دورہ کراچی(حصّہ اوّل)۔۔ محمد احمد

شکارپور

29 دسمبر بروز بدھ کو کراچی کا سفر رہا، دو مقاصد کے پیش نظر یہ سفر طئے تھا، ایک رابطۃ علماء السند کے اجلاس میں حاضری اور دوسرا ایکسپو سینٹر میں لگنے والے کتب میلے میں شرکت. شب جمعرات مولانا رحمت اللہ سومرو اور راقم رات بارہ بجے بذریعہ کوچ روانہ ہوئے. طئے شدہ شیڈول کے مطابق ہم صبح سوا چھ بجے کاٹھوڑ پل پر اترے اور وہاں سے جامعہ بیت السلام جانے کے لیے رکشہ لیا، جب ہم مدرسہ میں پہنچے تو فجر کی نماز ہوچکی تھی، ہم مسجد کے مرکزی دروازے پر اترے اور نماز ادا کی. یہاں ہمارے میزبان مولانا عرفان الحق تھے، جو بنوری ٹاؤن کے فاضل اور جامعہ بیت السلام کے متخصص ہیں، نوجوان عالم، صاحب علم، سنجیدہ مزاج، کثیر المطالعہ، متواضع انسان ہیں. مولانا صاحب سے میرا تعلق تین سال پراناہے، یہ تعلق بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے بدولت ہوا تھا، جو دوستی میں بدل گیا، گاہے بہ گاہے رابطہ ہوتا رہتا تھا، لیکن بالمشافہ پہلی ملاقات تھی. اس سے دو سال قبل مولانا بندہ سے ملاقات کے لیے جامعہ دارالعلوم کراچی تشریف لائے تھے، پیشگی رابطہ نہ ہونے کے باعث ملاقات نہ ہوسکی. یہ ہماری پہلی ملاقات تھی،لیکن کہیں سے نہیں لگ رہا تھا، بلکہ ایسا لگ رہا تھا برسوں پرانا تعلق ہے. بہر حال نماز کے بعد مولانا ہمیں اپنے کمرے لے آئے، جہاں ہم نے پون گھنٹہ آرام کیا، جب اٹھے تو ناشتے کا دستر خوان سج چکا تھا، جس میں پائے، نان چھولے، انڈے پراٹھوں جیسے پرتلکف ناشتے سے تواضع کی گئی. ناشتہ کے موقع پر بھی ہلکی پھلکی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، بعد ازاں مولانا گلاب صاحب سے ملاقات کی جو جامعہ کے قدیم استاد اور جامعہ فاروقیہ کے فاضل اور مولانا رحمت اللہ سومرو کے ہم درس تھے. انہوں نے اپنی آثار السنن کی لکھی اردو شرح تحفے میں دی. بعد ازاں ہم نے جامعہ کا دورہ کیا. جس میں دار الصفوف، جدید دار الاقامہ، دار القرآن، دار الإفتاء، دفاتر وغیرہ شامل تھے، جب ہم پانچ سال پہلے سابعہ کے سال یہاں آئے تھے، اس وقت ان میں سے کچھ عمارتیں زیر تعمیر تھیں. اب ان پانچ سال کے وقفہ کے بعد بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملا. جامعہ بیت السلام کراچی مولانا عبدالستار زیدمجدہم کی جدوجہد، انتھک محنت، اخلاص اور شاندار قربانیوں کا ثمرہ ہے. آبادی سے دور دراز اتنا عظیم الشان مدرسہ قائم کرنا کوئی آسان بات نہیں، پھر جتنی تیزی سے اس ادارے نے ترقی کے مراحل طیے ہیں، وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں. یہاں طلبہ کی ہر قسم کی سہولت کا انتظام ہے، تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی نظم ہے، یہاں جدید عربی کے ساتھ انگریزی کی بھی معیاری تعلیم دی جاتی ہے. تقریبا تمام درجات کے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر درجہ کے سطح پر “جداریہ” کا التزام ہے. جس میں طلبہ عربی، انگلش اردو میں لکھتے ہیں. اس کے علاوہ کتابت اور ورزش کا بھی اہتمام ہے، یہ ادارہ بہت ساری امتیازی خصوصیات کا حامل ہے، جو اس کو معاصر اداروں پر فوقیت دیتی ہیں. اس ادارے کے تحت چلنی والی بیت السلام ٹرسٹ کی خدمات کسی سے مخفی نہیں، اور ان کا ملک بھر میں قائم “مکاتب قرآنیہ” کا نظم بھی مثالی ہے. یہ تو جامعہ بیت السلام کے تعارف کی مختصر جلھک ہے، ورنہ تو ان کے تعارف کے لیے تفصیلی مقالہ درکار ہے. ہمارے میزبان نے ظہرانے کا بھی پرتکلف اہتمام کیا تھا. اس کے بعد علمی، فکری موضوعات پر نشست رہی. آخر میں دو کتابیں ایک حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کی “ارشادات” اور دوسری حضرت علی میاں کی “مجالس علی میاں” کا ہدیہ پیش کیا. اس کے بعد ہم عصر کے قریب مولانا موصوف کے ساتھ جامعہ عمر کراچی پہنچے، اس کے بعد وہ ہم سے اجازت لے کر رخصت ہوئے.
ہم مولانا عرفان صاحب کی دی ہوئی محبت کبھی نہیں بھلاسکتے، وہ بلاشبہ ایک عظیم انسان ہیں، ان کی اداؤں نے ہمیں متاثر کیا. اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل اور رزق میں
برکتیں عطا فرمائے.

جامعہ عمر کراچی بقائی یونیورسٹی کے عقب میں واقع ہے، یہاں تخصصات کے شعبے کام کررہے ہیں، جن میں فقہ، عربی ادب اور انگلش وغیرہ کے شعبے قائم ہیں. ہمارے مخدوم مکرم حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی محمد ادریس السندی زیدمجدہم بھی یہاں ہوتے ہیں. یہاں ہمارے دوست مولانا حبیب الرحمن خیرآبادی اور مولانا امتیاز احمد السندی بھی تدریس کرتے ہیں. یہاں پہنچ کر ہم نے پہلے عصر کی نماز پڑھی، اس کے بعد مولانا خیرآبادی صاحب چائے بسکٹ لے آئے اور دورانِ چائے گفتگو بھی جاری رہی. ہمارے یہ دوست فقیر منش، درویش طبع اور گوناگوں خوبیوں کے مالک ہیں. عربی، انگلش پر کامل دسترس رکھتے ہیں، کمپیوٹر کے متعلقہ مسائل پر بھی عبور حاصل ہے. دیکھنے میں جتنے سادہ ہیں لیکن کام میں اتنے اعلی ہیں. مغرب کے بعد مولانا امتیاز احمد جمالی السندی بھی تشریف لائے، ان سے بھی مختلف موضوعات پر بات چیت چلتی رہی. مولانا جمالی صاحب بھی نوجوان محقق عالم دین ہیں، تازہ ان کی تحقیق سے “حاشیۃ السندی” بیروت سے طبع ہوئی ہے، اس کے علاوہ بھی مولانا صاحب مختلف کتب پر تحقیق کررہے ہیں. عشاء کے بعد مخدوم مکرم ڈاکٹر مفتی محمد ادریس السندی سے ملاقات ہوئی، حضرت دامت برکاتہم نے سندھی ثقافت کی روایت کے مطابق پہلے حال احوال اور خیریت دریافت کی اور فرمایا کہ بہت عرصے بعد ظاہر ہوئے ہو. (یہ محض اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اکابرین بندے کے ساتھ بہت شفقت کا معاملہ فرماتے ہیں) اس کے بعد بہت سارے علمی موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، بالخصوص اس موضوع پر کہ سندھ میں نایاب علمی ذخیرہ ضائع ہونے سے کیسے بچایا جائے اور ان تک رسائی کیسے حاصل کی جائے تاکہ یہ میراث محفوظ ہوکر نسل نو تک پہنچے. اس کے بعد حضرت دامت برکاتہم کی طرف سے مہمانوں کے لیے عشائیہ کا اہتمام تھا، جس میں مختلف قسم کے کھانوں سے تواضع کی گئی. کھانے کے بعد مولانا عبدالباقی ادریس السندی اپنے وفد کے ساتھ تشریف لائے، یہ حضرت دامت برکاتہم کے بڑے صاحبزادے ہیں اور لائق فائق انسان ہیں، انہوں نے علماء سندھ اور تاریخ سندھ پر بڑا شاندار کام کیا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply