اٹل حقیقت۔۔مرزا مدثر نواز

حضرت سلیمانؑ کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا‘ وہ بہت ڈرا ہوا تھا اور تھر تھر کانپ رہا تھا‘ چہرہ   مارے خوف کے سفید پڑ گیا تھا۔ حضرت سلیمانؑ نے پوچھا‘ اے بندہ خدا! تیری یہ حالت کیوں ہے؟ تجھے کیا پریشانی لاحق ہو گئی ہے؟ اس نے جواب دیا‘ اے پیغمبرخدا! مجھے عزرائیل ؑ نظر آئے تو میرے ہوش و حواس گم ہوگئے‘ اب بھی میں عزرائیل ؑکی قہر آلود نظریں دیکھتا ہوں تو سارا چین اڑ جاتا ہے۔ اس نے پھر حضرت سلیمان ؑ سے درخواست کی کہ وہ اسے وہاں سے ہزاروں میل دور ملک ہندوستان بھجوا دیں‘ اس طرح ہو سکتا ہے اس کا خوف دور ہو جائے۔ حضرت سلیمان ؑ نے ہوا کو حکم دیا کہ اس شخص کو ہندوستان چھوڑ آؤ۔ وہ ہندوستان پہنچا ہی تھا کہ عزرائیل ؑ کو منتظر پایا‘ فرشتہ اجل نے اللہ کے حکم سے اس کی روح قبض کر لی۔ دوسرے روز جب حضرت سلیمان کی ملاقات حضرت عزرائیل سے ہوئی تو پیغمبر نے پوچھا”آپ نے ایک شخص کو اس قدر قہر آلود نظروں سے کیوں دیکھا تھا‘ کیا اس کی روح قبض کرنے کا ارادہ تھا‘ پھر اسے غریب الوطن بھی کیا جہاں اس کا کوئی والی وارث ہی نہ تھا“۔ عزرائیل ؑ نے جواب دیا ”دراصل مجھے اس شخص کی روح ہندوستان کی سر زمین پر قبض کرنا تھی اور وہ مجھے یہاں نظر آیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ شخص ہندوستان سے ہزاروں میل دور یہاں کیا کر رہا ہے‘ پھر اللہ کے حکم سے جب میں ہندوستان پہنچا تو یہ وہاں موجود تھا“۔ (حکایتِ رومیؒ)

حضرت خالد بن ولیدؓ اسلامی تاریخ کے عظیم جنگجو و سپہ سالار ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر عرصہ گھوڑے کی پیٹھ پر گزارا۔ رہبر کاملﷺ نے انہیں سیف اللہ کے خطاب سے نوازا۔ انہوں نے جنگ میں ایسی حکمت عملی اختیار کرنی کہ معبود برحق نے اپنے فضل سے فتح جھولی میں ڈال دینی۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں مجاہدین کو کسی محاذ پر مشکل کا سامنا کرنا پڑتا اور فتح کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تو انہوں نے درخواست کرنی کہ خالد کو بھیج دیں۔ حضرت عمرؓ نے محسوس کیا کہ مجاہدین جہاں پھنستے ہیں‘ خالد کی طرف دیکھنے لگتے ہیں‘ کہیں یہ خیال تقویت نہ پکڑنے لگے کہ جنگ میں فتح خالد ہی کی وجہ سے ہوتی ہے‘ لہٰذا عین محاذِ جنگ سے حضرت خالد کو واپس بلا لیا ،تا کہ مجاہدین ان کے بغیر لڑیں اور ان کا یہ ایمان اور مضبوط ہو کہ جنگوں میں فتح فضل الہٰی اور نصرت خداوندی پر منحصر ہے نہ کہ کسی سپہ سالار کی بدولت۔ خود حضرت خالد کے بقول وہ کسی بھی جنگ میں اس وجہ سے شریک نہیں ہوتے تھے کہ انہوں نے یہ جنگ جیتنی ہے بلکہ اس ارادے و خواہش کے ساتھ شریک ہوتے تھے کہ اس دفعہ تو انہوں نے جنّت لینی ہی لینی ہے یعنی اس دفعہ تو شہید ہونا ہی ہونا ہے۔ ساری زندگی میدان جنگ کی دھول کھانے والا اپنے آخری وقت  بیٹے سے فرماتا ہے کہ بیٹا دنیا کے بزدلوں کو بتا دینا کہ اگر موت میدان جنگ میں ہوتی تو آج خالد بستر پر اپنی جان نہ دے رہا ہوتا۔

انسان کی کمزوری کی اصل وجہ موت کا ڈر ہے‘ اس زہر کا تریاق اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر آدمی کی موت کا ایک وقت مقرر ہے جو نہ ٹالے ٹل سکتا ہے اور نہ بلائے آ سکتا ہے اس لیے کسی خطرہ کے مقام سے بھاگنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وحی محمدی نے مسلمانوں کو اس عقیدہ کی بار بار تلقین کی ہے‘ یہاں تک کہ یہ چیز مسلمانوں کی رگ رگ میں سرایت کر گئی ہے‘ غزوہ احد میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی اور اس عقیدہ کو یاد دلایا ”ترجمہ: اور کسی جان کے بس میں نہیں کہ اللہ کے حکم کے سوا وہ مر سکے‘ لکھا ہوا وقت مقرر ہے“ (آل عمران‘145)۔

جب اللہ کا حکم ہو گا تب ہی کوئی مر سکتا ہے‘ پھر موت سے خوف کیوں ہو اور اس سے بزدلی کیوں چھائے‘ جنگ احزاب میں جب منافقوں کو گھبراہٹ ہوئی تو خدا نے فرمایا ”ترجمہ: (اے پیغمبر ان سے) کہہ کہ اگر تم موت سے یا مارے جانے سے بھاگے بھی تو یہ بھاگنا تم کو کام نہ آئے گا“ (احزاب‘ 16)۔ یہ خیال کرنا کہ اگر ہم اس لڑائی میں شریک نہ ہوتے تو مارے نہ جاتے‘ سراپاء  غلط ہے جن کی قسمت میں یہاں موت لکھی تھی وہ خود آ کر اپنے اپنے مقام پر مارے جاتے‘ فرمایا ”ترجمہ: (اے پیغمبر ان سے) کہہ دے کہ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو بھی جس کا مارا جانا لکھا جا چکا تھا وہ آپ نکل کے اپنے پڑاؤ پر آ جاتے“ (آل عمران‘ 154)۔ یہ سمجھنا کہ چونکہ لڑائی میں شریک ہوئے اس لیے مارے گئے‘ یوں بھی غلط ہے کہ مارنا اور جلانا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے موت دے اور جس کو چاہے جیتا رکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی عقلمند نے اس طرح کہا ہو گا کہ انسان اپنی زندگی میں ہر چیز کے پیچھے بھاگے گا مگر دو چیزیں اس کا پیچھا کریں گی‘ اس کا رزق اور اس کی موت۔ موت زندگی کی سب سے بڑی و اٹل حقیقت ہے اور ہر ایک نے ہر حال میں اپنے مقررہ وقت پر اس جہان فانی کو چھوڑ کر جانا ہے۔ ہم مسلمانوں کا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے پہلے کوئی بھی موت کو قریب نہیں کر سکتا لیکن اس تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہر گز نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی یہ تشریح و وضاحت سکھائی گئی ہے کہ ہم احتیاطی تدابیر اختیا نہ کریں‘ بیمار ہونے کی صورت میں اپنا علاج نہ کروائیں‘ طبیب کا بتایا ہوا پرہیز چھوڑ دیں اور مضر صحت چیزیں کھانا شروع کر دیں‘ دائیں بائیں دیکھے بغیر سڑک عبور کرلیں‘ بنا دیکھے ہائی وے پر گاڑی دوڑا دیں‘ ٹرین کے آگے لیٹ جائیں‘ چھت سے چھلانگ لگا دیں‘ میدان جنگ میں بنا تربیت و اسلحہ و حفاظتی لباس کے کود پڑیں وغیرہ وغیرہ۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply