بکرے اور اس کے مالک سے معذرت۔۔عطا الحق قاسمی

گزشتہ روز میں نے اخبار میں ایک بکرے کی تصویر دیکھی جس کے نیچے لکھا تھا کہ اس بکرے کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے، بہت جی چاہا کہ اس بکرے کے خصائص پر ایک کالم لکھا جائے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس مالیت کا بکرا بیس سیر دودھ صبح اور بیس سیر دودھ شام دیتا ہو گا، اگرچہ بکرے کا دودھ دینا خلافِ وضع فطری عمل ہے لیکن اس کے نرخ اگر بالا ہوئے ہیں تو یقیناً یہ بکرا غیرمعمولی صفات کا حامل ہوگا۔ تاہم اس بکرے کی جو تصویر میں نے دیکھی ہے، اس میں تو کوئی غیرمعمولی بات مجھے نظر نہیں آئی لیکن ممکن ہے یہ بکرا بھی جو دیکھنے میں بالکل بکرا لگتا ہے اپنی برادری میں خاصا حسین و جمیل شمار ہوتا ہو اور جن بکریوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہوئے ان کے والدین اس کے آگے پیچھے پھرتے ہوں۔ اسے اپنے گھر مدعو کرتے ہوئے اور اس کے سامنے ’’ونڈ‘‘ رکھتے ہوئے کہتے ہوں کہ یہ ڈش عزیزہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے اور میرے اس شبے کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ یہ عزیز غالباً اسی طرح کی دعوتیں کھا کھا کر ہی خوب پلا ہوا ہے، وجہ خواہ کچھ بھی ہو، یہ بکرا مجھے تصویر میں خاصا صحت مند اور اسمارٹ لگا ہے۔ تاہم اخبار میں صرف اس بکرے کی تصویر شائع ہوئی ہے، اس کے مالک کی تصویر شائع نہیں ہوئی، اگر مالک کی تصویر بھی شائع ہوئی ہوتی تو میں پورے تیقن سے کچھ اور معروضات بھی پیش کرتا۔ چنانچہ تصویر کی عدم موجودگی کی وجہ سے محض شواہد کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس بکرے کا مالک ان پڑھ اور سیاسی شعور سے بےبہرہ لگتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں اونچے، لمبے اور بارعب شخصیت کے حامل لوگوں کے کس قدر قدر دان موجود ہیں۔ ہمارے ہاں لیڈر شپ کا بنیادی معیار لیڈر کا ’’اُچا، لمّا تے سوہنا‘‘ ہونا ہے چنانچہ ماضی میں ایسے لوگوں کو بھاری تعداد میں ووٹ بھی ملتے رہے ہیں۔ اس ’’اُچّے، لمّے تے سوہنے‘‘ بکرے کا مالک اگر ان پڑھ نہ ہوتا اور سیاسی شعور سے اس قدر بےبہرہ نہ ہوتا تو اسے ڈیڑھ لاکھ میں فروخت کیلئے پیش نہ کرتا بلکہ انتخابات کا انتظار کرتا اور اسے الیکشن میں کھڑا کر دیتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ’’جوانِ رعنا‘‘ بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوتا اور اس بکرے کے مالک کے کروڑوں روپے کھرے ہو جاتے مگر افسوس
بکرا فرو ختند وچہ ارزاں فرو ختند
تاہم ممکن ہے میں نے بکرے کے مالک کے بارے میں جو مفروضہ قائم کیا ہے کہ وہ ان پڑھ اور سیاسی شعور سے بےبہرہ ہے، صداقت پر مبنی نہ ہو، بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہو یعنی وہ سیاسی شعور سے اس قدر بہرہ ور ہو کہ اس نے انتخابات کا انتظار کرنے کی بجائے ’’ہتھوں ہتھ‘‘ ڈیڑھ لاکھ روپے کھرے کرنے ہی میں اپنی بہتری سمجھی ہو کہ
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
یعنی ممکن ہے جب انتخابات ہوں اس وقت تک یہ جوانِ رعنا چھڑی کے سہارے چلتا ہو۔ اس کے ہاتھوں میں رعشہ ہو اور یہ طاقت کے ٹیکے لگوا کر ’’یادِ ایامِ عشرت فانی‘‘ تازہ کرتا ہو۔ سو اس بکرے کے مالک نے جو فیصلہ کیا ہے وہ مجھے خاصا عقل مندانہ لگا ہے۔ تاہم میرا برادرانہ مشورہ یہ ہے کہ عام انتخابات نہیں تو بلدیاتی انتخابات بہرحال ہونے ہیں۔ چنانچہ وہ اگر اس بکرے کو بلدیاتی انتخابات کیلئے تیار کرے تو اس کی کامیابی یقینی ہے بلکہ اس کا امکان بھی موجود ہے کہ وہ میئر کا انتخاب بھی جیت لے چنانچہ اگر یہ بکرا میئر ہو جائے تو بھی اس کے مالک کے وارے نیارے ہیں مگر ممکن ہے میرا یہ مشورہ بعد از وقت ہو یعنی یہ بکرا اب تک ڈیڑھ لاکھ میں بک بھی چکا ہو، یہ بات میں یوں کہہ رہا ہوں کہ ہمارے جوہرِ قابل کو بکتے دیر نہیں لگتی۔
خیر یہ ساری باتیں تو بلا ارادہ قلم پر آ گئیں، حالانکہ میں تو اس بکرے کے خصائص پر کالم لکھنا چاہتا ہوں مگر جھجک اس لئے رہا تھا کہ اتنے قیمتی بکرے پر اگر بکرے کی اجازت کے بغیر کچھ لکھا تو کہیں وہ مجھ سے رائلٹی کا مطالبہ نہ کر دے کہ میں نے اپنے کالم میں اس کا نام استعمال کیا ہے۔ دوسرے بڑے لوگوں کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے یوں بھی ڈرلگتا ہے کہ کوئی لفظ ادھر ادھر ہو گیا تو کہیں ہتکِ عزت کا دعویٰ نہ دائر کر دیں۔ چنانچہ اس کالم میں نہ لکھنے کے ارادے کے باوجود اگر میں اس ذی شان بکرے کے بارے میں کچھ لکھ گیا ہوں تو یقین جانیں بہت ڈرتے ڈرتے اور سنبھل کر لکھا ہے کہ کہیں یہ بکرا مجھ سے ہتک عزت کے نام پر لاکھوں نہ وصول کر لے تاہم اس احتیاط کے باوجود اگر میرے قلم سے کوئی غیرمحتاط لفظ نکل گیا ہو یا کوئی ایسا فقرہ مجھ سے لکھا گیا ہو جس سے بکرے یا اس کے مالک کی شان میں کوئی گستاخی سرزد ہو گئی ہو تو میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں ۔میرے دل میں تو ایسے بکروں کیلئے بےپناہ عزت ہے جو اگر بکائو مال ہیں تو کھل کر اس کا اعتراف کرتے ہیں، خود کو ناقابلِ فروخت نہیں کہتے۔ اسی طرح ان کے مالک بھی میرے لئے قابل احترام ہیں جو بکروں کو پال پوس کر ان کے دام کھرے کرتے ہیں اور پھر ان کی گردنوں پر چھریاں چلنے کیلئے ان کی رسی گاہک کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ یہ بڑے کھرے لوگ ہیں یہ قربانی کے بکرے پالتے ہیں اور انہیں قربانی کا بکرا کہہ کر ہی آگے فروخت کرتے ہیں، خود کو اُن کا خیر خواہ یا محافظ نہیں کہتے!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply