• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شدت پسندی اپنے ہررنگ میں اک ناسور ہے؟۔۔سدرہ ملک

شدت پسندی اپنے ہررنگ میں اک ناسور ہے؟۔۔سدرہ ملک

 شدت پسندی اپنے ہررنگ میں اک ناسور ہے؟۔۔سدرہ ملک/کہا جاتا ہے کہ “بد سے بدنام بُرا” اور کیا ہی بہترین کہا گیا ہے۔یعنی اگر ہم اس لفظ ” انتہا پسندی”کو درست تناظر میں دیکھیں تو انتہا پسند ہونا کئی  زاویوں سے ایک درست بلکہ احسن رویّہ ہے۔
مثال کے طور پر اصولوں کے معاملے میں انتہا پسندی’ظلم و جبر اور جہالت کے مقابل سینہ سپر رہنا’ اور اس معاملے میں کسی دنیاوی رکاوٹ’یا اختلاف کو درخور اعتنا ء نہ  سمجھنا، انتہا پسندی کی انتہائی لائق تحسین شکل ہے۔انتہا پسندی کی یہ قسم نا صرف ایثار وقربانی کا نمونہ ہوتی ہے بلکہ اعلیٰ  درجہ کی حکمت و دانائی کی محتاج بھی ہوتی ہے۔یعنی دین و اخلاق اور اصولوں کے نام پر ایسے قدم اٹھانا جو نا صرف اپنی ذات بلکہ ملک و ملت کے لئے بھی باعث شر و فساد ہوں کسی طرح بھی لائق تحسین نہیں کہے جا سکتے ۔
ہاں اگر انتہا پسندی “حسینیؑ ” ہو۔۔۔
اگر دین کے لئے یوں کھڑا ہوا جائے کہ پھر جان و مال حتٰی کہ اولاد قربان کردی جائے مگر دین کی حُرمت پر کوئی آنچ نہ  آنے دی جائے تو ایسی انتہا پسندی بارگاہِ خداوندی میں بھی یقیناً مستجاب ہے مگر اس کے لئے درست معرفتِ  دینی اور دانش حسینیؑ ہونا بھی ضروری ہے۔

آج مسلمان جس تنزلی اور ذلت و لاچاری میں گرفتار ہیں یہ ہم مسلمانوں کی خود پر لائی ہوئی اُفتاد ہے جس کا ذمہ دار ہم دوسرو ں کو ٹھہراتے ہیں۔
کیا ہم نے خود کو   فرقوں میں بانٹ کر اپنی قوت کو منتشر نہیں کیا۔ ؟
کیا ہم نے خود زکوٰۃ و صدقات کے باوقار شرعی معاشی نظام کو نظر انداز کرکے غیروں کا غیر اسلامی اور سودی نظام   خود پر مسلط نہیں کیا؟
کیا ہم نے خود رشوت و سود خوری اور بے ایمانی کے ذریعے اسلامی ملک اور ملت کی جڑوں کو نہیں کاٹا؟

یہ سب کچھ اپنے ہاتھوں سے خود کرنے کے بعد   ملک و ملت کو مفلوج کرکے،غیروں کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح تھما کر اب ہم ان کے تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔ہم اسلام چاہتے ہیں اور اسلام کا نظام چاہتے ہیں۔
جبکہ دراصل ہم نہ  تو اسلام چاہتے ہیں نہ  ہی اسلامی نظام ہمارے لئے قابل قبول ہے بلکہ ہمیں اپنی ذاتی خواہشات پر مبنی ایک اینگلو مسلم اسلام کا نفاذ چاہیے۔ایسا اسلام جس میں جزا و سزا کے کوئی سخت قوانین نہ  ہوں۔جس میں چور کے ہاتھ نہ  کاٹے جائیں ‘زانی کو سنگسار نہ  کیا جائے ۔بے نمازی  کو مرتد قرار بھی نہ  دیا جائے ،ہاں البتہ اسلام ہو اور فقط کتابی اسلام ہو کر بھی وہ ہمارے معاشرے ،ہماری ملت کو دنیا کی نمبر ون ملت بنا دے۔

شدت پسندی کو فروغ دینے میں دوسرا اور اہم ہاتھ فرقہ پرست کم علم اور جاہل علما  کا بھی ہے۔جنہوں نے دین کو روزی کے ذریعہ کے طور پر اختیار کیا۔ اور دین کے نام پر ذاتی خواہشات اور ہوا وہوس کا چورن بیچا۔
اپنی وحشی اور شر انگیز طبیعت و فطرت کے مطابق اپنے سامعین کی ذہن سازی کی ۔فرقہ پرستی و فرقہ واریت کو فروغ دے کرمعاشرے کو تنزلی کی ایک گہری کھائی میں گرا دیا۔
جبکہ آخری اور سب سے اہم وجہ دشمن قوتیں ہیں ۔جو کہ ہر قسم کی دہشت گردی اورانتہا پسندی کی اصل مآخذ ہیں۔جو جانتے ہیں کہ اسلام ہی سر بلند ہے۔مسلمان ہی وہ قوت ہے جسے جتنا دبایا جائے گا اتنا ابھر کر سامنے آئے گی۔لہذا ان کو خود ان ہی کا دشمن بنا دیاجائے۔بھائی کو بھائی سے لڑواکر مسلمان کو آپس میں ہی مشغول رکھا جائے تاکہ نفرت و عناد کی جنگ میں خود سے ہی ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں۔

کچھ انسان فطرتاً ہی انتہا پسند واقع ہوا ہے۔ محبت ہو یا نفرت’انسان جذبات پر کامل اختیار رکھتے ہوئے بھی اپنے سب سے ضروری اختیار کے استعمال کو انتہائی غیر ضروری سمجھ کر نظرانداز کر دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے نفس پر’ اپنے کینہ و نفرت پر غلبہ پانے والے کو اصل بہادر اور غالب قرار دیا ہے۔مگر مسلمان اسی بنیادی اصول کو ہی نظر انداز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اگر بات شدت پسندی کے سدباب کی، کی جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس مسئلےکی شدت سے درست طور پر واقف ہوں،کیونکہ ہماری نظر میں شاید
“شدت پسندی صرف بم باندھ کر پھٹ جانے کا نام ہے۔”جو کہ دراصل شدت پسندی کی نایاب ترین شکل ہے۔

جبکہ جہالت اور اس پر ناسازگار معاشی و سیاسی حالات نے مل جل کر ہم میں سے ہر فرد کو کسی نا کسی زاویے سے متاثر کیا ہے۔یہ منحصر  ہے ہر فرد کی ذاتی قوت مدافعت پرکہ کون کس حد تک متاثر ہوتا اور کون کس حد تک اپنے ذہنی خلفشار و انتشار سے لڑپاتا ہے۔ہاں مگر کم یا زیادہ لیکن ہم میں سے ہر فرد کہیں نہ  کہیں اپنے رویوں میں انتہا پسندی کی جانب مائل نظر آتا ہے جوکہ ملک و ملت حتیٰ کہ خود ہماری ذات کے لئے بھی کوئی فائدہ مند یا تعمیری رویہ نہیں ہے۔
لہذا سدباب سے پہلے وجوہات کا درست موازنہ ضروری ہے ۔
کہ معاشرے کے اندر بہت بڑا طبقاتی فرق اور اداروں کے اندر مقتدرین کی جانب سے روا رکھا جانے والا آمرانہ رویہ بھی ذہنوں میں ایسا خاموش زہر انڈیل رہا ہے کہ شاید  اس کا اندازہ ہونے تک یہ بھی ایک بھیانک روپ اختیار کر چکا ہوگا ۔ اس ذلت آمیز تفریق کے نتیجے میں ایک غیر ضروری حساس اور بیمار ذہنیت معاشرہ وجود میں آئے گا۔

اس سب سے قطع نظر ہمیں یقین دلایا جا رہا  ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ روٹی ہے جبکہ دراصل ہمارا سب سے بڑا مسئلہ جہالت ہے۔
کہ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام ارباب اختیار اپنے دائرہ کار میں درپیش مسائل کا کوئی دیرپاحل ڈھونڈنے کی بجائےوقتی طور پرمٹی ڈال کراپنا وقت گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔
مگر ملک و ملت کے حق میں کئے گئے مضبوط مگر دیر پا اور انقلابی فیصلے ہی ایک دن اس معاشرتی ناسور سے ہمیں چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔

لہذا سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فقط تحریروں اور تقریروں سے مسائل کبھی حل نہ  ہونگے جب تک کہ کوئی ٹھوس اور عملی اقدامات نہ  اٹھائے گئے ۔ اقدامات بھی وہ جو دلیری سے مضبوط بنیادوں پر لئے گئے ہوں۔
لہذا مسائل کا سر کاٹنے کی بجائے جڑیں کاٹی جائیں تو اگرچہ اس میں بہت وقت اور مشقت درکار ہوگی مگر کم از کم ایک ایک کر کے معاشرہ توازن کی جانب بڑھنے لگے گا۔

اس مقصد کے لئے سب سے پہلے جہالت کا خاتمہ ضروری ہے۔ اداروں میں نیز’ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر امن و برداشت اور اخلاقیات کی ترویج کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ ہو۔

ہاں مگر طبقاتی فرق کسی بہت بڑے معاشی انقلاب کے بِنا نا ممکن ہے۔ایک ایسا انقلاب جو حکومت اور عوام دونوں کی ذمہ داری ہے۔حکومت نچلے طبقے کے معاشی و مالی مفادات اور غربت کے خاتمے کو جب تک زندگی موت کا مسئلہ قرار دے کر ہنگامی بنیادوں پر مضبوط عملی اقدامات نہیں  اٹھائے گی تبدیلی نا ممکن ہے۔اسی طرح عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی زکوۃ و صدقات کی درست تقسیم کے ذریعےخدا و رسول ﷺ کی جانب سے عائد کی گئی اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داری کو با احسن انجام دیں۔نیز غرباء پروری اپنائیں جو کہ دین و دنیا کی بھلائی کا بہترین ذریعہ ہے۔

مذہبی اور فرقہ ورانہ شدت پسندی کے خاتمہ کے لئے درست دینی تعلیمات کے پرچار کا سرکاری نگرانی میں ایک نظام قائم کیا جائے۔تاکہ ہر شخص اپنی ذاتی پسند نا پسند پر مبنی ایک “دجالی” اسلام لوگوں کو سکھا سکھا کر خونی انتشار کا باعث نہ بنے۔بلکہ سرکاری سطح پر اسلام کی اصلی اور درست اخلاقی اقدار و تعلیمات کا پرچار ہو۔
جیسا کہ قرآن میں بہت واضح پیغام موجود ہے کہ
“تمہارے لئے تمہارا دین، ہمارے لئے ہمارا۔ ”

نیز جب دین میں کوئی جبر ہی نہیں تو مذہبی بنیادوں پرنفرت اور خون خرابہ ایک انتہائی غیر انسانی رویہ ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور سب سے آخر میں ایک غیرت مند قوم بن کراپنے اندرونی معاملات کو سدھارنے کے بعد خود میں کم ازکم اتنی جرأت اظہار ضرور پیدا کریں کہ دنیا کے سامنے کلمۂ حق بلند کر سکیں ۔
“کم از کم بھی دنیا کو اتنا پیغام جانا تو ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑنے والے مسلم کو ” انتہا پسند” کہنا بند کرے۔ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply