گھر تو آخر اپنا ہے۔۔سلیم احسن نقوی

گھر تو آخر اپنا ہے۔۔سلیم احسن نقوی/باقی تمام بنی نوع آدم کی طرح میری پیدائش سے پہلے مجھ سے نہیں پوچھا گیا کہ میں کون سے خاندان میں، کس علاقے میں، اور کس دور میں پیدا ہونا پسند کروں گا۔ میری مادری زبان کیا ہوگی اور میرا مذہب کیا ہوگا اس سلسلے میں بھی میری رائے نہیں لی گئی۔ دنیا کہ دوسرے انسانوں کی طرح میں بھی جب پیدا ہوا تو اتنا لاچار تھا کہ ان ضروری امور پر رائے لیے بغیر پیدا کر دیے جانے پر احتجاج نہیں کر سکا، نہ ہی (پتہ نہیں کس سے) مذاکرات کرکے ان میں سے کسی چیز کو تبدیل کروانے کی پوزیشن میں تھا۔ میں نے تو آنکھ کھول کر جس عورت کو ماں کے روپ میں دیکھا اس کو ماں مان لیا اور جس مرد کو باپ کے روپ میں دیکھا اسے دل و جان سے باپ مانا۔

ہوش سنبھالنے کے بعد جب مجھ میں تھوڑا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ میرے والدین کے نام کیا ہیں، میرے دادا دادی، چچا اور پھوپھیاں، خالائیں اور ماموں کون ہیں اور مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ پھر سالگرہ پر تحفے ملنے کی وجہ سے پتہ چلا کہ میں 4 جنوری 1961 کو پیدا ہوا تھا۔ اسی طرح رفتہ رفتہ یہ بھی پتہ چلا جہاں میرا گھر ہے وہ محلہ ناظم آباد نمبر 3 کہلاتا ہے اور یہ جگہ ایک شہر کے اندر ہے جس کا نام کراچی ہے اور وہ شہر ایک صوبے میں واقع ہے جس کا نام مغربی پاکستان ہے اور یہ پاکستان نامی ملک کا ایک صوبہ ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ جس زبان میں میرے بڑے مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں وہ اردو کہلاتی ہے۔ مجھے بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ پوری دنیا اردو نہیں استعمال کرتی ہے بلکہ دنیا میں اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری زبانیں ہیں۔ یہ انکشاف بھی بچپن میں ہوا کہ میں مسلمان ہوں۔ وہ ہوتا کیا ہے، مجھے اس وقت اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔

مجھے بچپن میں اسکول جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس دنیا میں ہر طرف ملک ہی ملک پائے جاتے ہیں اور قطب شمالی اور قطب جنوبی کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو کسی ملک کے اندر نہ واقع ہو۔ یعنی میری پیدائش بہت سے پہلے ہی دنیا میں گھٹتی بڑھتی سلطنتوں کا رواج ختم ہو چکا تھا اور اس کی جگہ پائیدار سرحدوں والی قومی ریاستیں لے چکی تھیں۔

میں تو اس وقت پیدا نہیں ہوا تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ قومی ریاست تھی جس نے اپنے باشندوں کو رعایا سے شہری بنایا اور بادشاہ وقت کی مرضی کے بجائے کسی آئین کے حساب سے ملک کو چلانے داغ بیل ڈالی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ چاہے یہ نظام اچھا ہو یا برا آج کی دنیا ‘ملک’ کی دنیا ہے اور ہر ایک کو کسی نہ کسی ملک کا شہری ہونا پڑتا ہے، اور کسی کو بھی اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ جو لوگ کسی ریاست سے تعلق نہیں رکھتے یعنی اسٹیٹ لیس ہوں ان کا حال روہنگیا لوگوں کا جیسا ہو جاتا ہے یا ان کی ساری زندگی پناہ گزین کیمپوں میں ذلیل ہوتے ہوئے گزر جاتی ہے اور ہر طرف سے دھتکارا جاتا ہے یا ان پر ظلم و ستم کیے جاتے ہیں۔ جن کے علاقوں پر کوئی اور قبضہ کر لے ان کا حال فلسطینیوں اور کشمیریوں جیسا اور جو لوگ اپنے موجودہ ملک کے بندوبست کو تسلیم نہ کریں ان کا حال کردوں اور چیچنیا والوں والا ہو جاتا ہے۔ ایک نظام میں ایک چیز اور اہم ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کے لیے ماں جیسا ہونا چاہیے اور اسی لیے کئی صدیوں سے انگریزی میں ملک کو
Mother landکہا جاتا ہے۔

جیسے جیسے ہوش سنبھالا میں نے دیکھا کہ شہری اپنی زندگی کی بہت ساری چیزوں کے لیے اپنے ملک کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ محتاجی اس کی پیدائش کے وقت سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ جس ہسپتال میں وہ پیدا ہوتا ہے اس کو چلانے کے لیے بجلی کا نظام کھڑا کرنا اس ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے، دوائیں اور ہسپتال میں استعمال ہونے والا سامان ملک میں قائم فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے یا سرکاری اصولوں کے تحت دوسرے ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ہسپتال سے گھر جانے کے لیے جس سواری کا استعمال کیا جاتا ہے وہ دوسرے ملک سے سرکاری طور پر درآمد کی جاتی یے، جس سڑک پر وہ گاڑی سفر کرتی ہے وہ ریاست نے بنائی ہوتی ہے، جس گھر میں وہ بچہ جا کر اتارا جاتا ہے وہ سرکاری طور پر الاٹ کی گئی زمین پر بنا ہوتا ہے۔ اس کی بجلی، گیس، اور گٹر کی لائنیں سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر غور کریں تو آج کے دور کے انسان کی تعلیم، صحت، نقل و حمل، بجلی، گیس، انفراسٹرکچر قسم کی ساری ضروریات صرف اس کا ملک پوری کر سکتا ہے۔ الغرض انسان اپنے جھولے سے قبر تک اپنے ملک کا محتاج ہوتا ہے۔

اپنے بچپن میں میں نے لفظ حب الوطنی سنا اور ساتھ ہی معلوم ہوا کہ ریاست اپنے شہریوں سے وفاداری کا تقاضہ کرتی ہے اور یہ شہری اور ریاست کے درمیان معاہدے کا حصہ ہونے کی وجہ سے آئین میں شامل ہوتی ہے۔

خیر، میں سن 2014 میں سوشل میڈیا پر آیا تو دیکھا کہ یہاں تو دنیا ہی الگ ہے۔ یہاں شہری اپنے ملک سے کھلے عام نفرت کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ ان کی شکایتیں جائز بھی ہو سکتی ہیں  اور ناجائز بھی لیکن ان کا شکایت کرنے  ککا انداز اکثر و بیشتر ایسا نہیں ہوتا ،جس سے لگے کہ آدمی اپنی کسی چیز سے ناراض ہے اور چاہتا ہے۔کہ اس میں سدھار لایا جائے، بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کسی دشمن ملک یا اس کے اداروں کا ذکر کیا جا رہا ہو۔
بعض اوقات سیاست اور اس میں ایک محکمے کی مداخلت کو بہانہ بنا کر ملک دشمن بات کی جاتی ہے۔ بعض اوقات کسی گروپ کے ساتھ واقعی تعصب یا ظلم  کیا گیا ہوتا ہے۔ مگر جو غیریت، نفرت، اور دشمنی میں نے پاکستان کے شہریوں کی اپنے ملک اور اس کے اداروں کے لیے دیکھی اس کے لیے یہ کہہ سکتا ہوں کہ
I am staggered by its vehemence.

مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ایسے لوگ دانشور کہلاتے ہیں، اور جو جتنی زیادہ کاٹ والے جملے بول سکتا ہے اور جتنا زیادہ زہر اُگل سکتا ہے اس کی اپنے حلقۂ احباب میں اتنی ہی زیادہ عزت ہوتی ہے۔

میرے نزدیک ان دانشوروں کی یہ اقسام ہیں:

• کانگریس پارٹی کے نظریات رکھنے والے۔ یہ ملک کے قیام کو ہی غلط سمجھتے ہیں اور اکھنڈ بھارت کے حامی ہیں۔
• وہ مذہبی رجحانات رکھنے والے جو ‘امت’ کے تصور میں یقین رکھتے ہیں یعنیPan Islamists.
یہ نظریاتی لوگ ہیں اور پوری دنیا میں ایک خلافت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے سرحدوں کی تقدیس کوئی معنی نہیں رکھتی۔
• تیسری قسم میں مذہبی رجحان رکھنے والے آتے ہیں جو یا تو خود شدت پسند ہیں اور خود دہشت گردی میں ملوث ہیں، یا دہشت گردوں کے میڈیا سیل چلاتے ہیں، یا ان کے ہمدرد ہیں اور تحریک قاتلان پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے فوج اور پاکستان کے دشمن ہو گئے ہیں۔
• چوتھی قسم ان مذہبی رجحان رکھنے والوں پر مشتمل ہے جو شدت پسند نہیں ہیں لیکن ان کی ناراضگی یہ ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور ملک میں 75 سال گزر جانے کے باوجود اسلامی نظام نہیں لایا گیا۔
• ایک قسم ان مذہبی لوگوں کی بھی ہے جو اس کی سرحدوں، یا اس کے وجود کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ اس میں ان لوگوں کو زندہ چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں جو ان کے مکتبۂ فکر کے حساب سے کافر ہیں
• مذہبی رجحانات رکھنے والوں کے بر خلاف ایسے لوگ بھی ہیں جو انتہا پسند سیکولر ہیں۔ وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جس ملک کی بنیاد مذہب پر رکھی جائے گی اس میں تو یہی کچھ ہوگا۔ وہ دو قومی نظریے اور قرارداد مقاصد کو سارے شر کی بنیاد ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اور مذہبی انتہا پسندی کے ہر نا خوشگوار واقعے پر ملک کے خلاف تبریٰ بھیجتے ہیں۔
• کچھ دانشور جمہوریت کی حمایت میں ملک دشمنی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خود کو کہتے تو جمہوریت پسند ہیں اور فوج کی سیاست میں مداخلت کو وجہ بنا کر یہ لوگ فوج اور ملک کے خلاف بہت زہر آلود باتیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کے قیام کو، اس کی موجودہ صورت حال کو بڑا تو کہتے ہیں لیکن جس ریاست کو وہ بُرا سمجھتے ہیں اس میں رائج سیاسی نظام سے بہت اپنائیت دکھاتے ہیں۔ یعنی ملک تو ہے ہی بُرا، اس میں جمہوریت کو نہ پنپنے دینے والے بہت بُرے ہیں۔ وہ ‘غدار’ کی اصطلاح کو لغت سے ہی نکال دینا چاہتے ہیں اور ہر پاکستان دشمن کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں اور علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے ان کے دل میں ایک وسیع نرم گوشہ ہوتا ہے۔
• پھر ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو قوم پرست کہلاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ وہ لوگ ہیں جو تمام انسانوں کی طرح بغیر کوئی مقابلے کا امتحان پاس کیے، بغیر کسی ذاتی کوشش کے محض حادثاتی طور پر کسی لسانی گروپ میں پیدا ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خود کو دوسرے لسانی گروپوں میں بغیر کوئی کوشش کیے اتفاقی طور پر پیدا ہونے والوں سے ممتاز رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں رہنے کی وجہ سے ان کی زبان اور ثقافت خطرے میں پڑ گئی ہے اس لیے ہر اس چیز کی مخالفت کرتے ہیں جو ریاست کی نمائندگی کرے: کبھی انہیں ملک کا قومی ترانہ جو اسکول کی اسمبلی میں وہ ہر صبح خود پڑھا کرتے تھے اجنبی لگتا ہے، کبھی انہیں ملک کی قومی زبان پر اعتراض ہوتا ہے، کبھی اداروں کی غلطیوں کی وجہ سے ان کے بارے میں ایسی نفرت انگیز زبان استعمال کرتے ہیں جیسی دشمن ملک کے شہری بھی استعمال کرنے کی جرآت نہیں کرتے۔
• کچھ لوگ ‘ادھر اور اُدھر’ کی وجہ سے ایک اور پڑوسی ملک میں موجود اپنے ہم زبان لوگوں کی محبت میں اپنے ملک کو بُرا سمجھتے ہیں اور اپنے ملک کی اقتصاد، اسٹیبلشمنٹ اور فوج میں بہت بڑا حصہ رکھنے کے باوجود اس کے بارے میں زہر اگلتے ہیں۔
• پھر ایک صوبے کے لوگ ایسی پوسٹس لگاتے ہیں کہ جیسے ان کا صوبہ 14 اگست 1947 سے پہلے ایک آزاد ریاست تھا اور اس کو 1843 میں انگریزوں نے فتح نہیں کیا تھا بلکہ وہ ابھی بھی ایک آزاد ریاست ہو۔ ان کی پوسٹس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں یہ پٹی پڑھائی گئی ہو کہ ایک آزاد ریاست مو صوبہ کہنا بہت توہین والی بات ہے۔
• ایک اور صوبے والے تو خیر مسلح بغاوت کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا پر وہ پھول تو برسائیں گے نہیں۔
• ایک اور گروپ ہے جو مانتاہے کہ اس کے بڑوں نے یہ ملک بنایا تھا اور وہ اس کے لیے اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر آئے اور جو ملک ان کے بڑوں نے بنایا اس میں ان کی کوئی قدر نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ ابھی تک صوبائی عصبیتوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستانی پہچان نہیں اپناتے۔ ان کو شکایت ہے کہ ان کے خلاف تعصب برتا جاتا ہے اور ان کو کوٹا سسٹم کے ذریعے ریاست کی سرپرستی میں پسماندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
• ان سب میں ایک گروپ وہ بھی ہے جو اس ملک میں بسنے والے ایک قسم کے لوگوں کی محبت میں، جن پر ایک اور قسم کے لوگوں نے بے حساب ظلم کیے تھے، کیوں کہ ظلم کرنے والے باقی چار قسم کے لوگوں کے ‘مظالم’ سے عاجز آ گئے تھے؛ اپنے پسندیدہ گروپ پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان چار قسم کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں جن کی دشمنی میں ایک گروپ نے ان کے پیاروں پر ظلم کیے تھے!

یہStockholm Syndromeکی بڑی عجیب قسم ہے۔

بات اگر سمجھ میں نہیں آئی ہو تو یوں بیان کروں کہ فرض کریں ایک ملک میں  چھ قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں 1 سے لے کر 4 تک ملک کے ایک حصے میں رہتے ہیں اور 5 اور 6 دوسرے حصے میں۔ اہم بات یہ ہے قسم 6 والے رہتے تو ہیں گروپ 5 کے ساتھ ان کے علاقے میں، لیکن ایک ملک ہونے اور لسانی قربت کی وجہ سے وہ خود کو قسم 1 سے 4 سے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔

پھر یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی حصے میں رہنے والے 1 سے 4 قسم والے ملک کے دوسرے حصے میں رہنے والی قسم نمبر 5 پر ظلم کرتے ہیں جس کا بدلہ قسم 5 والے قسم 6 سے لیتے ہیں کیوں کہ وہ ان کے علاقے میں ہی رہتے ہیں اور خود کو 1 سے 4 قسم کے لوگوں کے ساتھ زیادہAssociateکرتے تھے۔

اب قسم 6 کے سپورٹر ان پر ظلم کرنے والوں یعنی قسم 5 کو تو کلین چٹ دے دیتے ہیں لیکن قسم 1 سے 4 سے شدید نفرت کرنے لگتے ہیں کہ ان کی زیادتیوں کی وجہ سے قسم 5 نے قسم 6 پر ظلم کیے کیے اور انہوں نے ان کو بچایا نہیں۔ اب اس سے زیادہ بہتر طریقے سے میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔
میں یہ مانتا ہوں کہ 1 سے 4 قسم کے لوگوں کو قسم 6 کے لوگوں کا قسم 5 والوں سے دفاع کرنا چاہیے تھا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ فاصلے اور ظلم کے مقام پر قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے ان کا موثر دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن جس طرح انہیں قسم 5 کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ بے مروتی، بے شرمی اور بے غیرتی کی انتہا ہے۔
• ہمارے کچھ نظریاتی دوست اپنے بائیں بازو کے یا پوسٹ ماڈرن نظریات کے تحت کہتے ہیں کہ وہ توClass less and state less societyپر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کا انسان قومی ریاست سے آگے نکل گیا اور وہ یہ بات کر اس معاشرے میں کر رہے ہوتے ہیں جو ابھی تک غیرت کے نام پر قتل سے آگے بھی نہیں نکل پایا ہے اور ہمارے ملک کے تینوں اطراف جو ریاستیں پائی جاتی ہیں ان کے شہری اپنی ریاستوں کے حوالے سے سخت نیشنلسٹ ہیں۔

ہمارے لیفٹسٹ دوست کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک عوام کی خواہش سرحدوں کی تقدیس سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ وہ یہ کہہ تو دیتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ جو ممالک ان کے نظریات کے چیمپین تھے وہ بھی ان کے نظریات کے آئڈیل حاصل نہیں کر پائے تھے اور محض جبری طور پر مسلط کردہState capitalismکے ذریعے اپنے ممالک کو چلا رہے تھے۔ ان ممالک کے باشندے اپنی مرضی سے مغرب کے ممالک جا بھی نہیں سکتے تھے اور اکثر انہیںDefectکر کے مغربی ممالک جانا پڑتا تھا۔ وہ اس بات کا ثبوت بھی نہیں دیتے کہ دنیا کی چھ ارب کی آبادی کی کتنی فیصد اس بات پر عمل کرتی ہے اور دو سو سے زائد ممالک میں سے کتنے اس بات کو قبول کرتے ہیں۔

اگر کوئی گروپ رہ گیا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔

ایک بات بہت دلچسپ ہے۔ جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ تنقید سے زیادہ توہین کر رہے ہیں تو وہ مصنوعی معصومیت سے کہتے ہیں کہ کیا تنقید کی بھی نہیں جا سکتی؟ اور یہ کہ جب تک برائیوں کی نشان دہی نہیں ہو گی، ان کی اصلاح کیسے ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے اتنے بھولے ہم بھی نہیں کہ تنقید برائے اصلاح اور تنقید برائے توہین کا فرق نہ سمجھ سکیں۔ تنقید برائے اصلاح میں اصولوں پر علمی گفتگو ہوتی ہے، لہجہ مہذب رکھا جاتا ہے، برائیوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے اوربہتری کی تدابیر سوچی جاتی ہیں۔ جب کہ تنقید برائے توہین میں طنز کیے جاتے ہیں، توہین آمیز القابات سے نوازا جاتا ہے اور گالیاں، کوسنے اور بد دعائیں تک دی جاتی ہیں۔

اپنے قوم پرست دوستوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی یہ بات درست ہے کہ ان کے آبائی علاقوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ ان کی زبان، ثقافت اور تہذیب بھی صدیوں پرانی ہے اور لفظ ‘قوم’ کی ہر تعریف پر یہ لوگ پورے اترتے ہیں، لیکن آج کی دنیا میں ان کے آبائی علاقے ایک ریاست کے صوبے ہیں، اور صوبے بہر حال ریاست کے ماتحت ہوتے ہیں۔

اس کو حالات کا جبر، یا وقت کا جبر کہہ لیں کہ جس ریاست کے وہ صوبے ہیں وہ ایک نئی ریاست ہے، مگر وہ ریاست جب قائم ہوئی تو آزاد اور خود مختار علاقوں پر زبردستی قبضہ کر کے قائم نہیں کی گئی تھی، بلکہ ان کے آبائی علاقے موجودہ ریاست کے قیام کے وقت تک برطانوی ہند میں صوبے ہوا کرتے تھے۔ اور ایسا بھی نہیں ہوا کہ نوآبادیاتی آقاؤں نے اپنے زیر اثر علاقے میں موجود صوبوں کو آزادی دینے کا کوئی آپشن رکھا ہو، جس کو پامال کرتے ہوئے دھونس دھاندلی کے ذریعے ان کے آبائی علاقوں کو اس ریاست کا صوبہ بنا لیا گیا ہو۔ اب واقعہ یہ ہے کہ یہ ریاست قائم ہو گئی ہے اور اس کے قیام کے بعد ان کے بڑوں نے آئین پر دستخط کر کے ان کے آبائی علاقوں کو ریاست کے صوبے کے طور پر قبول کیا تھا۔

دوسری بات یہ ہے ان کے آبائی علاقے جس ریاست کا صوبہ بنے وہ ایک کثیر القوامی اور کثیر اللسانی ریاست ہے اس لیے اسے ان کی زبان و تہذیب کے ساتھ ساتھ باقی صوبوں کی زبانوں اور ثقافتوں کا خیال بھی رکھنا ہے، کیوں کہ ان صوبوں کے لوگ بھی اپنی زبان و ثقافت پر اتنا ہی ناز کرتے ہیں جتنا وہ اپنی ان چیزوں پر۔ اس لیے ریاست کو چلانے کے لیے کچھ نہ کچھCompromises
کرنا پڑیں گے۔ ریاست کی ان مجبوریوں کو خوش دلی سے قبول کیجیے۔ ان مفاہمتوں کی وجہ سے ہی وہ 75 سال چل پائی ہے۔

میں اپنے قوم پرست دوستوں سے یہ کہوں گا کہ چوں کہ دنیا میں رائج موجودہ دور ریاست کا دور ہے اس لیے اپنے آبائی علاقوں، ان کی تاریخ، تہذیب، ثقافت سے محبت کرتے ہوئے بھی ریاست کو ماں کا درجہ دیں۔ اس سے ملک میں جاری بہت ساری دل آزاری چیزوں سے افاقہ ہوگا۔

اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ماں کا درجہ آپ صرف اپنے آبائی علاقوں کو ہی دے سکتے ہیں تو ضرور دیجیے مگر پھر ریاست کو باپ کا درجہ دے دیجیے جس کا صوبہ ہونے کی وجہ سے آپ کے آبائی علاقے اس کے نکّاجمیں ہیں۔ اس لیے ہمیں پاکستان کو مدر لینڈ کہنے کے بجائے فادر لینڈ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

اپنی ماں کے شوہر کو باپ تسلیم کرنے سے انکار مت کیجیے۔ اور نہ ہی خود کو اپنی سہاگن ماں کے نادان دوست ثابت کرتے ہوئے اس کی محبت میں اسے اپنے شوہر سے طلاق دلوائیں، یا بیوہ بنوا دیں۔ یہ خود غرض محبت ماں کے مفادات کے بھی خلاف ہے۔

میں آخر میں یہ کہوں گا کہ یہ اچھا ہے یا برا ہے لیکن پوری دنیا میں میرا ملک پاکستان ہی ہے۔ میرے پاس کوئی دوسرا ملک نہیں ہے جسے میں اپنا کہہ سکوں اور بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے وہاں پڑا رہ سکوں اور وہ مجھے کسی بھی وجہ سے اٹھا کر باہر نہ پھینکے۔ میں اس عمر میں کوئی عشق میں مبتلا اندھے عاشق کی طرح نہیں ہوں کہ مجھے اس میں کوئی برائی سرے سے نظر ہی نہ آئے۔ مجھے بیشتر خرابیوں اور برائیوں پر اپنے دانشور دوستوں سے اتفاق ہے، لیکن میں ان کی وجہ سے اس سے نفرت نہیں کرتا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم ان کے بارے میں سنجیدگی سے گفتگو کریں اس طرح جیسے ہم اپنے خاندان میں ہونے والی کسی خرابی پر بات کرتے ہیں، جس طرح اپنے خاندان کے کسی فرد کی برائیوں کو دور کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس گفتگو اور اس اس کے کرنے لہجہ اپنوں والا ہونا چاہیے۔
جب تک کہ دنیا میں یہ نظام رائج ہے کہ لوگوں کی ضروریات ملک کے ذریعے ہی پوری ہوں گی اور بغیر ریاست کے انسان روہنگیا یا کردوں جیسی حالت کو پہنچ جائے، اور دنیا کے باقی ملک اپنی سلامتی پر آنچ نہ آنے دیں، اس وقت تک میں کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ اپنے نظریات کو نافذ کرنے کے نام میرے ملک کے خلاف کام کریں اور 23 کروڑ لوگوں کو اپنی ذہنی عیاشی کی بھینٹ چڑھا دیں۔ یا اگر سیاسی اختلاف ہیں تو بات ہو سکتی ہے، تعصب یا ظلم کی صورت میں ہر طرح کی داد رسی ممکن ہے، مگر موجودہ سرحدوں کے اندر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں، اگر دنیا سے قومی ریاست کا نظام لپیٹا ہی جا رہا ہو اور اس کی جگہ اس سے بہتر متبادل نظام آ رہا ہو تو الگ بات ہے ورنہ میں اپنے ہی ہم وطنوں کو یک طرفہ طور پر اپنے ملک کے خلاف کام کرنے کی مخالفت اپنا پورا زور لگا کر کروں گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply