو بھی اپنے تسلط میں شامل کیا ہوا ہے۔

سرد جنگ کے دوران جب مغربی ممالک نے براعظم افریقہ سے نظریں ہٹائیں ، تو بیجنگ نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس معدنیات کی دولت سے مالامال خطے پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے۔
سنہ 2005 سے 2018 تک چائنہ نے جنوبی افریقی ممالک میں قریب 300 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور ایک اندازے کے مطابق اس خطے میں چائنہ کی دس ہزار سے زائد کمپنیز کام کر رہی ہیں۔
چائنہ کی استعماریت کی کئی مثالیں ہیں مگر دو مثالیں ایسی ہیں جن کی سٹڈی سے ہم چینی استعماریت (Chinese colonialism) کے بارے میں بہت کچھ جان جائیں گے ان میں افریقی ملک جبوتی اور بحرہند میں واقع جزیرہ سری لنکا شامل ہے۔

جبوتی مشرقی افریقہ کا ایک چھوٹا ملک ہے جو کہ بحیرہ احمر میں داخل ہونے والے خلیج عدن کے ساتھ واقع ہے۔ اگر دنیا کے نقشے پر دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ جبوتی کی سٹریٹجک لوکیشن کی اتنی اہمیت ہے کہ ایشیا اور یورپ کی تجارت جو بحیرہ احمر سے نہر سویز کے ذریعے گزرتی ہے جو کہ دنیا کی کل تجارت کا 20 فیصد ہے , جبوتی کے ساحلوں سے ہو کر گزرتی ہے۔

چین نے جو میگا پراجیکٹس جبوتی میں لگائے ہیں ان میں دورالیھ ملٹی پرپز پورٹ(Doraleh Multipurpose port)کی تعمیر سب سے نمایاں ہے۔ اسکے علاوہ ایتھوپیا اور جبوتی کے درمیان افریقہ کی پہلی الیکٹرک ٹرین (چار بلین ڈالر) اور ایتھوپیا سے جبوتی پانی کی پائپ لائن (تین بلین ڈالر) کی تعمیر بھی چینی بینکوں کی انویسمنٹ سے کی گئی۔

ایک ملین سے بھی کم آبادی, ایک اعشاریہ آٹھ بلین GDP والے قدرتی وسائل سے خاصا محروم ملک جبوتی اتنی بڑی “انویسٹمنٹ” کو واپس نہیں کر پایا اور بدلے میں چین نے 590 ملین ڈالر سے بندرگاہ کے قریب اپنی فوج پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کے لئے افریقہ میں پہلا بیس کیمپ بنا لیا اور یوں جبوتی اب چین کے مضبوط ہاتھوں میں “محفوظ” ہے۔

دوسری اہم مثال سری لنکا کی ہے جو چائنہ کے “قرض جال”(Debt trap) میں پھنس کر چائنہ کی جھولی میں گرا۔

سنہ 2007 میں سری لنکا نے EXIM BANK چائینہ سے قرض لے کر ساحلی شہر ہمبنٹوٹا میں بندرگاہ کی تعمیر شروع کی۔ ماہرین کے مطابق اس بندرگاہ کی تعمیری لاگت اور آمدنی کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی قرض لے کر تعمیر سری لنکا کے لئے ایک گھاٹے کا سودا تھا۔ 2016 میں سری لنکا کے گردشی قرضے بڑھے اور زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر گئے۔ ایسے میں سری لنکا چین کے قرضے کی ادائیگی نہیں کر پایا۔ چین کا قرضہ اگرچہ سری لنکا کے بیرونی قرضے کا صرف 5 فیصد تھا, لیکن سری لنکا کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور جاپان سمیت دوسرے قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی تھی۔ ایسے میں چین نے موقع غنیمت جانا اور اپنی ہی کمپنی CM Port کے ذریعے ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کے عوض 99 سالہ لیز پر لے لیا۔ اب سری لنکا کی بندرگاہ 99 سال کے لئے چائینہ کے پاس ہے اور موجودہ چین سری لنکا قرض کا حجم 5 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہوچکا ہے۔
یوں اب سری لنکا ہر طرح سے چین کے جھولی میں ہے اور اپنی رضامندی سے ہے۔

اس طرح کی کئی مثالیں جن میں جنوبی افریقہ, جمہوریہ کانگو, مالدیپ, کمبوڈیا, کرغزستان, تاجکستان, نائیجر زیمبیا اور منگولیا سمیت کئی ممالک شامل ہیں جو اس چائینہ کے قرض جال میں پھنس چکے ہیں۔ چین نہ صرف ترقی پذیر ممالک میں اپنا جال بچھا رہا ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک یہاں تک کہ امریکہ کو بھی اپنے قرض تلے جکڑ چکا ہے اور اپنی تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے طاقتور ممالک کو بھی جھکنے پر مجبور کر رہا ہے۔

اب آتے ہیں اپنے مملکت خداداد پاکستان کی طرف جہاں چین ایسا ہی ایک جال CPEC کے نام پر بچھا چکا ہے اور ہم چائنہ کی انویسٹمنٹ پہ پھولے نہیں سما رہے ہیں۔
چین کے One Belt One Road پراجیکٹ کے تحت بننے والا چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور CPEC ایک ملٹی بلین ڈالر پراجیکٹ ہے جو کہ چائنہ کی فنڈنگ سے تعمیر ہورہا ہے۔ اس پراجیکٹ میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر, ہائے ویز, ریلوے ٹریکس, فائبر آپٹکس, ڈرائی پورٹس جیسے کئی پراجیکٹس شامل ہیں۔ اب تک پچھلی دونوں حکومتوں اور موجودہ حکومت کی طرف سے اس انویسٹمنٹ, قرض کے حجم اور شرائط کے حوالے سے جو بھی فگرز دیے گئے ہیں ان کو مشکوک اور نامکمل کہا جارہا ہے اور اس پراجیکٹ کے حوالے سے مختلف طبقات جن میں مقامی اور عالمی ادارے شامل ہیں, میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں یہ پراجیکٹ ہمارے لئے چینی استعماریت کا جال ثابت نہ ہو۔

بلاشبہ CPEC ہمارے لئے ایک گیم چینجنگ منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی لیکن اگر ہم نے اپنی کرپشن, نااہلیوں اور بدانتضامیوں پر قابو نہیں پایا اور اپنی معیشت کو درست سمت میں آگے نہیں بڑھایا تو خاکم بدہن ہم اگلا سری لنکا یا اگلا جبوتی بن جائیں گے (اللہ نہ کرے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھنا جدید دور معاشی جنگ کا دور ہے اور اگر آپ کی معیشت مضبوط نہیں ہے تو آپ کا ایٹم بم بھی آپ کو دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکتا اور اللہ نہ کرے ہم اپنی اصل طاقت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اللہ ہمیں اس جال سے بچائے اور ملک کو خوشحالی کے راستے پر ڈالے اور ہمارے حکمرانوں کو بہتر فیصلے کرنے کی سمجھ اور شعور عطا فرمائے۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply