اسلامی سال- کتنا اسلامی ہے ؟۔۔نذر حافی

اسلام میں قرآن مجید اور سنّتِ رسولﷺ ہی کسوٹی ہیں۔ اسلامی امور کو اِسی میزان پر جانچا جاتا ہے۔ جب ہم کسی بھی شئے کے بارے میں اسلامی یا غیر اسلامی کا حکم لگاتے ہیں تو اُس کو اسی ترازو پر تولتے ہیں۔ چنانچہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہجری سال کو بھی اسلامی کہنے کی میزان بھی کتاب و سنّت ہی ہے یا ایسا کثرت استعمال کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت عربوں میں تاریخ جاننے کے چند طریقے معروف تھے۔ وہاں میلادی یا عیسوی سال بھی کم و بیش متعارف تھا، البتہ قمری سال کا رواج زیادہ تھا، جس کے مہینوں کے دنوں کی تعداد کو لوگ چاند دیکھ کر معین کیا کرتے تھے۔ کچھ عرب قریش کی مانند کسی غیر معمولی واقعے سے اپنے دنوں کا حساب لگایا کرتے تھے، جیسا کہ عام الفیل کے اتنے سال بعد یا بعثت کے اتنے سال بعد۔۔۔ ظہورِ اسلام کے بعد تاریخ جاننے کیلئے مسلمانوں میں قریش والا طریقہ ہی معمول رہا۔

پیغمبرِ اسلام ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں اور بعد ازاں خلیفہِ اوّل کے دور میں بھی قریش کے ہاں مروّجہ طریقہ کار کو ہی اپنایا گیا۔ تاریخی اسناد کی بنیاد پر خلیفہِ دوّم کے عہد میں جب دنیا کے تین حصّوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی تو اب اتنی بڑی سلطنت میں خط و کتابت، جزیہ و خراج، تجارتی لین دین اور ٹیکس کو منظم کرنے کیلئے پرانے طریقے سے کسی تاریخ کا تعین کرنا خاصا دشوار ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ خلیفہ دوّم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو ایک سرکاری خط لکھا۔ انہوں نے جوابی خط میں اس مشکل کا ذکر کیا کہ آپ کے خطوط پر تاریخ کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مشکل پیش آتی ہے۔ ظاہر ہے مشکل یہی تھی کہ یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون سا خط پہلے والا ہے اور کون سا بعد والا۔ چنانچہ اس دور میں مسلمانوں کے ہاں پہلی مرتبہ ایک سال مشخص کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔  17 ھجری ؐ کو مسجدِ نبویﷺ میں اس سلسلے کا  ایک مشاورتی اجلاس ہوا۔

اس اجلاس میں بڑی شدّومد کے ساتھ اس امر پر بحث ہوئی۔ مختلف تجاویز متعدد دلائل کے ساتھ سامنے بھی آئیں اور رد بھی کی گئیں۔ کچھ مورّخین کا کہنا ہے کہ ان تجاویز میں سے ایک تجویز حضرت امام علیؑ کی بھی تھی۔ آپ نے مسلمانوں کے حساب کتاب کیلئے ہجرتِ پیغمبر ؐ کو مبداء قرار دینے کا مشورہ دیا۔ تاہم یہ آدھی بات ہے۔ آدھی اس لئے کہ قطعیاتِ تاریخ کے مطابق پیغمبرِ اسلام ﷺ نے مکّے سے مدینے کی طرف 16 ستمبر 622 عیسوی اور یکم ربیع الاوّل 1  ہجری کو سوموار کے دن ہجرت کی۔ پوری بات یہ ہے کہ بظاہر حضرتِ امام علی ؑ کی تجویز کی روشنی میں پیغمبرِ اسلام ؐ کی ہجرت کو مبداء تو مانا گیا، لیکن سال کا آغاز ربیع الاوّل کے بجائے محرّم الحرام سے آغاز کیا گیا۔ اس تبدیلی کی جتنی بھی تاویلیں اور تفسیریں کی جائیں، حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہجرتِ پیغمبرﷺ یکم ربیع الاوّل کو ہوئی اور ہجری سال کی ابتدا دو ماہ گذشتہ یعنی ماہِ محرّم الحرام سے کی گئی۔

اب یہاں پر یہ جان لیجئے کہ آج جنہیں ہم اسلامی مہینے کہتے ہیں، یہ انہی ناموں کے ساتھ اسلام سے پہلے عربوں میں رائج تھے۔ اسلام سے پہلے بھی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہی ہوتا تھا اور اسلام سے پہلے جو مہینے محترم شمار کئے جاتے تھے، آج بھی وہی مہینے محترم ہیں۔ یعنی خلیفہ دوم کے زمانے میں صرف یہ طے کیا گیا کہ مسلمان اپنی تاریخوں کا تعین نبی اکرمﷺ کی ہجرت سے کریں گے۔ باقی  چاند دیکھ کر مہینے کے دنوں کا تعین، مہینوں کی تعداد، مہینوں کی ترتیب، مہینوں کے نام، حُرمت والے مہینے، نیز سال کا ابتدائی مہینہ و آخری مہینہ یہ سب ظہورِ اسلام سے پہلے والا ہی ہے۔ تاریخی شواہد کی روشنی میں ظہورِ اسلام سے پہلے مختلف عرب قبائل اپنی ضرورت کے مطابق مہینوں کو آگے پیچھے بھی کر لیتے تھے، جس سے جنگ و امن نیز تجارت و حج جیسے امور میں خلل پڑتا تھا۔ اس خلل سے نمٹنے کیلئے عربوں نے ظہورِ اسلام سے کوئی دو سو سال پہلے بھی ایک اجلاس میں کچھ مہینے جنگ بندی اور  کچھ عبادت و تجارت کیلئے مشترکہ طور پر مخصوص کئے تھے۔

قرآن مجید نے بھی اس وقت سے جو حرام یعنی حُرمت والے مہینے چلے آرہے تھے، اُنہی کی حُرمت کی تائید کی ہے اور مہینوں کو آگے پیچھے کرنے سے منع کیا ہے۔
ارشادِ پروردگار ہے: إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (36) توبہ – الآية 36 “خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔”

یہاں پر قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ عرب اپنے مفادات کیلئے کبھی حُرمت والے مہینوں کو تبدیل بھی کر دیتے تھے اور اس عمل کو  “نسی” کہا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید نے  ایسا کرنے کو گمراہی قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے سے سختی کے ساتھ روکا ہے۔ قرآن مجید کی آیت ملاحظہ فرمائیے: إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (37) توبہ – الآية 37 “امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرتا ہے، اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام۔ تاکہ حُرمت والے مہینوں کو جو خدا نے مقرر کئے ہیں، گنتی پوری کر لیں اور جو خدا نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے برے اعمال انہیں بھلے دکھائی دیتے ہیں اور خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔”

پس یہان تک یہ ثابت ہوا کہ خلیفہ دوّم  نے  ریاستی نظم و نسق کیلئے عرب دنیا میں پہلے سے رائج مہینوں اور طریقہ کار کو  ہی منتخب کیا ہے۔ چونکہ یہ مہینے ساری اسلامی ریاست میں وقت کی پیمائش کے لئے استعمال ہونے لگے اور محض کثرتِ استعمال کی وجہ سے انہیں اسلامی کہا جانے لگا۔ لہذا یہ واضح ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہجری کیلنڈر یا ہجری جنتری کا آغاز اور رواج، ہجرت کے بہت بعد، پیغمبرِ اسلام ؐ اور خلیفہ اوّل کے بھی بعد یعنی ہجرت کے سترہویں سال سے شروع ہوا۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ ربیع الاوّل کے بجائے محرّم الحرام سے ہجری سال کا آغاز کیوں کیا گیا؟ اس تبدیلی کا کوئی اثر ہوا یا نہیں اور یہ تبدیلی کی جانی چاہیئے تھی یا نہیں!؟ ہم اس بحث کو منجّم اور جنتری شناس لوگوں پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں جنتری، کیلنڈر، علم نجوم اور سال و ماہ کے تعین، سعد و نحس ساعتوں نیز قمر درعقرب اور۔۔۔ کا بھی کچھ علم نہیں، تاہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ عوامُ النّاس ایسی چیزوں پر اپنے عقائد استوار کر لیتے ہیں۔

عبدالکریم شعیب صاحب ایک عوام شناس آدمی تھے۔ یہاں اُن کی جنتری کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہ آج سے کوئی پونے دو سو سال پہلے ہندوستان کے ایک قصبے غازی آباد میں رہتے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے ایک مولوی تھے۔ غربت سے تنگ آکر انہوں نے اس وقت کے برما اور آج کے میانمار کی طرف ہجرت کی۔ وہاں انہوں نے 786 کے نام سے ایک جنتری نکالنی شروع کی۔ 1898ء میں انہوں نے اپنی جنتری میں یہ پیشین گوئی کی کہ سو سال کے بعد برما میں مسلمانوں کا عروج ہوگا۔ اس بات کو ایک صدی بیت گئی اور 1998ء میں اس جنتری کا ایک نسخہ ہندوستان میں ایک بدھ مت بھکشو کے ہاتھ لگا۔ میانمار میں اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہے۔ یہ بطورِ خاص مسلمانوں کے ساتھ عناد رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تقریباً تین سو سال سے مسلمان برما میں تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔ آج بھی برما کی تاریخ میں بودھ مت کے پیروکاروں کا مسلمانوں سے بیر ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔

1998ء میں ایک بودھ بھکشو نے مولوی عبدالکریم شعیب کی جنتری کو اپنے مذموم مقصد کیلئے استعمال کیا۔ اُس نے اس جنتری کی پیشین گوئی کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ 786 صرف ایک جنتری ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے عروج کی ایک جہادی تحریک ہے۔ اُس نے 786 کو ایک جہادی کوڈ سے تعبیر کیا اور 786 کی جہادی تحریک کو کچلنے کیلئے 969 کے کوڈ سے بدھ بھکشووں کی ایک سپاہ بنائی۔ “آشین ویراتو” کو اس *لشکرِ بھکشوی* کا امیر بنایا گیا۔ مسلمان واویلا کرتے رہے اور صفائیاں پیش کرتے رہے، لیکن اُن کی ایک نہیں سُنی گئی۔ میانمار کی فوج نے بھی مذہبی بغض کے باعث 969 کے لشکرِ بھکشوی کی خوب پشت پناہی کی۔ مہاتما بودھ کے پیروکاروں کو از سرِ نو مسلمانوں کے خلاف مسلح کیا گیا۔ یہ وہی مہاتما بودھ ہیں کہ جن کی تعلیمات کے مطابق اگر کسی نے ناحق ایک مکھی یا مچھر کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے، جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔ انہی مہاتما بدھ کے پیروکاروں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسا کر ایسی فضا بنائی گئی کہ چھ کروڑ کی آبادی والے میانمار میں آج صرف چار فیصد مسلمان اس کسمپرسی میں جی رہے ہیں کہ اُنہیں اپنے مُلک کی ہی شہریت حاصل نہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ کرّہ ارض پر بسنے والی سب سے مظلوم اور بے بس مخلوق ہیں۔ آج کی مہذب دنیا میں میانمار وہ واحد ملک ہے، جو مذہبی تعصب کی بنیاد پر اپنے ہی شہریوں کو اپنی ریاست کا باشندہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ وہاں پر  طلوع ہونے والا ہر سورج مسلمانوں کیلئے ایک نئی قیامت کی خبر لے کر طلوع ہوتا ہے۔ اگر میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر لکھا جائے تو اس کیلئے کئی کتابیں لکھنی پڑیں گی۔ ہمارا قصد فقط یہ سمجھانا ہے کہ سادہ دل لوگوں اور شرپسند عناصر کو حقائق سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ ایک جنتری اور کیلنڈر سے بھی اپنا مطلب اور عقیدہ نکال لیتے ہیں۔ پھر اُسی عقیدے کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کیلئے زور لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ لہذا ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ اگر قرآن و سنّت کو معیار مان لیا جائے تو پھر اس اعتبار سے ہمارے ہاں اسلامی سال کا کوئی تصوّر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ مسلمان اپنے قبلے کی مانند  اپنا ایک الگ سال طے کریں اور نہ ہی رسولﷺ کی زندگی میں الگ سے کسی اسلامی سال کی بنیاد رکھی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرانا چاہتے ہیں کہ عوام کو حقائق سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تحقیق نہیں کرتے، کتابیں نہیں چھانٹتے اور مقالہ جات میں مغز ماری نہیں کرتے۔ عوام حقائق کے بجائے بینڈ ویگن تھیوری پر چلتے ہیں۔ جس بات کا ڈھنڈورا پیٹا جائے، لوگ اُسی پر ایمان لے آتے ہیں۔ اگر انہیں یہ یقین دلا دیا جائے کہ فلاں کیلنڈر، سال یا جنتری کا تعلق ہمارے عقیدے سے ہے تو اس کے بعد اُس سال یا کیلنڈر کے انکار سے عقیدے کی توہین کا پہلو تو لوگ خود بخود ہی نکال لیتے ہیں۔ جب عقیدے کی توہین کا پہلو نکل آئے تو پھر جنت جانے کیلئے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ *لہذا آج جب ہم ہجری سال کو اسلامی سال کہتے ہیں تو ہمیں عوامُ النّاس کو یہ بھی اچھی طرح سمجھانا چاہیئے کہ ہجری سال کتنا اسلامی ہے!؟۔*  مبادا کچھ سالوں کے بعد یہ بھی مسلمانوں کے مقدّسات اور عقائد میں شامل ہو جائے اور پھر اس کا انکار بھی توہینِ مذہب، نیز کفر و ارتداد کا سبب ٹھہرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
https://b2n.ir/y49019
https://b2n.ir/f06832
https://b2n.ir/z77119
https://b2n.ir/f06832

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply