کینسر (79) ۔ مارچ/وہاراامباکر

کینسر صرف جسم پر ہونے والا ٹیومر نہیں۔ یہ بیماری متحرک ہے، ارتقا کرتی ہے، اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے، ٹشو تباہ کرتی ہے اور ادویات کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ تجربات میں چوہوں پر دو بڑی طاقتور اونکوجین فعال کر دینے کا نتیجہ یہ نہیں نکلا کہ یہ پورا سنڈروم چوہے کے ہر خلیے میں پہنچ گیا۔ ان تجربات نے یقیناً اس بیماری کے علم کو روشن کیا لیکن یہ بھی دکھایا کہ ابھی بہت کچھ مزید جاننا باقی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر دو اونکوجین کینسر کے لئے ناکافی تھیں تو پھر کتنی فعال اونکوجین اور غیرفعال اینٹی اونکوجین درکار تھیں؟ وہ تمام جینیاتی قدم کیا تھے جو ایک عام خلیے کو کینسر تک لے کر جاتا ہے؟ انسانی کینسر کے بارے میں اس سوال پر برٹ ووگلسٹائن نے 1988 میں کام شروع کیا۔ اگلے بیس برس یہی ان کی توجہ کا مرکز رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے سائنسدان یہ دریافت کر چکے تھے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ نارمل خلیہ براہِ راست کینسر زدہ ہو جائے۔ کینسر کی پیدائش دھیرے سے ہوتی ہے۔ ایک سٹیج سے اگلی۔ مکمل نارمل سے مکمل کینسر تک ٹرانزیشن کا ایک سفر ہے۔ ایک بے قابو سرویکل کینسر کا یہ سفر پاپینوکولاو سرویکل کینسر میں دیکھ چکے تھے۔ (اور اسی کی بنیاد پر پیپ سمئیر ٹیسٹ بنایا گیا تھا)۔ آئرباک سگریٹ نوشوں کے پھیپھڑوں میں کینسر ہو جانے سے بہت پہلے اس کے نمودار ہونے کی علامات دریافت کر چکے تھے۔ بڑی آنت کا کینسر بھی اسی طرح ابتدائی زخم (ایڈونوما) سے کارسینوما تک کئی سٹیج پار کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ووگلسٹائن نے اپنے سٹڈی میں بڑی آنت کے کینسر کو چنا۔ مختلف سٹیج والے مریضوں سے ٹشو سیمپل اکٹھے کئے، جین میں سے چار کا انتخاب کیا اور ہر سٹیج میں ان جین کا مشاہدہ کیا۔
اگر آپ کینسر سے اچھی واقفیت نہیں رکھتے تو توقع رکھیں گے کہ ہر مریض میں میوٹیشن میں فرق ہو گا۔ لیکن ووگلسٹائن کو سیمپل میں بڑا یکسان پیٹرن نظر آیا۔ جین کا فعال یا غیرفعال ہونا رینڈم نہیں تھا۔ ابتدائی سٹیج سے بھرپور کینسر کو بڑی اچھی طرح سے ترتیب میں ہوتے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ توقع سے مختلف تھا۔
چونکہ ووگلسٹائن پہلے سے چار جین منتخب کر چکے تھے، اس لئے وہ کینسر کی طرف ہونے والے اس مارچ میں شامل کل تعداد نہیں جان سکتے تھے۔ (1988 کی ٹیکنالوجی سے یہ تجزیہ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ دو دہائیوں بعد ممکن ہوا)۔ لیکن انہوں نے اہم نکتہ ثابت کیا تھا۔ کہ خاص طریقے سے ہونے والا یہ مارچ موجود تھا۔ اس سے پہلے یہ علم تو تھا کہ کینسر کی پیتھولوجی کئی سٹیپ کا پراسس تھا۔ ووگلسٹائن نے دکھایا کہ اس کا جینیاتی سفر بھی اسی طرح کے کئی سٹیپ میں ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ خوش آئند دریافت تھی۔ 1990 تک اونکوجین اور اینٹی اونکوجین بڑی تعداد میں دریافت ہو چکے تھیں۔ سو جین کی دریافت ایک پریشان کن سوال پیدا کرتی تھی۔ اگر جینوم ایسے جین سے بھرا پڑا ہے۔ اس میں پائی جانی والی جین انتظار کر رہی ہیں کہ ایک سوئچ دبا کر اسے کینسر زدہ کر دیا جائے تو پھر انسانی جسم میں ہر منٹ میں کینسر کیوں نہیں ہو جاتا؟
اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اونکوجین کو فعال ہونے کے لئے میوٹیشن درکار ہے اور میوٹیشن نایاب ایونٹ ہے۔ دوسرا یہ کہ اینٹی اونکوجین کو غیرفعال ہونا ہے اور اس کی دو کاپیاں موجود ہیں۔ ان دونوں کو غیرفعال ہونا ہے۔ یہ اس سے بھی زیادہ نایاب ہے۔ ووگلسٹائن نے اس میں تیسرے جواب کا اضافہ کر دیا۔ کسی ایک جین کا فعال یا غیرفعال ہونا کارسنوجینسس کا صرف ایک قدم ہے۔ کینسر کا مارچ لمبا ہے اور سست ہے۔ اور یہ کئی جین میں ہونے والی کئی میوٹیشن سے بڑھتا ہے۔ جینیاتی لحاظ سے، ایسا نہیں کہ ہمارے خلیے کینسر ہونے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ اس جہنم میں آہستہ آہستہ اور ایک ایک قدم کر کے گھسیٹے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ووگلسٹائن کینسر کی طرف سست مارچ کو ہوتا دیکھ رہے تھے۔ ایک جین کی میوٹیشن سے اگلی۔ جبکہ دوسری طرف کینسر بائیولوجسٹ ان میوٹیشن کا فنکشن دیکھ رہے تھے۔
میوٹیشن دو طرح کی تھیں۔ اونکوجین کا فعال ہو جانا یا اینٹی اونکوجین کا غیرفعال ہو جانا۔ لیکن کینسر کے خلیے صرف تقسیم ہی نہیں ہوتے۔ یہ جسم کے دوسرے حصوں کا رخ کرتے ہیں۔ ٹشو تباہ کرتے ہیں، اعضاء پر حملہ کرتے ہیں اور دور دراز کے علاقوں میں گھر بناتے ہیں۔ اس پوری بیماری کو سمجھنے کے لئے جین میوٹیشن کو اس پیچیدہ، ہمہ جہتی ایبنارمل رویے سے جوڑنا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply