زندگی۔۔(نظم)۔۔ رابعہ احسن

زندگی
‎تو کبھی ایسی چپ تو نہ تھی
تھی تو بیزار سی ، دل کے اندر پڑےصاف انکار سی
، خود گراں بار سی
ہاں مگر جستجو کے دریچوں میں گم
بہتے پانی کی لہروں پہ آنچل سے لہریں بناتی ہوئی
لہلہاتے ہوئے سبززاروں میں خواہش جگاتی ہوئی
شبنمی اوس پہ پاؤں دھر کے جھکی
دائمی امن کی دھن بجاتی ہوئی
میرے نغموں سے کس نے چرایا تجھے
زندگی میرے دامن سے کس نے بجھایا تجھے
تو تو کافی کے مگ میں دھویں کی طرح جھومتی
برف زاروں میں سورج کی کرنوں سی تو
اس ادا سے چمکتی کہ برسوں کے ماتم زدہ جسم میں
اک پگھلتی سی آہٹ میں خاموشیوں کی سزائیں لئے
زندگی
تجھکو دیکھا ہے خود پہ وفا کی ردائیں لئے
خواب قبروں میں تڑپتے ہیں تعبیر سے بس جفائیں لئے
یہ جو ہم تھے نا برباد، ماں باپ کی سب دعائیں لئے
دشت وحشت میں آنسو پگھلتے نہیں
زندگی ساتھ چلتے تو ہیں وہ مگر ساتھ رکتے نہیں
کیسے پتھر مزاجوں سے ملتے رہے عمر بھر جو پگھلتے نہیں
ہم سے ناکام جب خواہشوں کو بڑھے پاؤں چلتے نہیں
ہم کو راہوں کی دوری میں بھٹکاکے تو
کچھ شرارت تو کرتی رہی زندگی
چند خوابوں کے بدلے جو نیندوں سے ہمکو ڈرایا گیا
کیوں ہتھیلی پہ قسمت لکھی، پتھروں سے ملایا گیا
ذات کی بدنصیبی میں دن رات ہمکو جلایا گیا
اک صلیب شب ہجر دل پہ دھری سانس بھرتی رہی
مختصر کس قدر تھی مگر پھر بھی صدیوں سے ہر پل تجھے
اپنی آنکھوں میں بھر کے بھٹکتے رہے
ہم کو اغیار یہ درس دیتے رہے
زندگی سے بڑا کوئی دشمن نہیں
اپنے ہاتھوں سے جس نے دھکیلا ہمیں
وحشتوں سے بھری وادی موت میں

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply