• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ابدی زندگی کی تلاش میں سرگرداں سائنس۔۔ارشد غزالی

ابدی زندگی کی تلاش میں سرگرداں سائنس۔۔ارشد غزالی

ابدی زندگی کی تلاش میں سرگرداں سائنس۔۔ارشد غزالی/    کیا انسان ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ؟سائنسی نقطہ نظر سے اس سوال کا جواب دینا کچھ مشکل ہے۔ گوگل کے کمپیوٹر سائنٹسٹ رے کروزویل کے مطابق اگلی دو دہائیوں بعد دماغ کو مکمل طور پر کمپیوٹر پر اپلوڈ کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی گزری تمام زندگی کی میموری کمپیوٹر ہارڈ ڈسک یا کسی چپ پر ٹرانسفر کرنا تو کیا اس کا مطلب بھوک, پیاس, نیند اور موت کو شکست دے کر ہمیشہ کے لئے امر رہنا ہوگا کیا سو فیصد دماغ کو کمپیوٹر پر منتقل کرنا ممکن ہوگا اور اس کے لئے کتنے ہزاروں ٹیرا بائیٹ میموری درکار ہوگی؟

کیا ہو اگر ہمارا دماغ “صوفیہ” کی طرز کے یا اس سے بھی زیادہ ایڈوانس آرٹیفیشل انٹیلیجینس کےحامل کسی روبوٹ میں اپلوڈ کردیا جائے جو خود سوچ سکتا ہو, فیصلہ کر سکتا ہو, اچھے برے اور صحیح غلط میں تمیز کر سکتا ہو مگر کیا وہ محبت, نفرت, غصے اور خوشی جیسے جذبات کو حقیقی طور پر محسوس کر سکے گا یا وہ ماضی کے گزرے لمحات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی ان جذبات کو پیدا کر سکے گا۔ یہ صرف مفروضے نہیں ہیں بلکہ قوی امید ہے کہ یہ حقیقت اگلی چند دہائیوں میں ممکن ہوجائے گی تو پھر شعور کی کیا حیثیت ہے اور درحقیقت شعور کیا ہے ? سائنسی طور پر تو صرف دماغ میں موجود اربوں نیورانز کی فائرنگ کے منظم پیٹرن مگر مذہب میں اس کا جواب ہمیں روح تک لے جاتا ہے اور روح سائنسی دائرہ کار سے باہر ہے۔

ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش اور ابدی زندگی کی تلاش کی سب سے قدیم کہانی ہمیں چار ہزار قبل گلگامش تک لے جاتی ہے جو اتناپشتم کے بتانے پر ایک پودے کی تلاش میں نکلتا ہے جس سے ابدی حیات حاصل کی جاسکتی ہے عظیم سیلاب اور زندگی کے درخت کی کہانی حیرت انگیز طور پر ہمیں مصر سے ایران تک دنیا کی تقریبا ً تمام قدیم تہذیبوں میں ملتی ہے۔ ایرانیوں نے اس درخت سے حاصل ہونے والے رس کو ہوم رس جب کہ ہندوؤں نے سوم رس کا نام دیا ۔تاریخ چلتی رہی اور آج تک انسان ابدیت کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی جاندار ایسا موجود ہے جو ابدی زندگی کا حامل ہو۔ حیرت انگیز طور پر اس کا حیاتیاتی جواب ہے “ہاں” ٹیوریٹوپسس نیٹریکیولا نامی جیلی فش لامحدود زندگی رکھتی ہے اور مرنے سے قبل یا زخمی حالت میں اپنے خلیات کو دوبارہ پرانی حالت میں لا کر خود کو دوبارہ زندہ کر لیتی ہے۔ اس طریقے کو سیلز انڈر گو ٹرانسڈیفرینیشن کہا جاتا ہے جس میں خلیات کی ایک اقسام بنیادی طور پر خلیات کی دوسری اقسام میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ کیا یہ جیلی فش ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی، اس کا سائنسی جواب یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کیوں کہ اسے دریافت ہوئے چند دہائیاں گزری ہیں اور سائنس کے پاس فی الحال اس سوال کا حتمی جواب موجود نہیں ہے۔

اگر انسانوں کی بات کی جائے تو انسانی ڈی این اے میں موجود ٹیلومئیر بڑھاپے کی وجہ ہیں۔ ہر بار جب خلیہ تقسیم ہوتا ہے تو ان ٹیلومئیر کی لمبائی کم ہوتی رہتی ہے اور آخر کار انسان موت کا شکار ہوجاتا ہے دوسری طرف سائنسدان عرصہ دراز سے ٹرانس ہیومنز پر بھی کام کر رہے ہیں اگرچہ یہ غیر قانونی ہے مگر اس کے باوجود دنیا کے کئی ممالک میں اس پر تجربات جاری ہیں اور سائنسدانوں کو اس میں کامیابیاں بھی نصیب ہوئی ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ بات بہت عام ہوجائے گی کہ کسی انسان کے ڈی این میں تبدیلی کر کے عقاب کی تیز نظری اس میں منتقل کر دی جائے یا بلی اور دوسرے جانوروں کی طرح اندھیرے میں دیکھنے کی خاصیت پیدا کر دی جائے یا ہاتھی اور دوسرے جانوروں کی دیگر خصوصیات بھی اور یہ سب اب حقیقت بن چکا ہے اس سب کے علاوہ حال ہی میں خنزیر کے گردے اور دل کو جینیاتی تبدیلیوں کے بعد انسانی جسم میں ٹرانسپلانٹ کرنے کا تجربہ کیا جا چکا ہے اور آئندہ  آنے والے وقت میں انسان اس قابل بھی ہوجائے گا کہ اپنے اعضاء کو تبدیل کر سکے مگر یہ سب کوششیں کیا موت کو شکست دے سکیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سائنسی طور پر ہم کہہ  سکتے ہیں کہ جسمانی طور پر انسان طویل عمر حاصل کر لے گا مگر کیا دماغ کو اپلوڈ کرنے سے ٹیلومئیر اور ڈی این اے کے بدلاؤ  سے ٹرانسپلانٹس تک کیا انسان کو ابدی زندگی دے سکیں گے اس کا مختصر جواب ہے “نہیں” اگر انسان اپنی جسمانی عمر, بڑھاپے, اعضاء کی پیوند کاری اور بیماریوں پر قابو پا لے تو بھی وہ روح کو جسم سے نکلنے سے نہیں روک سکتا۔ خالق کائنات نے تخلیق اور موت کا اختیار انسان کو نہیں دیا اس لئے سائنس انسانوں کو طویل عمر تک تو پہنچا سکتی ہے مگر ابدیت نہیں بخش سکتی ہاں مگر ہمارا دماغ کسی کمپیوٹر یا روبوٹ میں ڈیجیٹل طور پر زندہ رہ سکتا ہے مگر حقیقی نہیں کیونکہ بہرحال زندگی صرف روح کے ہونے یا نہ ہونے کا نام ہے اور شعور اسی روح کی ایک خصوصیت۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply