زینب ،حوا کی بیٹی۔۔اُمِ فاطمہ

زینب ، زینب ، زینب ۔۔ تین دن  سے ایک یہی نام ہر جگہ گونج  رہا  تھا۔ کہرام  مچا  تھا سوشل میڈیا اور ہر ٹی وی چینل پر ۔۔ایک لمحے کو میرا ذہن جامد ہو گیا کیونکہ زینب کوئی عام نام نہیں تھا۔میں جب بھی یہ نام سنتی تھی کربلا کے واقعے کی یاد تازه ہو جاتی تھی۔ بے مثال قربانیاں منسلک تھیں  اس نام سے۔۔ایسا نام جس نے ظلم کے ایوانوں پر لرزه طاری کر دیا تھا لیکن آج جس زینب کا نام لیا جا رہا تھا وه سات سالہ معصوم وجود تھا۔ آج قربانی جیسا لفظ اس وجود سے بھی منسلک ہو گیا تھا۔کربلا تب بھی گزری تھی ۔۔ کربلا آج بھی گزری۔ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرنے والے ہر دور میں پائے جاتے ہیں ۔۔ بس ان کے نام الگ ہوتے ہیں ۔

یزید ہوتے ہیں ہر زمانے میں

وقت دوہراتا ہے کربلا کو!

بیٹیاں جب کسی گھر میں پیدا ہوتی ہیں تو رحمت کی نوید ہوتی ہیں۔ماں باپ کے دکھ سکھ کی ساتھی۔آج جس گھر کی زینب گئی اس گھر میں اس کی پیدائش پر کتنا خوشی کا سماع ہو گا۔وه رحمت کسی درندے نے والدین سے اپنی ہوس  کی وجہ سے   چھین لی ۔۔ زمین پھٹی نہ آسمان نے قہر برسایا ۔ماں باپ سے دوری ۔۔ اداسی اور نجانے کس عالم میں زینب چلی گئی ۔اس کے والدین کس کرب سے گزر رہے ہوں گے اس کا علم بس خدا کی  ذات کو ہے۔۔

‏میری ماں آ کے دیکھ سہی

‏تیری زینب کہاں کھو گئی

‏بچے گلیوں میں کھیلتے رہے

‏میں منوں مٹی تلے سو گئی

‏میں بھی بنی ہوس کا نشاں

‏تیری زینب کتنی بڑی ہو گئی

‏تیرے آنے پہ لپٹنا تھا تجھ سے

‏میں قبر کو لپٹ کے سو گئی!

کربلا کا واقعہ جس طرح اکنافِ عالم میں ہر آنکھ کو اشک بار کرتا ہے اسی طرح زینب کے واقعے نے بھی پتھر سے پتھر دل  کو  پسیج دیا ۔۔ ہر دردِ دل رکھنے والا انسان اس دکھ کو محسوس کر رہا تھا بس ٹوٹے نہیں تو وه ہاتھ نہیں ٹوٹے جنہوں نے اس نازک کلی کو مسل ڈالا۔ کیا مؤنث ہونا اتنا بڑا جرم ہے؟؟ہمارے معاشرے میں عورت کو جنسی تسکین کا سامان کیوں سمجھا جاتا ہے ؟؟ چاہے وه بیس سالہ لڑکی ہو ۔۔ تیس ، چالیس سالہ عورت یا سات سالہ زینب ۔۔ ہمارے معاشرے میں راه چلتی عورت سے اکیلے سکول ،گھر یا گلی میں کھیلتی بچی کو بھی مفت کا مال سمجھا جاتا ہے۔۔ جس معاشرے میں راه چلتی عورت کو دیکھ کر سر تا پا اس کا معائنہ نظروں سے کرنے کا رواج ہو اس معاشرے میں زینب جیسے واقعات ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔۔ ظلم تو یہ ہے کہ ہمارے بچوں کے لیے اب گھروں کے سامنے گلیاں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میڈیا کے مطابق اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات درج ہو چکے ہیں ۔۔ احتجاج کے دوران دو لوگ جاں بحق بھی ہوئے۔ ہمارے ملک میں آواز اٹھانا ایک مشغلہ بن چکا ہے اور آواز اٹھانے کے لیے  بھی ہم کسی بڑے اور برے سانحے کا انتظار کرتے ہیں ۔ دو چار دن کے لیے   ہم زور دار آواز اٹھاتے ہیں پورے ملک کا نظام درہم برہم کر دیتے ہیں اور پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیں ہمارے معاشرے میں  چار دن اپنے قد سے بلند آوازیں اٹھانا۔۔ ہر کیس کو ہائی پروفائل بنا کر میڈیا پر پیش کرنا ایک فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے اور پھر اس کا نتیجہ صفر نکلتا ہے۔۔اللہ تعالی نے انسانی ساخت فطری اصولوں اور انسانی ضرورت کے مطابق کچھ اصول وضع کیے ہیں ۔۔ ہمارے معاشرے میں دین سے برائے نام واسطہ ناقص نظام تعلیم ،فوری انصاف کی کمی،بے روزگاری ،دیر سے شادیاں ۔۔۔یہ سب ایسےاسباب میں جو مل کر اس جیسی جرائم پیشہ سوچ کو جنم دیتے ہیں۔

ایک کم تعلیم اور ناقص تربیت کا حامل فرد جب بے روزگار ہو گا تو خالی ذہن شیطان کا گھر بنے گا   ۔ زینب جیسا واقعہ بس ایک فرد کی سوچ کو عیاں نہیں کرتا   یقیناً آج جو مرد آواز بلند کر رہے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ راه چلتی کسی عورت کو دیکھے بغیر گزرنے نہیں دیتے ہوں گے۔۔ پھر افسوس کس بات کا ؟؟ تہی دامن تو ہم پہلے ہی ہیں بس آج لُٹ گئے تو کیا ہوا ؟؟ ہمیں اجتماعی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔۔ نجانے اور کتنی زینب اس معاشرے میں اس فعل کی بھینٹ چڑھیں گی؟؟ نجانے کب صبح طلوع ہو گی ۔۔ کب یہ مرده اور بیمار سوچ کا اندھیره چھٹے گا۔۔ میں نے ان بلند آوازوں میں ایک نخیف سی آواز اٹھائی ہے اور میں نے اپنے حصے کا حق ادا کر دیا یہ جانتے  ہوئے بھی کہ “نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ ”

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply