طوائف۔۔۔ مریم مجید

دسمبر کی سرد اور کہر آلود رات نے ابھی نصف سفر بھی طے نہیں کیا تھا مگر پالے نے شہر کی سڑکوں پر جو ویرانی پھیلا رکھی تھی وہ نصف شب کا سماں باندھ رہی تھی ۔لوگ باگ اپنے اپنے گھروں میں راحت بخش عافیت کی پناہ میں دبکے ہوئے تھے ۔آوارہ کتے تک بند دکانوں کے تھڑوں پر ٹانگوں میں منہ گھسیڑے سردی کی شدت کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھے۔سڑکوں کے کنارے لگی بتیاں بھی دھند کی لپیٹ میں تھیں اور ان کی روشنیاں دھند کے مرغولوں میں قید خوابناک سی نظر آتی تھیں ۔
ایسے میں ایک سایہ سا سڑک کے پار دھند میں سے نمودار ہوا اور سڑک عبور کرنے کے بعد تیز قدموں سے ایک نیم تاریک تنگ اور ٹیڑھی سی گلی میں مڑ گیا۔۔وہ لاہور کی بدنام زمانہ ٹبی گلی تھی اور وہ سایہ انور تھا۔۔چوہدری انور!! جو اس سرد رات میں اپنے آرام دہ ہوسٹل کا نرم گرم بستر چھوڑ کر اس تاریک اور غلیظ گلی میں زندگی کا وہ سبق پڑھنے آیا تھا جو گورنمنٹ کالج میں پڑھنے والے اس کے بیشتر ہم جماعت ازبر کر چکے تھے اور انور ابھی محض سیاق و سباق سے ہی آشنا ہو پایا تھا ۔
گلی میں جمع شدہ گندے پانی سے بچتا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا انور بیگم جان کے کوٹھے کی طرف چلا جا رہا تھا۔گلی میں کہیں کہیں کسی چوبارے کی بالکونی سے آتی بلب کی زرد روشنی تاریکیوں کے مسافر کو تھوڑا سا راستہ دکھاتی اور چند قدم بعد پھر اندھیرا پاؤں سے آن لپٹتا۔مگر انور کو اندھیرے میں بھی بیگم جان کے کوٹھے کا راستہ یوں ازبر تھا جیسے شہد کی مکھی چھٹے کا راستہ جانتی ہے۔آخری دکان عبور کر کے انور نے خود کو اپنے مطلوبہ کوٹھے کے سامنے پایا اور سیڑھیاں چڑھنے سے قبل اس نے گہری سانس لے کر خود اعتمادی کو بحال کرنے کی کوشش کی ۔سردی کی شدت سے ناک سے پانی بہہ رہا تھا ۔گرم چادر کے کونے سے ناک پونچھ کر اس نے چادر اچھی طرح شانوں کے گرد لپیٹی اور بالوں میں ہاتھ پھیر کر گویا جمانے کی کوشش کی اور تنگ و تاریک زینے کی جانب بڑھ گیا ۔
زینوں کی بناوٹ ایسی تھی کہ دن کی روشنی میں انسان کو احتیاط سے کام لینا پڑے مگر اس تاریک رات میں جانے وہ کون سا بھڑ بھڑ جلتا الاو تھا جو انور کو بڑے ہی سبھاو سے اس کوٹھے کے آخری زینے تک لے آیا تھا۔۔
ڈیوڑھی کا دروازہ کھلا تھا اور پاس ہی جھلنگا سی چارپائی پر ایک پھٹا پرانا لحاف اوڑھے منا دلال سو رہا تھا۔انور نے کنڈی بجائی تو منے کی نیند ٹوٹ گئی” ابے کون ہے اوئے اس ویلے”؟وہ بڑبڑایا۔۔انور جھٹ آگے آیا اور قدرے اونچی آواز میں بولا” منے میں ہوں ۔۔انور” منے نے مندی مندی آنکھوں سے انور کی طرف دیکھا اور کہنیوں کے بل ذرا سا اٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔”اوئے باو!! اس وقت کیوں آیا ہے تو۔؟؟ مجرا ختم ہوئے تو گھنٹہ ہو گیا ہے چل شاباش اب کل آنا” یہ کہہ کر منے نے پھر سے لحاف میں دبکنا چاہا مگر انور جلدی سے آگے بڑھ کر چارپائی کی پٹی پر ٹک گیا۔”نہیں منے!!میں گانا سننے نہیں آیا۔تو۔۔۔تو بیگم جان کو اطلاع کر۔مجھے۔۔”انور اٹکا۔۔”مجھے کام ہے بیگم جان سے ۔”اس نے جلدی سے بات مکمل کی اور نیم روشن کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا مگر منا ٹس سے مس نہ ہوا ۔انور جی ہی جی میں جھنجلا گیا اور شلوار کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک نوٹ برآمد کیا اور اسے منے کی طرف بڑھا دیا۔کچھ دیر تو منا اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھتا رہا پھر نوٹ اچک کر شوکے میں اڑسا۔”چنگا باو!! کوشش کر کے دیکھ لیتا ہوں پر مشکل ہی ہے کہ بیگم تیری عرضی سن لے۔اوئے ٹبی گلی کی سب سے ٹھسے دار نائیکہ ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے۔منا بولتے بولتے اندر کی جانب بڑھ گیا اور انور ایک عجیب سے ہیجان میں مبتلا ہو کر ہاتھوں کی مٹھیاں کھولنے اور بند کرنے لگا۔اسے بیگم جان کے ٹھسے کی پرواہ یوں نہ تھی کہ جیب میں نوٹوں کی وہ گڈی ہنوز ان چھوئی تھی جو کل ہی گاؤں سے اس کے باپ چوہدری ظہور نے اچھو کامے کے ہاتھ بھجوائی تھی۔”بس کسی طرح بیگم جان اسے اندر بلا لے،آگے تو کچھ مشکل نہیں ” انور نے سوچا۔۔”جانے منے نے اتنی دیر کیوں لگا دی؟؟ہونہہ!! لالچی! ! مزید پیسے بٹورنے کے چکر میں جان بوجھ کر دیر کر رہا ہے۔”

انور نے کڑھتے ہوئے خود کلامی کی۔انتظار کا ایک ایک پل اس پر صدیوں سے بھی بھاری گزر رہا تھا۔کچھ دیر بعد جب انور خود اندر جانے کا ارادہ کر رہا تھا،منا توند کھجاتا ہوا برآمد ہوا۔” جا باو! چلا جا۔بڑی مشکل جگایا ہے بیگم کو۔مان ہی نہیں رہی تھی ۔۔بڑی سفارشیں کی ہیں تیری” انور نے مژدہ جان فزا سنا تو منے کی پوری بات سنے بغیر ہی اندر کو لپکا۔منے نے بدمزہ ہو کر اس کی پشت کو گھورا۔اس کا ارادہ تھا کہ مزید دو چار منٹ جھوٹی سچی کوششوں کا ذکر کر کے ایک آدھ نوٹ تو اور نکلوا ہی لے گا مگر انور کی حد سے بڑھی ہوئی عجلت نے اسے یہ موقع نہیں دیا تھا ۔خیر!! جو ہاتھ لگا وہ بھی غنیمت تھا۔اس نے اپنی جھلنگا سی چارپائی پر لیٹ کر پھر سے لحاف اوڑھ لیا اور تھوڑی ہی دیر میں اس کے بے ہنگم خراٹے ڈیوڑھی میں گونج رہے تھے۔
انور نے اندر داخل ہو کر دروازہ بھیڑ دیا ۔یہ وہی مرکزی کمرہ تھا جہاں مجرا ہوتا تھا فرش پر بچھی دریوں پر گاؤ تکئے لگے ہوئے تھے ۔ہارمونیم اور طبلہ وغیرہ اس وقت سمیٹے جا چکے تھے اور فرش پر جا بجا مرجھائے ہوئے پھول، تماش بینوں کی پھینکی ہوئی پان کی پچکاریاں،سگریٹ کے ٹوٹے اور چچوڑی ہوئی ہڈیاں پھیلی تھیں ۔دیواروں پر فلمی اداکاروں کے رنگین پوسٹر چسپاں تھے جنہوں نے دیواروں کی خستہ حالی اور بدرنگی کو مقدور بھر ڈھانپ رکھا تھا ۔
سامنے ہی ایک پرانے سے دیوان پر لحاف اوڑھے بیگم جان لیٹی تھی۔انور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا دیوان کے قریب پہنچا تو وہ اٹھ بیٹھی ۔” آو باو!! بیٹھو ” وہ ایک کنارے پر ٹک گیا۔” منا بتا رہا تھا کہ اکیلے آئے ہو، تم تو ہمیشہ دوستوں کے ساتھ آتے ہو ناں گانا سننے کے لئے، کیا جھگڑا ہو گیا ہے ان سے”؟؟ بیگم جان نے اپنی مخصوص بلغمی آواز میں پوچھا۔انور نے نفی میں سر ہلایا اور کہنے لگا” نہیں نہیں! !ایسی کوئی بات نہیں بس آج اکیلا ہی نکل آیا۔۔اور گانا۔۔” وہ کچھ رکا۔۔” گانا سننے نہیں آیا ۔مجھے۔۔۔مجھے موتیا کے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہے “تیزی سے بات مکمل کر کے اس نے گویا ایک مرحلہ عبور کیا ۔بیگم جان کچھ دیر اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔لڑکپن کی حد سے نکلتا ہوا نوجوان! جس کی ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی ٹھوڑی سے نیچے گردن کی جانب مڑی ہوئی تھی ۔اندرونی جوش و اضطراب سے ہونٹ کچھ نیم وا سے تھے اور چہرہ تمتما رہا تھا۔بیگم جان جو کہ طوائف کی آنکھ رکھتی تھی،وہ جان گئی کہ طلب صحراؤں کو بھی مات دئے ہوئے ہے۔اس نے کسی ماہر جوہری کی مانند اس کی خواہش کی شدت اور پیاس کی طلب کو جانچا،پرکھا اور پھر معنی خیز لہجے میں کہا ” باو!! طوائف کے کوٹھے پر وقت گزاری کا مطلب تو سمجھتا ہے ناں “؟؟ انور نے جلدی سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے نوٹوں کی گڈی نکالی اور گن کر کچھ نوٹ بیگم جان کی طرف بڑھا دئیے ۔اس نے نوٹ پکڑے اور گریبان میں ٹھونس لیئے اور بولی” تو کچھ دیر انتظار کر! میں موتیا کو جگا دوں ۔تھک بھی تو بہت گئی ہے۔آج اکٹھے دو مجرے کئیے ہیں ” لحاف ہٹا کر وہ اپنا بھاری سراپا گھسیٹتی ہوئی اٹھی اور کمرے میں کھلنے والے رہائشی کوٹھڑی کےدروازے میں غائب ہو گئی ۔انور ایک مشکل مرحلہ عبور کر لینے کے بعد اب قدرے پرسکون تھا اور شدت سے موتیا کا منتظر تھا۔آج پہلی بار وہ اپنے ان دوستوں کے بغیر یہاں آیا تھا جو اسے مہینہ بھر قبل اپنے ساتھ گانا سنوانے لائے تھے اور اس کا آنا بھی الگ ہی قصہ تھا۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ پچھلے مہینے جب وہ اور اس کے دیگر ہم جماعت ششماہی امتحانات سے فراغت حاصل کرنے کے بعد گھر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے تو اسی شام اچھو کامے کی آمد ہو گئی۔انور سمجھا کہ ابا جی نے اچھو کامے کو اسے لینے بھیجا ہے اور اس خیال نے اسے جھنجھلا دیا۔'” حد ہے بھئی!!ابا جی بھی کمال کرتے ہیں ۔اب میں کوئی چھنا کاکا ہوں جو اس گاودی کو مجھے لینے بھیج دیا ہے۔” اس نے جل بھن کر سوچا اور اس خیال سے کہ ساجد اور شاہد جو کہ اس کے ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ ہوسٹل کے کمرے میں بھی شراکت دار تھے، کو پتہ چل گیا تو خوب ہی مذاق اڑائیں گے اچھو کامے کو باہر صحن میں ہی روک لیا۔سلام دعا کے بعد اچھو نے اسے چوہدری ظہور کا پیغام دیا کہ گاؤں میں زمینوں کے جھگڑے میں مخالفین کے لڑکے کو گولی لگ گئی ہے ۔لہٰذا انور یہ چھٹیاں احتیاطی طور پر ہوسٹل میں ہی گزارے۔
انور کچھ بدمزہ سا ہو گیا اور چھٹیاں ہوسٹل کے کمرے میں گزار نے کے خیال نے اس پر افسردگی سی طاری کر دی۔
اچھو کو رخصت کر کے وہ کمرے میں داخل ہوا تو ساجد اور شاہد کو جانے کی تیاریوں میں مصروف پایا ۔” لو بھئی! میری چھٹیاں تو لاہور میں ہی گزرنے والی ہیں ” اندر آ کر اس نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا اور چارپائی پر پاؤں پسار کر لیٹ گیا ۔ساجد اور شاہد نے اپنا اپنا کام ادھورا چھوڑا اور اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے “کیوں یار!!تو تو خاصا پرجوش ہو رہا تھا صبح سے ۔۔اب یکدم کیا ہو گیا؟؟” ساجد نے اچنبھے سے پوچھا شاہد بھی استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ انور نے گہرا سانس لیتے ہوئے انہیں مسئلے سے آگاہ کیا تو وہ دونوں بھی سوچ میں پڑ گئے ۔دوست کو تنہا چھوڑ کر جانے کو ان کا دل بھی نہیں مان رہا تھا۔سو طے پایا کہ وہ دونوں بھی گھر نہیں جائیں گے اور جب کچھ دنوں تک انور کے گاؤں میں معاملات ٹھنڈے پڑ جائیں گے تو تینوں مل کر باقی چھٹیاں انور کے گاؤں میں گزاریں گے۔
دوسرے دن جب تقریباً سارا ہوسٹل خالی ہو چکا تھا ،انہوں نے پہلے تو خوب نیند پوری کی اور پھر شام کو فلم دیکھنے چلے گئے۔
فلم خاصی بالغوں والی تھی اور کچھ مناظر تو ایسے تھے کہ انور کو سردی میں بھی پسینہ آ گیا۔اس نے چور نظروں سے شاہد اور ساجد کو دیکھا مگر وہ بالکل معمول کے انداز میں فلم دیکھ رہے تھے ۔فلم ختم ہوئی تو تینوں لڑکے پیدل ہی ہوسٹل کی طرف چل پڑے ۔ساجد اور شاہد عامیانہ انداز میں فلم پر تبصرہ کر رہے تھے لیکن انور کچھ چپ چپ سا،خاموشی سے ان کے ہمراہ چل رہا تھا ۔اس کی یہ خاموشی ساجد نے جلد ہی محسوس کر لی اور اس نے انور کے کندھے پر ہاتھ مار کر اسے متوجہ کیا “ارے یار ۔۔تم بھی تو کچھ اپنی رائے کا اظہار کرو ۔۔فلم تو ہم تینوں نے دیکھی ہے مگر رائے تو بس میں اور شاہد ہی دے رہے ہیں ۔کیسی لگی فلم۔۔؟؟” اس نے استفسار کیا تو انور کسی خیال سے ابھرا”فلم ۔۔ہاں اچھی تھی۔۔مگر۔۔”انور نے بات ادھوری چھوڑ دی۔”مگر کیا۔۔۔”؟؟شاہد اور ساجد بیک وقت بولے۔۔”بس کچھ زیادہ ہی بے باک تھی ۔”انور نے بات مکمل کی تو شاہد اور ساجد ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس دئیے “انور یار ۔۔۔بس کر دے بھائی۔۔۔چھ مہینے ہو گئے ہیں تجھے لاہور آئے،ابھی بھی تو پینڈو ہی ہے۔۔او بھائی۔۔!!یہ چک تین سو بارہ نہیں ہے ۔۔لاہور ہے لاہور ۔۔یہاں تو “زندہ فلمیں “چلتی ہیں اور تجھے سینما والی فلم نے ہی گونگا کر دیا ہے۔۔۔ہاہاہاہا” شاہد نے واضح طور پر انور کا مذاق اڑایا۔۔

انور کے کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں اور وہ خجالت کے مارے کوئی جواب نہ دے سکا۔اس وقت وہ اپنے آپ کو بہت احمق،گاودی اور نکو محسوس کر رہا تھا ۔حالانکہ وہ ایسا نا سمجھ بھی نہیں تھا اور اپنے گاؤں کی وہ جمعراتیں اسے بخوبی یاد تھیں جب اس کا ابا چوہدری ظہور خصاب لگا کر اور مونچھیں ترشوا کر گاؤں کے باہر والے اپنے ڈیرے پر ایک دو راتوں کے لئے جایا کرتا تھا اور اس کی چوہدرائن اماں کی آنکھیں اگلے چند دنوں تک سرخ،گیلی اور سرمے سے محروم رہا کرتی تھیں اور وہ بات بے بات مزارعوں کی عورتوں کو لتاڑا کرتی تھی ۔جیسے جیسے انور بڑا ہوتا گیا اس کو جمعراتوں اور اماں کی گیلی آنکھوں کے مابین تعلق کا ادراک ہوتا گیا۔شروع شروع میں اسے ابے پر غصہ بھی آتا تھا اور اماں سے ہمدردی بھی محسوس ہوتی مگر پھر رفتہ رفتہ اس کے ذہن نے اسے زندگی کے معمولات کی طرح قبول کر لیا۔ ذاتی طور پر انور ابھی ان خرافات سے دور ہی تھا اور آج اسی بناء پر اسے اپنے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑ رہی تھی۔۔
ساجد اور شاہد نے انور کی طویل خاموشی کو اس کی ناراضگی پر محمول کیا اور اپنی بات کا اثر زائل کرنے کے لیے انہوں نے انور سے چہلیں شروع کر دیں ۔”اچھا اچھا اب بس کرو یار۔۔”ساجد نے مصنوعی خفگی سے شاہد کو ڈانٹا اور کہنے لگا” انور۔۔اس کی باتوں کا برا نہ منانا۔۔بغیر سوچے سمجھے بولنے کی بیماری پرانی ہے اس کی۔۔”انور پھیکا سا مسکرا کر رہ گیا۔”ارے نہیں یار۔۔دوستوں کی باتوں کا کیا برا ماننا” اس نے اوپری دل سے کہا تو دونوں مسکرا دئیے۔”مگر ایک بات ہے انور۔۔۔”ساجد نے پر سوچ انداز میں کہا “تمہارے اندر کا دیہاتی ابھی بھی شہر کو قبول نہیں کر پایا۔۔اگر تم کہو تو ہم تمہارا یہ اوپرا پن ختم کرنے کی کوشش کریں؟؟ میرے پاس ایک ترکیب ہے” ۔”کیسی ترکیب؟ ؟” انور نے پوچھا تو ساجد نے رازدارانہ انداز میں اس کے قریب ہو کر کہا” کل ہم بیگم جان کے کوٹھے پر تمہیں لے چلیں گے۔۔مجرا وغیرہ دیکھیں گے۔اس کے کوٹھے پر تو بڑے بڑے لوگ آتے ہیں موتیا کا مجرا دیکھنے۔۔بڑے غضب کی طوائف ہے بھئی۔۔” شاہد نے بھی اس پروگرام کی پر زور تائید کی اور انور جو ابھی ابھی اپنے دیہاتی ہونے پر شرمندگی اٹھا چکا تھا، نے اس خیال سے آمادگی ظاہر کر دی کہ انکار پر کہیں اسے دوبارہ سے پینڈو ہونے کے ساتھ ساتھ بزدلی کا طعنہ بھی نہ مل جائے۔۔انور کا عندیہ پا کر اس پروگرام پر مہر ثبت ہو گئی اور ہوسٹل کے کمرے میں پہنچنے تک تینوں لڑکے اگلے دن کا لائحہ عمل طے کر چکے تھے ۔
رات بھر انور کی آنکھوں کو فلم کے مناظر بھاپ کی طرح دھندلاتے رہے اور اگلی شام کو جب وہ ٹبی گلی کی طرف روانہ ہوئے تو انور کی کیفیات کچھ عجیب سی تھیں ۔پہلی بار کسی ایسی جگہ جانے میں جو سنسنی آمیز تجسس ہوتا ہے انور بھی اس وقت وہی محسوس کر رہا تھا ۔اپنے معمول سے ہٹ کر اس نے اس شام دوبارہ غسل کیا تھا اور کپڑے بھی بدل لئے تھے۔
گلی کا مخصوص بالا خانوں والا ماحول اس کے لئے انجان تھا اور وہ اپنے آپ کو قدرے بے آرام محسوس کر رہا تھا ۔
بیگم جان کے کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انور کو علم نہیں تھا کہ وہ واپسی کے سب دروازے اپنے ہاتھوں سے بند کر آیا ہے اور موتیا کی صورت میں اس پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔کوٹھے پر پہنچ کر انور نے ادائیگی کی اور وہ تینوں جا کر مجرے والے کمرے میں بیٹھ رہے کمرے میں خاصی تعداد میں تماش بینوں نے ہلڑ مچا رکھا تھا۔
سازندوں نے اپنے اپنے طبلے اور ہارمونیم سر میں کرنا شروع کئے تو تماش بینوں کی ہاؤ ہو میں بھی یکدم اضافہ ہو گیا اور انہوں نے یک زبان ہو کر “موتیا۔۔موتیا” کے نعرے لگانے شروع کر دئیے ۔بیگم جان گہری سبز ساڑھی میں اپنا بھاری جثہ لپیٹے دیوان پر بیٹھی تماش بینوں کی بے چینی سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔آخر کار مزید گھنٹے بھر کے صبر آزما انتظار کے بعد پردے ہلے اور گھنگھرووں کی مدھر چھن چھن کے ساتھ موتیا جلوہ افروز ہوئی ۔پہلے نصف دائرے میں گھوم کر وہ سامنے آئی جھک کر اور ہاتھ ماتھے تک لے جا کر ایک انداز سے آداب کیا اور پھر جیسے ہی طبلے پر تھاپ پڑی دیکھنے والوں کی جان گویا آنکھوں میں سمٹ آئی ۔موتیا کے قدم گویا پانی پر مچلتی بوندوں کی مانند تھرک رہے تھے ۔رقص کو اگر اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے تو موتیا پورا دیوان تھی ۔انور کو ساجد اور شاہد کی تقلید میں داد دینے کا بھی ہوش نہیں رہا تھا ۔موتیا نامی بجلی اس کے عقل و ہوش کے سب خرمن جلا کر راکھ کر گئی تھی
موتیا اپنے نام کی مکمل تفسیر تھی ۔ہلکی سنہری مائل سفید رنگت، گہری کالی آنکھیں اور رقص کی بدولت ترشا ہوا بدن جو دیکھنے والوں کو زاویوں اور پیچ و خم کے گورکھ دھندوں میں ایسے جکڑ لیتا تھا جیسے مکڑی کے ریشمی لچھوں سے جال میں مکھی جا پھنسے اور جان گنوائے بنا باہر آنے کی کوئی سبیل نہ رہے ۔انور کی محویت کا یہ عالم تھا کہ اسے مجرا ختم ہونے کا بھی علم نہ ہو سکا ۔وہ تو جب موتیا نے آخری بار جھک کر سلام کیا اور تماش بینوں کی “واہ واہ موتیا ۔۔۔لوٹ لیا موتیا ” کی صداؤں نے اس کے کانوں میں چھید کئیے تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ساجد اور شاہد بھی اٹھے اور تینوں دوست کوٹھے کی سیڑھیوں اتر کر گلی میں آ گئے ۔”ہاں بھئی! !کیسی لگی پھر “زندہ فلم” ساجد نے معنی خیزی سے پوچھا تو شاہد بھی ہنس پڑا ۔انور نے آنکھیں بند کر کے موتیا کا محو رقص سراپا ذہن کے پردے پر تازہ کیا اور بولا” یارو یہ فلم تو دن اور رات کیا،پوری زندگی آنکھیں جھپکے بغیر دیکھی جا سکتی ہے “۔”واہ بھئی تو تو بڑا شاعر ہو گیا ایک ہی بار میں “ساجد نے ہنستے ہوئے کہا تو انور بھی مسکرا کر خاموش ہو گیا ۔اصل واردات کو تو وہ فی الوقت خود سے بھی چھپانا چاہ رہا تھا ۔ساجد اور شاہد کو تو کیا خبر ہوتی ،انور کو خود پر ہوئے ستم کی شدت کا خود بھی اندازہ نہیں تھا۔
ٹبی گلی عبور کرتے کرتے انور کے اندر سے لڑکپن تحلیل ہو چکا تھا۔اب وہ ایک نوجوان مرد کی طرح بڑے ہی اعتماد کے ساتھ،سینہ قدرے چوڑا کیے چل رہا تھا۔شاہد اور ساجد سے ہنسی مذاق کا سلسلہ بھی چل رہا تھا ۔جب وہ ہوسٹل واپس پہنچے تو چوکیدار نے اتنی دیر ہو جانے پر انہیں سخت سست سنائیں مگر آج انور کو وہ صلواتیں بھی بری نہیں لگ رہی تھیں ۔خاموشی سے مسکرا کر اس نے جرمانے کی رقم چوکیدار کے حوالے کی اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
بستر پر لیٹ کر وہ آج کی اس شام کے بارے میں سوچنے لگا اور تصور میں موتیا کا سراپا لہرانے لگا۔ایک انجان سنسنی اس کے جسم میں ہلکی برقی رو کی طرح دوڑ رہی تھی اور وہ اپنی ان کیفیات کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھا۔انہیں خیالات میں ڈوبتے ابھرتے اسے نیند نے آ لیا۔
ابھی دو چار روز بھی نہ گزرے تھے کہ انور نے اپنے دوستوں سے ایک بار پھر مجرا دیکھنے کی فرمائش کر دی۔ساجد اور شاہد ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔”دیکھ انور۔۔۔ایک آدھ بار کی حد تک تو ٹھیک ہے۔ مگر یہ روز روز کے پھیرے اچھے نہیں ہیں ۔۔تو نہیں جانتا یہ طوائفیں بندے کو نشے کی طرح عادی کر لیتی ہیں ۔اور موتیا ۔اس کے تو عاشقوں میں بڑے بڑے تگڑے لوگ ہیں ۔ آدھا لاہور اس کی نتھ اتروائی کرنے امنڈ پڑا تھا۔”۔۔ساجد نے نصیحت کرتے ہوئے انور کو اس کے ارادوں سے باز رکھنا چاہا مگر وہ مصمم رہا ،،اور ایک بار پھر وہ بیگم جان کے چوبارے کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ۔
وہ ساری چھٹیاں اس نے تقریبا ًموتیا کا مجرا دیکھنے میں گنوا دیں ۔اس دوران دو بار ابا کا پیغام بھی ملا کہ حالات ٹھیک ہو گئے ہیں اس لیئے وہ کچھ دن گھر بھی گزار لے مگر انور نے مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال دیا ۔چھٹیاں ختم ہوئیں اور کالج کی مصروفیات شروع ہوئیں تو ساجد اور شاہد نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ انور بھی معمولات کی طرف لوٹ آئے گا مگر یہ ان کی خام خیالی ہی تھی۔انور کو کتابوں استادوں یہاں تک کہ گورنمنٹ کالج کے درودیوار پر بھی موتیا کی رقصنده پرچھائیاں نظر آتیں ۔حساب کی جماعت میں استاد کسی زاویے کو سمجھا رہا ہوتا اور انور کا ذہن موتیا کے عمود پر خطوط گرانے لگتا۔کیمیا کے لیکچر موتیا کی رنگت کو سفید سونے سے تشبیہ دیتے گزر جاتے اور تجربہ گاہ میں سارا وقت وہ اس نسخہ کیمیا کی کھوج میں رہتا جس کی مدد سے وہ اپنا وجود موتیا میں تحلیل کر سکے۔
دو چار ہفتوں میں ہی انور کا وجود آتش گیر مادے میں بدل گیا۔اسے لگتا تھا جیسے وہ کھلی ہوا میں رکھے سوڈیم کی طرح ہے جو بھک سے جل جانے کے لئے بس ہوا کے ایک جھونکے کے انتظار میں ہے۔اور سب سے بڑی مصیبت تو یہ تھی کہ وہ اپنے جذبات کو کوئی سمت دینے سے قاصر تھا۔ساجد اور شاہد نے اسے سمجھانے کی بہت سی ناکام کوششیں کرنے کے بعد اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور انور کو چنداں پروا نہ تھی۔روپے پیسے کی کمی یوں بھی نہیں تھی اور وہ دونوں ہاتھوں سے بیگم جان کے کوٹھے پر دھن لٹا رہا تھا۔
شاہد نے ایک آخری کوشش کے طور پر اسے سمجھانے کا ارادہ کیا اور ایک دن کالج کے کھیل کے میدان میں اسے جا لیا۔انور دیوار سے ٹیک لگائے خلاؤں میں جانے کیا تلاش رہا تھا۔۔”کیا بات ہے انور۔۔طبعیت تو ٹھیک ہے ۔۔۔ایسے کیوں کھڑے ہو؟ ؟”شاہد نے پوچھا تو انور نے ایک بیزار نگاہ اس پر ڈالی” ٹھیک ہوں ۔۔۔مجھے کیا ہونا ہے۔۔” انور نے روکھا سا جواب دیا۔۔کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے اور پھر شاہد نے ہمت کر کے کہنا شروع کیا “انور۔ تم اپنے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہے۔۔یار ۔وقت گزاری ایک الگ شے ہے مگر اس طرح اسے جان کا روگ بنا لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔۔ذرا خود کو دیکھو۔۔۔کیا تم وہی انور ہو؟؟؟زرد رنگت اور اندر دھنسی آنکھیں ۔۔خدارا۔۔۔اس چکر سے اب نکل آو۔۔”دوست کا ہمدرد لہجہ پا کر انور پہ چڑھا بیزاری کا خول تھوڑا سا چٹخ گیا۔اس نے ہاتھوں کی انگلیوں کی قینچی سی بنائی اور سر جھکا کر کہنے لگا۔”شاہد۔۔۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔۔خدا کی قسم۔۔۔میں اس سے محبت نہیں کرتا۔۔۔مگر۔۔مگر جو آتش فشاں مجھے اندر سے بھسم کر رہا ہے۔۔۔وہ کیا ہے۔۔؟؟؟میں نہیں جانتا ۔۔”اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ شاہد نے اطمینان کی سانس لی۔۔اسے انور کا مسئلہ سمجھ آ گیا تھا۔۔

“انور۔۔تمہیں پتا ہے ناں ہم تجربہ گاہ میں جب کوئی تجربہ کرتے ہیں تو مینڈک یا چوہے کو کاٹ پیٹ کر اس کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر اس نیم مردہ جانور کو کچرے میں پھینک کر ہاتھ دھو کر تجربہ گاہ سے باہر آ جاتے ہیں “۔۔انور نے اس بے محل بات پر گھور کر اسے دیکھا۔۔”ہاں مگر اس بات کا یہاں کیا ذکر”؟انور نے استفسار کیا تو شاہد بزرگانہ انداز میں مسکرا دیا۔”زندگی کی تجربہ گاہ میں طوائف وہ عورت ہے جو صرف مشاہدے،تجربے اور ہاتھ دھو کر باہر نکل آنے تک محدود رہتی ہے ” شاہد کے ان الفاظ نے کسی جادوئی اسم کی طرح انور کے دل و دماغ کی سب الجھنوں کو یکدم سلجھا دیااور وہ بے حد ہلکا پھلکا ہو کر شاہد کے ہمراہ کالج کے گیٹ کی طرف چل دیا۔اس نے مشاہدہ تو کر لیا تھا اور اب تجربے کے بعد ہاتھ دھو کر باہر نکل آنے کے لیے اس سرد اور تاریک رات میں بیگم جان کے کوٹھے پر بیٹھا موتیا کا منتظر تھا۔دروازے پر کھس کھس چپلیں گھسیٹنے کی آواز اسے ماضی سے حال میں کھنچ لائی اور اس نے چونک کر اندر داخل ہوتی بیگم جان کو دیکھا۔” جا باؤ ۔چلا جا موتیا اندر ہی ہے” اس نے دوبارہ اپنے لحاف میں روپوش ہوتے ہوئے کہا تو انور کھڑا ہو گیا ۔کمرے کا دروازہ نیم کھلا ہوا تھا۔وہ اندر داخل ہوا اور اپنے پیچھے دروازہ بھیڑ کر مڑا۔کمرہ اپنی خستگی کی منہ بولتی تصویر تھا۔دیواروں پر تین اطراف میں کیلیں گاڑ کر شوخ اور ریشمی لباسوں کو لٹکانے کا بندوبست کیا گیا تھا ۔فرش پر ایک ادھڑی ہوئی سرخ دری بچھی تھی اور مشرق دیوار کے ساتھ لکڑی کا ایک پرانا پلنگ رکھا تھا جس پر موتیا اس کی منتظر بیٹھی تھی ۔کمرے میں شاید کوئی کھڑکی نہیں تھی تو اسی لئے سستے قسم کی عطر کی خوشبو کے ساتھ سیلن کی مہک بھی کمرے کی فضا میں رچی بسی محسوس ہو رہی تھی ۔انور کو اندر آتے دیکھ کر موتیا اٹھ کھڑی ہوئی اور مسکرا کر اس کا استقبال کیا ۔”آداب انور جی ” اس نے ایک ادا سے لوچدار آواز میں کہا تو انور کے دل کی دھڑکن بے ترتیب سی ہو گئی ۔اس نے کوشش سے خود پہ قابو پایا اور جواب دیتے ہوئے بستر کی طرف بڑھ گیا ۔”کہیے! !کیسے مزاج ہیں بندہ پرور”؟؟ موتیا نے پوچھا تو انور کچھ پل اس کے خمدار ہونٹوں کے کٹاؤ میں الجھ سا گیا پھر خود کو اس وارفتگی پر جی ہی جی میں ڈپٹا اور اندر کی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہنے لگا۔” مزاج تو آپ کی دید سے بہتر ہو گیا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلے تو جان لبوں پر آئی ہی سمجھیں ” موتیا کھلکھلا کر ہنس پڑی اور انور کا ہاتھ تھام کر اسے پلنگ پر بٹھایا اور خود اس کے پاؤں کے قریب بیٹھ کر جوتے اتارنے لگی۔”ارے ارے۔۔!!یہ کیا کر رہی ہیں آپ۔۔۔خدارا چھوڑیئے! ! ” اس نے بوکھلا کر اسے روکنا چاہا مگر موتیا نے اپنا کام جاری رکھا۔”ارے اتارنے دیجئے ناں انور جی!!” اس نے ٹھنک کر کہا اور جوتے اتار کر پلنگ کے نیچے سرکا دئیے ۔پھر وہ اپنا نرم سفید کبوتری سا ہاتھ انور کے پیروں پر پھیرنے لگی تو ایک انوکھے سرور سے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔اس کے اندر بھڑکتے شعلے اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے اور وہ اب جلد از جلد اس کھولن کو اپنے وجود سے نکال پھینکنا چاہتا تھا ۔
بستر تقریباً صاف ہی تھا مگر تکیہ۔۔۔انور کو اس میلے۔۔تیل سے چپڑے اور غلیظ تکئے سے کراہت محسوس ہوئی تو اس نے اپنی گرم چادر کو دو تین بار تہہ کر کے اسے تکیے پر لپیٹ دیا۔۔موتیا مسکرا کر کھڑی ہوئی اور کمرے کی بتی بجھا دی۔۔
تجربے کے شوقین انور کو اندھیرے میں موتیا نے زندگی کا سبق پڑھانا شروع کیا۔انور پر ایک قدرتی ہیجان کے ساتھ ساتھ ناواقفیت اور کسی چیز کو پہلی بار آزمانے میں جو اناڑی پن ہوتا ہے،اسکی جھجک بھی سوار تھی۔۔خیر۔۔شروع شروع میں تو اسے بہت عجیب سا لگا۔۔اسے وہ دن یاد آ گیا جب بالغ ہونے پر پہلی بار ابے نے نائی کو گھر بلا کر اس کی بغلوں کے بال استرے سے صاف کروائے تھے۔نائی کا استرا جب اس کی بغل کو چھوتا تو دھات کا لمس اس میں ایک کپکپا دینے والا لذت آمیز خوف بھرتا تھا۔۔مگر نائی کی مہارت نے اس کے بدن پر خراش بھی نہ آنے دی تھی۔۔اور اس اندھیرے میں بھی موتیا جیسی ماہر نے معاملہ سنبھال لیا اور انور نامعلوم کے اسرار سے آگاہ ہوتا گیا۔۔
صبح جانے کس وقت اس کی آنکھ کھلی۔پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کس جگہ ہے اور یہ اجنبی بستر کس کا ہے۔۔پھر پہلو میں سوئی موتیا پر نظر پڑی تو گزری رات پوری جزئیات کے ساتھ اس کے ذہن کے پردے پر لہرا گئی۔اس نے ایک جھرجھری سی لی اور موتیا کو دیکھنے لگا۔اس کے بال تکیے پر پھیلے ہوئے تھے اور کمر کا خم بہت واضح تھا۔۔عین اسی لمحے انور کو موتیا سے عجیب گھن آنے لگی۔۔وہ تو کسی کے جھوٹے گلاس میں پانی بھی نہیں پیتا تھا۔۔اس نے یہ کیوں کیا۔۔؟؟”جانے کس کس کی جھوٹن میں منہ مار لیا میں نے۔۔”وہ اپنے آپ کو کو سنے لگا اور اسے لگنے لگا جیسے اس نے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ایک ناچنے والی عورت پر نچھاور کر دیا ہے۔۔خواہش کا لبادہ جب اترا تو اندر سے نکلنے والی مورت کیڑوں سے اٹی ہوئی بدبودار لاش تھی ۔انور کے دماغ میں جیسے کوئی کنکھجورا کلبلانے لگا۔۔پھر جانے کیسے اس کے منہ سے نکلا “ہونہہ! ! طوائف ” اور وہ کنکھجورا اس کے دماغ سے نکل کر بستر پر رینگنے لگا۔انور کی طبعیت یوں سہل ہو گئی جیسے قے کرنے کے بعد آدمی ہلکا ہو جاتا ہے۔۔اس نے چادر کی بکل ماری اور کوٹھے کی سیڑھیاں اترنے لگا۔۔

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply