مکالمہ: کیا، کیوں اورکیسے؟

مکالمہ کیا ہوتا ہے؟
مکالمے میں دو یا زائد فریق ہوتے ہیں جوایک دوسرے کے موقف سے اختلاف کرتے ہیں۔ موقف کی مختلف سطحیں ہوسکتی ہیں۔ اختلاف سیاسی، سماجی، معاشی اورثقافتی سطح پرہوسکتا ہے۔ کسی ایک ایشو یا سوال پرہوسکتا ہے۔ مکالمہ کرنے والے فریقوں کوپہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے فریق کا نکتہ نظرجانتے ہیں اوراس سے اختلاف کرتے ہیں۔ سوال ہوتا ہے جواب دیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی سے اختلاف کرنے کے لیے پہلے اس کا نکتہ نظرمعلوم ہونا چاہیے۔ آپ اس چیز سے اختلاف کیسے کرسکتے ہیں جسے کے بارے میں آپ جانتے نہ ہوں؟ اگر آپ نہیں جانتے توآپ کو معلومات حاصل کرنا چاہییں مکالمہ نہیں کرنا چاہیے۔ مکالمہ خود کلامی بھی ہوسکتا ہے لیکن اگرایسا ہوا ہوتا توآج ہمیں انسانی ضمیرکی پستیوں کے دلخراش مناظردیکھنے کونہ ملتے۔ ادبی شکل میں خودکلامی مختلف صورتوں میں ملتی ہے لیکن سماجی طورپرعملی حیثیت سے مکالمہ مختلف خیالات رکھنے والے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان مختلف عنوانات پرہوتا ہے۔
مکالمہ کیسے ہوتا ہے؟
مکالمہ دلیل اورشواہد کی بنیاد پرہوتا ہے۔ سائنسی مکالمہ اعدادوشمارکاطالب بھی ہوتا ہے۔ مکالمہ کرنے والا اپنی بات کودرست اورفریق کی بات کوغلط ثابت کرنے کے لیے دلائل دیتا ہے۔ شواہد سامنے رکھتا ہے۔ اپنی بات ہوا میں نہیں کہتا۔ چنانچہ مکالمہ کرنے سے پہلے یہ بات معلوم ہونی چاہیے اوراس پریقین ہونا چاہیے کہ بات دلائل اورشواہد کی بنیاد پرتسلیم کی جائے گی اوردلیل وشواہد کی بنا پرہی فریق کے موقف کورد یا تسلیم کرنا چاہیے۔
مکالمہ کب ہوتا ہے؟
جب اس بات کی ضرورت یا اہمیت محسوس کی جائے کہ اختلافی مسائل و معاملات کومزید پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا اوران کا حل وقت کی اہم ضرورت ہے تب مکالمے کی خواہش جنم لیتی ہے اورمسائل ومعاملات یا اختلافات کوختم کرنے کی جانب پیش قدمی کا باعث بنتی ہے۔
مکالمہ کون کرتا ہے؟
طاقتورکو مکالمے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ طاقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اس لیے بات چیت کی ضرورت نہیں۔ سامراجیت کی تمام تاریخ اس کی گواہ ہے۔ کالونیل نظام ابھی ختم نہیں ہوا۔ شام، لیبیا، چیکوسلوواکیہ، عراق، افغانستان، یوکرین وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں جہاں نیٹوکی ممبرریاستوں نے طاقت کے زورپراپنا قبضہ اورتسلط قائم کیا۔ مکالمے کا راستہ وہ لوگ اختیارکرتے ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ مسائل ومعاملات کو بات چیت کےذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ یا وہ جو کمزورہوتے ہیں اوران کے پاس اپنے معاملات کے حل کے لیے مکالمے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔
کیا مکالمہ ہرکسی کے ساتھ ہونا چاہیے؟
یقینا ًمکالمہ ضرورکرنا چاہیے لیکن وہاں جہاں اس کی گنجائش ہو۔ کم ازکم آپ اس سے تومکالمہ نہیں کرسکتے جو آپ سے مکالمہ کرنے کے بجائے محض آپ کی مخالفت کرنا چاہتا ہو! جس کے پاس آپ کے موقف کی مسابقت میں معقول دلائل ہوں اورنہ شواہد بلکہ اس کا نکتہِ نظر الزام تراشی، بہتان، جھوٹ اورمبالغے پرمبنی ہو،اس سے مکالمہ وقت کا زیاں ہے۔ اسی طرح ان لوگوں سے مکالمہ کیسے ہوسکتا ہے جن کے ہاتھ میں بندوقیں ہوں اورآنکھوں میں خون اتراہو؟ جوآپ سے مکالمہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ آتش و بارود کے ذریعے، طاقت کے بل پرآپ کو تسخیرکرنا چاہتے ہیں؟ کیا دہشت گردوں کے ساتھ مکالمہ ممکن ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔
مکالمے کا فروغ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ عام طورپرلوگ مکالمہ ہی کرتے ہیں۔ بات چیت سے اپنے معاملات کو طے کرتے ہیں اورتشدد کے استعمال سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مکالمے کی کوشش اس حد تک نہ چلی جائے کہ صحیح اورٖغلط، جائزاورناجائز، ظلم و انصاف، سچ اورجھوٹ، جنگ و امن کے درمیان مکالمے کا فروغ شروع ہوجائے۔ یہاں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ ظالم اورمظلوم لوگوں کے درمیان مکالمہ ان کے درمیان موجود مسائل کا حل نہیں ہے۔ مکالمے کے ذریعے نجی ملکیت اورسرمایہ دارانہ استحصال کوختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فکری نہیں عملی سوال ہے۔ سیاسی عمل سے محنت کش عوام کے استحصال کو ختم کرنا اس کا جواب ہے۔ اس پہلو سے مکالمے کا مقصد محنت کش عوام کی حلیف قوتوں کومحنت کش عوام کی جدوجہد میں ان کے قریب ترلانا ہونا چاہیے۔ سول سوسائٹی اورمیڈیا کو چاہیے کہ وہ انفرادی انسانی حقوق، روداری، مذہبی ہم آہنگی، امن و سلامتی کےمعاملات کے ساتھ ساتھ محنت کش عوام کے بنیادی مسائل یعنی روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار وغیرہ کے مسائل کے حل کو بھی اپنے مکالموں میں جگہ دیں اوراس سوال پرسنجیدگی سے غورکریں کہ کیا محنت کش عوام کے ان بنیادی مسائل کےحل کے لیے اول الذکرمسائل کا حل ممکن ہے یا نہیں؟
ہم انعام رانا اوران کی ٹیم کے شکرگزارہیں کہ انہوں نے آن لائن “مکالمہ”کے ذریعے محنت کش عوام کے مسائل کومکالمے کا حصہ بنانے میں پرخلوص کردارادا کیا ہے اورمحنت کش عوام کی نجات کی راہ یعنی سوشلزم سے تعلق رکھنے والے قلم کاروں کومکالمے کی جگہ اپنا فرض سمجھ کردی ہے۔ ان کی کاوش سے لبرل ازم اوربائیں بازو کے درمیان فرق بھی واضح ہوکرسامنے آیا ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ مکالمہ آن لائن اس عوام دوست روایت کی ہمیشہ پاسداری کرے گا ۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply