کچھ دنوں سے میں شکیلہ خراسانی کو دوبارہ سے سننے لگا ہوں۔۔۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔۔۔ میں جب بھی شکیلہ کی گائی ہوئی کوئی غزل یا گیت سنتا ہوں تو مجھے اپنے اسکول کے دن یاد آجاتے ہیں۔۔۔ وہ دن جب میں نے ایف ایم کی بدولت شکیلہ کی آواز کو پہلی بار سنا تھا۔۔۔
“تمہارا عشق تمہاری وفا ہی کافی ہے۔۔۔
تمام عمر یہی آسرا ہی کافی ہے۔۔۔”
شکیلہ کی یہ غزل تقریباً ہر دوسرے، تیسرے دن ریڈیو سے نشر کی جاتی تھی۔۔۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں غزل، پاپ میوزک وغیرہ کے درمیان کسی بھی قسم کا فرق سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔ پہلی بار شکیلہ کا نام میں نے جرار کی زبان سے سنا تھا، جرار میرا کلاس فیلو تھا، ہم ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے تھے، وہ شیعہ تھا، ہماری جماعت میں کُل تیس لڑکے اور پندرہ لڑکیاں تھیں جن میں سب ہی سُنّی مسلک سے تعلق رکھنے تھے سوائے چار، پانچ کلاس فیلو کے جن کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا اور ایک لڑکی ہندو تھی، جو سکھر سے آئی تھی۔۔۔ اُن دنوں میرے نزدیک شیعہ، سنّی کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی اور میں اپنے سنّی مسلک کی وجہ سے سب ہی شیعوں کو اداس نظروں سے دیکھا کرتا تھا، میں ان کے لیے اداس اس لیے ہوتا تھا کہ وہ سب بیچارے مرنے کے بعد دوزخ میں جائیں گے اور جنّت صرف ہم سنّی مسلمانوں کے لیے ہی اللّہ نے مختص کی ہوئی ہے۔ جرار اپنے شیعہ ہونے کی وجہ سے بلاوجہ ہر معاملے میں اپنے آپ کو کلاس کے دوسرے تمام ہم جماعتوں کے مقابلے میں نمایاں رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔۔۔ وہ بڑے فخریہ انداز میں مجھے بتایا کرتا تھا کہ پاکستان کے سب ہی اچھے اچھے مشہور فنکاروں کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔۔۔ اس کی یہ باتیں سن کر میں دل ہی دل میں سوچتا کہ آخر کیوں یہ سب مشہور فنکار شیعہ ہیں، کاش یہ سنّی ہوتے۔۔۔ جس بھی فنکار کے ساتھ حسین، زیدی، عباس، رضوی، حیدر، امام، خراسانی یا شاہ آتا، وہ انہیں شیعہ مسلک کا ڈکلیئرڈ کر دیتا۔۔۔ ایک دن وہ اسکول آیا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے شکیلہ خراسانی کو سنا ہے؟؟؟
میں نے کہا نہیں، کون ہے یہ؟؟؟ کہنے لگا اس کا تعلق ایران کے علاقے خراسان سے ہے، کراچی میں رہتی ہے اور بہت ہی عمدہ گاتی ہے۔۔۔ اور یہ شیعہ بھی ہے۔۔۔ اس کی غزل “تمہارا عشق تمہاری وفا ہی کافی ہے” آج کل ایف ایم پر ریگولر چل رہی ہے، تم اس کو لازمی سننا۔۔۔ میں نے کہا ہاں میں آج ہی گھر جا کر یہ غزل ایف ایم پر سنوں گا۔۔۔ اس شام گھر پہنچ کر میں نے ایف ایم آن کیا اور شکیلہ کی غزل کا انتظار کرنے لگا مگر میری بدقسمتی کہ اس شام شکیلہ کی غزل نشر نہیں ہوئی، اور مسلسل کال ملانے کے باوجود میری کال بھی نہیں لگ سکی، صبح اٹھا تو دوبارہ ایف ایم آن کیا اور شکیلہ کی غزل سننے کی فرمائش کے لیے ایف ایم پر کال ملائی، کچھ ہی دیر میں میری کال مل گئی، میں نے جب کوآرڈینیٹر سے شکیلہ خراسانی کی غزل “تمہارا عشق، تمہاری وفا ہی کافی ہے” سنوانے کے لیے کہا تو اس نے کہا کہ یہ مارننگ شو ہے، اس میں ہم غزلیں نشر نہیں کر سکتے، آپ کسی اور گانے کی فرمائش لکھوا دیں، ہم پوری کوشش کریں گے کہ آپ کی مطلوبہ فرمائش پروگرام کا حصہ بن سکے۔۔۔ میں نے انہیں بتایا کہ کل شام سے رات تک میں نے مسلسل کالز کیں لیکن میری کال کنیکٹ نہیں ہوئی، مجھے یہی غزل سننی ہے، اگر آپ اس پروگرام میں نہیں سنوا سکتے تو گیارہ بجے کے پروگرام میں اس کو لازمی شامل کیجیے، میرا دوپہر کا اسکول ہے، اگر بارہ بجے سے پہلے یہ غزل نشر ہو جاتی ہے تو میں اسے باآسانی سن سکوں گا، اب رات کا کون انتظار کرے ابھی تو صبح کے نو بج رہے ہیں، میں پہلے ہی اتنا انتظار کر چکا ہوں۔۔۔ برائے مہربانی میری درخواست پر غور کریں، کیا آپ اتنا چھوٹا سا کام بھی نہیں کر سکتے اپنے ریگولر لِسنر کے لیے۔۔۔۔ میری ان باتوں پر کوآرڈینیٹر کا دل نرم ہو گیا اور اُس نے مجھے کہا کہ اچھا آپ تھوڑا سا انتظار کریں، میں گیارہ بجے کے پروگرام میں ہر حال میں شکیلہ خراسانی کی غزل نشر کروا دوں گا۔۔۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کا نام پوچھا، اس کے ساتھ ہی میں نے اس کی ڈیوٹی ٹائمنگ بھی معلوم کر کے فون کال ختم کر دی۔۔۔ کوآرڈینیٹر سے اتنی ساری باتیں کر کے مجھے خوشی ہو رہی تھی، عموماً لِسنرز کی کالز کے بےپناہ رش کی وجہ سے کوآرڈینیٹر اتنی لمبی بات کسی سے بھی نہیں کرتے تھے، اس صبح میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب جب بھی کوئی خاص گانا مجھے سننا ہو گا تو میں فوراً ہی اسی کوآرڈینیٹر کو جس نے اپنا نام مجھے حمّاد بتایا تھا کال کر کے نوٹ کروا لیا کروں گا، بہت ہی اچھا کوآرڈینیٹر ہے یہ، اتنا نرم دل۔۔۔ اس کے بعد میں اپنے ہوم ورک میں مصروف ہو گیا اور ٹھیک گیارہ بجے دوبارہ ایف ایم آن کیا تو نیا پروگرام شروع ہو چکا تھا، کچھ ہی دیر بعد تقریباً ساڑھے گیارے بجے پروگرام کے پِریزینٹر نے میرا میسج پڑھا جو میں صبح نو بجے ہی کوآرڈینیٹر کو لکھوا چکا تھا، پریزینٹر نے کہا کہ “عاطف کی پُرزور فرمائش پر اب ہم شکیلہ خراسانی کی مشہور غزل “تمہارا عشق، تمہاری وفا ہی کافی ہے” سنوا رہے ہیں، عاطف ہمیں امید ہے آپ اس وقت ہمیں سن رہے ہوں گے” وہ وقت جب میری فرمائش پر یہ غزل ایف ایم سے نشر ہو رہی تھی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، ان دنوں میری عادت تھی کہ جو بھی غزل یا گانا میں سنتا تھا تو اسے جلدی جلدی اپنی کاپی پر بھی نوٹ کر لیا کرتا تھا (یہ عادت ابھی بھی قائم ہے، اب فرق صرف یہ ہے کہ مجھے لکھتے وقت زیادہ کوفت نہیں ہوتی، کیونکہ زیادہ تر گانوں کے بول مجھے گوگل پر باآسانی لکھے ہوئے مل جاتے ہیں اور میں انہیں سکون سے دیکھ دیکھ کر اپنے پاس لکھ لیتا ہوں، لیکن اس زمانے میں ایک گیت کو مکمل اپنے پاس لکھنے میں مجھے پانچ، چھ دن لگ جایا کرتے تھے اور میری املاء بھی اچھی نہیں تھی)
اس دن جب میں اسکول گیا تو جرار نے پوچھا تم نے وہ غزل سنی یا نہیں۔۔۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ غزل آج صبح ہی ایف ایم پر سنی ہے اور صبح کا پورا قصہ اس کو سنا دیا، میں نے یہ بات محسوس کی اسے میری ان باتوں پر اعتبار نہیں آیا، اس کا یہی کہنا تھا کہ کوآرڈینیٹر اتنی لمبی کال کسی کی لیتے ہی نہیں ہیں۔۔۔ میں نے اس کو اپنی کاپی بھی دکھائی جس میں شکیلہ خراسانی کی اس غزل کے شروع کے تین مصرعے لکھے ہوئے تھے، میری لکھائی دیکھ کر اس کو پھر یقین آگیا تھا۔ جرار تھا ہی ایسا، پتا نہیں اپنے آپ کو بلاوجہ دوسروں سے ممتاز کر کے اور دوسروں کی باتوں پر فوراً یقین نہ کر کے اپنے آپ کو کیا ثابت کرنا چاہتا تھا۔۔۔
محرم کے دنوں میں وہ مٹّی کی چھوٹی سی ٹکیہ اسکول لے کر آیا، مجھے وہ ٹکیہ دکھاتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ کربلا کی ہے، میری دادی زیارت کے لیے گئیں تھیں تو وہ خاص طور پر میرے لیے لے کر آئی ہیں۔۔۔ مجھے وہ مٹی دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا، میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ کربلا سے مٹی لانے کا کیا مقصد ہے، یہ مٹی تو پاکستان میں بھی موجود ہے، کیا کربلا کی مٹی پاکستان کی مٹی سے مختلف ہے۔۔۔ اس طرح کی چوکور ٹکیہ تو یہاں کی مٹی سے بھی بن جاتی ہے۔۔۔ لیکن اس وقت یہ سب باتیں میں نے اپنے دل میں ہی رکھیں، میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ مجھے اس مٹی کو لے کر جھوٹے سچے قصے سنائے۔۔۔ قصوں کی تو اس کے پاس بھرمار ہوتی تھی۔۔۔۔ محرم کے ہی دن تھے اس نے مجھے اسکول میں انٹرویل کے دوران بتایا کہ کل رات مجلس میں “کجّن بائی” بھی آئی ہوئی تھیں۔۔۔ بہت ہی خوبصورت اور درد بھری آواز ہے ان کی، سارا شہر ان کی سوز خوانی کا دیوانہ ہے۔۔۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں۔۔۔ تو اس کا کہنا تھا کہ تم کہاں، کس دنیا میں رہتے ہو جو کسی بھی اہم شخصیت کو جانتے تک نہیں۔۔۔ پھر اس نے بتایا کہ “کجّن بائی” گلوکارہ مہناز کی امّی ہیں، اب تم مہناز کو بھی نہیں جانتے ہو گے؟ میں نے کہا کہ ہاں میں مہناز کو جانتا ہوں، اس کے فلمی گانے سنتا رہتا ہوں، ٹی وی اور ریڈیو پر، لیکن کیا مہناز بھی شیعہ ہے؟؟؟ اس دن مجھے جرار سے یہ جان کر دکھ ہوا تھا کہ مہناز بھی شیعہ ہے۔۔۔ ایک بار اس نے سعدیہ امام کا بھی ذکر کیا تھا کہ وہ سیاہ لباس پہن کر مجلس میں آئی تھی اور امام حسین کے لیے اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔۔۔
اسکول کا وہ زمانہ بس ایسا ہی تھا، مذہبی تقدس اور اندھی عقیدت، شیعہ، سنّی اور توہم پرستی کے لبادے میں لپٹا ہوا۔۔۔ کالج کی آزاد فضا میں اندھی عقیدت پرستی کا وہ زمانہ منوں مٹی تلے دفن ہو چکا تھا، اب میرے ساتھ جرار جیسے کلاس فیلوز نہیں تھے اس لیے آہستہ آہستہ میں شیعہ، سنّی کی بحث سے دور ہوتا چلا گیا۔۔۔ کالج کے دنوں میں اگر مجھے کسی بھی کلاس فیلو کے بارے میں علم ہوتا کہ وہ سنّی ہے یا وہ شیعہ ہے تو مجھے اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، ایک بات میرے دماغ میں بیٹھ چکی تھی کہ مذہب کی وجہ سے کوئی بھی انسان ترقی کی منزلیں طے نہیں کرتا، اور نہ ہی کوئی انسان مذہب کے بل بوتے پر نیک ہو سکتا ہے۔۔۔ یہ ہر انسان کی اپنی انفرادی کوشش، جستجو اور لگن ہوتی ہے جو اسے ترقی یافتہ بناتی ہے اور نیکی و بدی کا فرق سکھاتی ہے۔۔۔ کوئی بھی گلوکارہ یا گلوکار خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ اچھا گائیں گے تو یقیناً ترقی بھی کریں گے، ان کی آواز لوگوں کو متاثر کرے گی۔۔۔ اور یہی چیز ہم زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی اپلائی کر سکتے ہیں۔۔۔ محنت، سچائی، خلوص، لگن، جستجو، رحم دلی، علم، وجدان، خوبصورتی، خلوص کسی کی بھی میراث نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مذہب اور قومیت ان چیزوں کو اپنے آپ سے منسوب کر کے دوسروں پر اجارہ داری قائم کر سکتی ہے۔۔۔ یہ تو آفاقی چیزیں ہیں جو دنیا کے کسی بھی انسان میں پائی جا سکتی ہیں، مذاہب و قومیتوں، جغرافیائی اور زبانوں کی سرحدوں سے ماورا۔۔۔
اسکول کے دنوں میں جرار نے مجھے بتایا تھا کہ شکیلہ خراسانی کا تعلق ایران سے ہے، لیکن کالج لائف میں آنے کے بعد جب میں نے تسلسل کے ساتھ فنکاروں کے بارے میں مختلف رسالوں میں پڑھنا شروع کیا تو مجھے نئی نئی اور معیاری باتیں پڑھنے کو ملیں۔۔۔۔ ان ہی دنوں کسی رسالے میں شکیلہ خراسانی کا ایک مختصر سا انٹرویو مجھے پڑھنے کو ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ شکیلہ کے آباؤ اجداد کا تعلق خراسان سے ہے، وہ لوگ کسی زمانے میں بنگال ہجرت کر گئے تھے اور شکیلہ کا جنم بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں ہوا، تو شکیلہ پیدائشی طور پر بنگالی ہیں، ایرانی نہیں ہیں۔۔۔ اس وقت مجھے جرار پر غصہ آیا تھا کہ کیسے وہ ہر ایک کو شیعہ اور پھر ایرانی بھی بنا دیا کرتا تھا۔۔۔ لیکن ایک بات کا میں کریڈٹ جرار کو دوں گا کہ اس کی وجہ سے مجھے کجّن بائی اور شکیلہ خراسانی کے بارے میں علم ہوا تھا۔۔۔ یہ دونوں ہستیاں اپنے فن میں بےمثال ہیں۔۔۔ کجّن بائی کا انتقال ہو چکا ہے، ان کی ہونہار بیٹی مہناز بھی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔۔۔ میں اکثر مہناز کے گیت یُوٹیوب پر سنتا ہوں اور شکیلہ خراسانی جو مہناز سے بہت جونیئر ہیں، ابھی تک باقاعدگی سے گا رہی ہیں۔۔۔ مجھے شکیلہ کو سن کر بے پناہ خوشی ہوتی ہے، ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے ان سے رابطہ ہوا ہے۔۔۔ ان کے یُو ٹیوب چینل پر اپلوڈ ہونے والی ہر غزل اور گیت کو میں نہایت ہی عقیدت اور شوق سے سنتا ہوں اور اس زمانے میں کھو جاتا ہوں جب پہلی بار ان کو ایف ایم پر سنا تھا۔۔۔ تمہارا عشق۔۔۔ یہ غزل ابراہیم اشک کی ہے، اس کی دھن ہری ہرن نے کمپوزڈ کی تھی اور اسے گایا تھا شکیلہ خراسانی نے جو اب شکیلہ احمد کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
تمہارا عشق تمہاری وفا ہی کافی ہے
تمام عمر یہی آسرا ہی کافی ہے
یہ لوگ کونسی منزل کی بات کرتے ہیں
مسافروں کے لئے راستہ ہی کافی ہے
شکیلہ خراسانی کے ایک اور گیت سے بھی میری یادیں وابستہ ہیں۔۔۔ کچھ دن پہلے انہوں نے اپنی ایک پرانی میوزک ویڈیو “دو چار پل مجھے دے دو نا کل” اپلوڈ کی
تو میں نے انہیں کمنٹ کیا جس پر ان کا بہت ہی اچھا جواب مجھے موصول ہوا۔۔۔ میں اپنا وہ کمنٹ اور ان کا جواب مندرجہ ذیل میں نقل کر رہا ہوں۔۔۔
مائی موسٹ فیورٹ۔۔۔ بہت سی یادیں وابستہ ہیں میری اس گانے سے۔۔۔ اکثر ایف ایم ریڈیو پر بھی کال کر کے میں اس گانے کی فرمائش کیا کرتا تھا۔۔۔
اور شکیلہ خراسانی نے مجھے اس کمنٹ کے جواب میں لکھا تھا کہ
Thank You
One of the most beautiful aspect of songs, is that they have memories attached to them
شکیلہ خراسانی نے پاپ میوزک کے ساتھ ساتھ کلاسیکل گائیکی میں بھی توجہ دی ہے، غزل گائیکی میں ان کا اپنا ایک الگ ہی انداز ہے، جو ہر عمر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ہندوستان کے ہری ہرن کے ساتھ مل کر انہوں نے لازاول گیت تخلیق کیے جو ہمیشہ سننے والوں کو مسحور کرتے رہیں گے۔۔۔ شکیلہ خراسانی کا سفر ابھی جاری ہے۔۔۔ آنے والے دنوں، مہینوں اور سالوں میں ہم ان کی آواز میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی گیت بھی سنیں گے۔۔۔
اب میں اپنی اس قسط کا اختتام کر رہا ہوں۔۔۔ میری یہ قسط ایک معمولی سا خراجِ عقیدت ہے “شکیلہ جی” کے لیے اور جاتے جاتے میں ان کی گائی ہوئی دو مشہور غزلوں کے دو اشعار اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے لکھ کر رخصت چاہتا ہوں۔۔۔
پہلا شعر میں نے ابراہیم اشک کی غزل سے لیا ہے؛
جہاں کہیں بھی ملو، مل کے مسکرا دینا۔۔۔
خوشی کے واسطے یہ سلسلہ ہی کافی ہے!!
اور دوسرا شعر احمد فراز کی غزل سے پیشِ خدمت ہے؛
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوعِ گفتگو،
میں جا چکا ہوں پھر بھی تیری محفلوں میں ہوں!
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں