سب کو خوش رکھنے کا آسان طریقہ۔۔گل نوخیز اختر

ایک صاحب نے مجھ سے کہا’’آپ مزاحیہ کالم نہ لکھا کریں‘‘ میں نے کہا’’آپ مزاحیہ کالم نہ پڑھا کریں۔‘‘ دوبارہ فرمایا’’آپ کو سنجیدہ کالم لکھنے چاہئیں‘‘۔ میں نے بھی دوبارہ کہا’’آپ کو سنجیدہ کالم پڑھنے چاہئیں‘‘۔ وہ بضد تھے کہ مجھے وہ کچھ لکھنا چاہیے جو اُن کی خواہش ہے۔ میں نے احتراماً عرض کیا کہ ہر کالم نگار کی طرح میں بھی جوکچھ لکھتاہوں اپنی مرضی سے لکھتا ہوں،آپ کو میرا اندازِ تحریر بدلوانے کی بجائے اپنی مرضی کے کالم پڑھنے چاہئیں۔ اسی دوران میرے کچھ سنجیدہ کالم شائع ہوئے تو ایک اور قاری نے شکوہ کیا کہ ’’آپ کو صرف مزاحیہ کالم لکھنے چاہئیں۔ میں کوشش کے باوجود سب کو خوش نہیں رکھ پاتا۔ کالموں کے علاوہ بھی عملی زندگی میں بے شمار لوگ مجھ سے ناخوش ہیں۔ کچھ کو شکوہ ہے کہ میں یاروں دوستوں کو ٹائم نہیں دیتا اور کچھ نالاں ہیں کہ میں ہر وقت دوستوں میں ہی پایا جاتاہوں۔ میں کسی ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرتاہوں تو دوسرا ناراض ہوجاتاہے، یوں اسی کشمکش میں سینڈوچ بن جا تا ہوں۔ ہم سب اسی پرابلم کا شکار ہیں۔ہمارے رشتہ دار،دوست،عزیز، کولیگ سب کسی نہ کسی حوالے سے ہم سے ناخوش رہتے ہیں۔
ہم خود بھی بہت سے لوگوں سے ناخوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہماری مرضی کے مطابق کام نہیں کرتے۔ سب کی یہ خواہش ہے کہ جیسا میں ہوں دوسرا ویسا ہی ہوجائے۔ اگر ہمیں ’’پائے‘‘ پسند ہیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی یہ لذیذ ڈش پسند ہونی چاہیے اور اگر جواب انکار میں آئے تو ہمارا منہ بن جاتاہے۔ تاہم اگر ہمیں خود پائے پسند نہیں تو ہم اسے اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ کوئی دوسرا کیسے ہمیں اپنی پسند کیلئے مجبور کرسکتا ہے۔ میں چھوٹا بڑا گوشت نہیں کھا سکتا، صرف چکن پر گزاراکرتاہوں۔ اسی بنا پر کئی احباب مجھے ’’ہندو‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ دیسی گھی‘ مکھن ‘ ملائی‘ دہی وغیرہ سے بھی کوسوں دور ہوں۔کھانے میں گنتی کی چند چیزیں ہیں جو مجھے پسند ہیں، ان کے علاوہ جو کچھ ہے ’’سب مایاہے‘‘۔یہاں بھی مجھے طنزیہ جملے سننے کو ملتے ہیں‘ دوست احباب کی خواہش ہے کہ میں ہر چیز کھایا کروںحالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خود وہ بھی کئی چیزیں نہیں کھاتے اور اسے اپنا ذاتی فعل قرار دیتے ہیں۔پچھلے دنوں میں نے ایک تجربہ کیا تھاکہ سب کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے۔صبح صبح میری ملاقات حاجی اکمل صاحب سے ہوئی۔ میںنے پوچھا’’آج میں ایسا کیا کروں کہ آپ خوش ہوجائیں؟‘‘۔ خوش ہوکر بولے’’ظہر کی نماز میرے ساتھ پڑھو۔‘‘ میں نے ہامی بھر لی اور ظہر کی نماز ان کے ساتھ مسجد میں ادا کی۔ مسجد سے نکلتے ہوئے ہمیں نذیر صاحب نے دیکھ لیا اور برا سا منہ بنا کر بولے’’تم تو کہتے تھے تم فرقہ بازی کے خلاف ہو،پھر ہمارے مخالف فرقہ کی مسجد میں نماز کیوں ادا کی؟‘‘ میں گھبرا گیا اور جلدی سے کہا’’آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟؟‘‘ اطمینان سے بولے’’عصر کی نماز ہماری مسجد میں ادا کرو‘‘۔ میں نے کھلے دل سے کہا’’منظور ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی حاجی اکمل کا منہ بن گیا،انہوں نے غصے سے میری طرف دیکھااور یہ کہتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے کہ’’تمہاری یہ نماز بھی قبول نہیں ہوگی‘‘۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دونوں احباب کو کیسے خوش کروں۔ اسی دوران مجھے گھر سے کال آگئی کہ انڈے اور ڈبل روٹی لیتے آئیں۔ میں نے دکان کا رخ کیا۔ وہاںتین چار محلے دار موجود تھے اور سیاست پر گرما گرم گفتگو چل رہی تھی۔مجھے دیکھتے ہی ایک صاحب نے چہک کر کہا’’آپ بتائیے کون سی سیاسی پارٹی ٹھیک ہے؟۔ میں نے اپنی کنپٹی کھجائی اور ساتھ کھڑے دوسرے محلے دار کی طرف دیکھا جو میرے جواب کے منتظر تھے۔ مجھے لگا جیسے ہی میں نے کوئی ایک نام لیا تو کوئی نہ کوئی محلے دار میرا سر ضرور توڑ دے گا۔ میں نے بے بسی سے دکاندار کی طرف دیکھا۔ وہ بھی شاید میری مشکل سمجھ گیا تھا اسلئے بلند آواز میں بولا ’’بھائیو !علاقے کا ٹیوب ویل تھوڑی دیر بعد مرمت کیلئے بند ہورہا ہے اورچوبیس گھنٹے تک پانی نہیں آئے گا اس لیے اپنے اپنے گھر پانی کا ذخیرہ کرلیں‘‘۔ یہ سنتے ہی ایک سیکنڈ میں محفل برخاست ہوگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب کو خوش رکھنا صرف ایک صورت میں ہی ممکن ہے جب آپ باقاعدہ منافق بن جائیں اور ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیں، لیکن اس طریقے میں بھی مصیبت یہ ہے کہ اگر دونوں فریقین اکٹھے سامنے آجائیں تو بندہ کس کی حمایت کرے؟خاندانی جھگڑوں سے عام زندگی کے معاملات تک جو لوگ آپ سے بظاہر خوش ہیں وہ بھی اندر سے ناخوش ہیں۔آپ بے شک ساری زندگی کسی کی خوشی کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رہیں لیکن اگر ایک لمحہ بھی آپ سے چُوک ہوگئی تو پچھلی ساری محنت رائیگاں ہوجاتی ہے اور موصوف ناراض ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔جب یہ طے کر لیا جائے کہ خوش ہونا ہمارا حق اور ہمیں خوش کرنا دوسرے کا فرض ہے تو ایسا ہی ہوتاہے۔سب کو خوش کرنے کی کوشش میں انسان ذہنی مریض بن جاتاہے لیکن کسی کو خوش نہیں کر پاتا۔ رشتہ دار اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ ان کے ساتھ آپ کے کتنے اچھے تعلقات ہیں،وہ اس بات پر ناراض ہوجاتے ہیں کہ ان کے مخالف سے آپ کے اچھے تعلقات کیوں ہیں۔آج کل تو لوگ اس بات پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں کہ آپ ترقی میں ان سے آگے کیوں نکل گئے ہیں۔ میرا ایک کولیگ اس بات پر اپنے ماموں زاد سے سخت ناراض ہے کہ خود اس کے پاس ہزار سی سی گاڑی ہے لیکن ماموں زاد نے 13 سو سی سی گاڑی خرید لی ہے۔تو خواتین وحضرات ’’اگر آپ سب کوخوش رکھنا چاہتے ہیں تو سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مرجائیں‘‘۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply