کینسر (93) ۔ تیرہ پہاڑ/وہاراامباکر

جہاں پر کئی سائنسدان جینیات سے آنے والی انفارمیشن کو ایک پیچیدہ گڑبڑ کے ڈھیر کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ووگلسٹائن اس سب میں سے پیٹرن ابھرتے دیکھ رہے تھے۔ میوٹیشن دو اقسام کی ہیں۔ کچھ بے ضرر ہیں۔ جب کینسر کے خلیات تیزی سے تقسیم ہوتے ہیں تو اس دوران میوٹیشن اکٹھی کر لینا نارمل ہے۔ میوٹیشن تقسیم کا ہی نتیجہ ہے، اس لئے کینسر کے خلیے میں اس کا زیادہ ملنا خلافِ توقع نہیں۔ یہ میوٹیشن جینوم کے ساتھ چپک جانے والا حادثہ ہے جس کا تعلق کینسر کی بائیولوجی سے نہیں۔ ان کی شناخت کی جا سکتی ہے لیکن یہ کینسر پر اثرانداز نہیں۔ صرف تماشائی یا مسافر ہیں۔ لیکن کئی دوسری میوٹیشن ہیں جو ایکٹو ہیں، تماشائی نہیں۔ یہ کینسر کے بڑھنے اور دوسرے بائیولوجیکل رویوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ کھلاڑی یا ڈرائیور ہیں جن کا کردار کینسر کی بائیولوجی پر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کینسر کے ہر خلیے میں دونوں طرح کی میوٹیشن ہیں۔ ڈرائیور بھی ہیں اور مسافر بھی۔ جس مریضہ میں 127 میوٹیشن ملی تھیں، ان میں سے شاید صرف دس ہی ان کے ٹیومر کی زندگی اور بڑھنے کا کام کرتی ہوں۔ باقی اس تقسیم کے دوران داخل ہو گئی ہوں۔ لیکن اگرچہ یہ دونوں اقسام الگ ہیں لیکن ان دونوں میں آسانی سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ سائنسدان کچھ ڈرائیور جینز کی شناخت کر سکتے ہیں۔ مسافر میوٹیشن جینوم میں کسی بھی جگہ پر ہو سکتی ہیں۔ ڈرائیور میوٹیشن خاص اونکوجین اور ٹیومر سپریسر کو متاثر کریں گے۔ جب ایک کے بعد دوسرے اور تیسرے اور پھر اگلے سیمپل کی سیکونسنگ کر کے اس کو معلوم کیا جائے گا تو ایسی ڈرائیور میوٹیشن کے نشان بڑھ کر اونچے پہاڑ بننے لگیں گے۔ جبکہ مسافر میوٹیشن ان میں وادیاں ہوں گی۔ لیکن جب پہلے سے نامعلوم جین میوٹیشن دریافت ہو گی تو یہ پیشگوئی کرنا ناممکن ہے کہ یہ کس قسم کی ہے؟ کھلاڑی یا تماشائی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کینسر جینوم کے “پہاڑ” (یعنی وہ جین جو کسی ایک خاص قسم کے کینسر میں سب سے زیادہ میوٹیٹ ہوئے ملتے ہیں) ایک اور خاصیت رکھتے ہیں۔ ان کو اہم کینسر پاتھ وے کے طور پر منظم کیا جا سکتا ہے۔ ووگلسٹائن کی ٹیم نے یہ تجزیہ ایک اور حکمتِ عملی سے کیا۔ ہر جین کا الگ الگ تجزیہ کرنے پر دھیان دینے کے بجائے، انہوں نے کینسر خلیات میں میوٹیٹ ہو جانے والے “پاتھ وے” کا تجزیہ کرنا شروع کیا۔ “راس ۔ میک ۔ ارک پاتھ وے” کے کسی حصے میں میوٹیٹ ہونے والی جین کو راس پاتھ وے میوٹیشن کے طور پر کلاسیفائی کیا۔ “آر بی سگنلنگ پاتھ وے” کے کسی بھی حصے کی میوٹیشن کو آر بی پاتھ وے میوٹیٹ وغیرہ۔ یہاں تک کہ تمام ڈرائیور میوٹیشن پاتھ وے کے طور پر منظم کر لی گئیں۔ کینسر کے خلیے میں عام طور پر کتنے پاتھ وے ایسے ہیں جہاں پر ریگولیشن کی خامی ہوتی ہے؟ ووگلسٹائن نے دریافت کیا یہ کہ تعداد گیارہ سے پندرہ کے درمیان ہوتی ہے۔ اور اوسطاً یہ تیرہ ہوتے ہیں۔ جین کی سطح پر میوٹیشین کی پیچیدگی بہت زیادہ ہے۔ کسی ایک ٹیومر میں میوٹیشن کے نشان بکھرے پڑے ہوتے ہیں لیکن کسی ایک ٹیومر میں متاثر ہونے والے پاتھ وے وہی ہوتے ہیں۔ کئی بار ان کے پیچھے جینیاتی میوٹیشن خواہ الگ الگ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ بلیڈر کے کینسر کے ایک سیمپل میں راس متحرک ہو، دوسرے میں میک، تیسرے میں ارک۔ لیکن تینوں سیمپلز میں راس ۔ میک ۔ ارک کے جھرنے میں خلل ہو گا۔ کینسر جینوم میں پہلی نظر میں لگنے والی بڑی پیچیدگی اصل میں اتنی نہیں۔ اگر اس کو زیادہ غور سے سنا جائے تو اس کی تنظیم کے اصول ہیں۔ کینسر کی زبان میں الفاظ ہیں، گرائمر ہے، طریقہ ہے اور اگرچہ ایسا کہنے میں کسی کو بھی ہچکچاہٹ ہو گی لیکن حقیقت میں، یہ زبان خوبصورت ہے۔ جین دوسرے جین سے بات کرتے ہیں۔ پاتھ وے دوسرے پاتھ وے سے۔ یہ بڑی پرفیکٹ تال میل ہے۔ اور اس سے ابھرنے والی موسیقی بلند سے بلند تر ہوتی ہے۔ اس کا ردھم ٹوٹتا نہیں۔ یہاں تک کہ یہ مہلک ہو جاتا ہے۔ دور سے دیکھنے پر جو دماغ چکرا دینے والی پیچیدگی اور تنوع نظر آتا ہے، قریب سے دیکھنے پر یہ بڑی گہری جینیاتی ہم آہنگی میں بدل جاتی ہے۔ بہت الگ لگنے والے کینسر اکثر ایک ہی یا ایک جیسے پاتھ وے کو ہیک کئے ہوتے ہیں۔ اس کا یہ زبردست آرکیٹکچر ایک مرتبہ پھر یہ دکھاتا ہے کہ کینسر خود ہمارا اپنا ہی عکس ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply