• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی بیماری اور دنیا کو درپیش خطرات۔۔۔ اسد عباس

ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی بیماری اور دنیا کو درپیش خطرات۔۔۔ اسد عباس

گذشتہ دنوں یلے سکول آف میڈیسن میں ایک کانفرنس کے دوران میں امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر جان گارٹنر اور چند دیگر ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ شدید نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں اور ان کی یہ بیماری ملک کے لئے خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر جان گارٹنر کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ paranoid and delusional ہیں۔ پیرانوائڈ شخص ایسا شخص ہوتا ہے، جو سخت تشویش کا شکار اور پریشان ہوتا ہے، کیونکہ اس کے خیال میں لوگ اسے پسند نہیں کرتے اور اسے اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے نقصان پہنچائیں گے۔ Delusional یا توہماتی بیماری کا شکار شخص وہم کی دنیا میں رہتا ہے، اس کے سامنے حقائق آبھی جائیں تو وہ انھیں قبول نہیں کرتا۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر جان گارٹنر جو اس وقت بھی بحیثیت ماہر نفسیات اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، کے مطابق ان حقائق سے امریکی قوم کو آگاہ کرنا میری اخلاقی ذمہ داری تھی۔ دیگر بھی بہت سے ماہرین نفسیات نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی حالت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یلے یونیورسٹی کے ڈاکٹر بینڈے لی کا کہنا ہے کہ جیسا کہ بعض ماہرین نفسیات نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی حالت پر اظہار کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ(انکا اس عہدے پر موجود رہنا) کمرے میں ہاتھی رکھنے جیسی کیفیت ہے۔ جو واقعاً انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ ان کے مطابق بہت جلد عوام ان باتوں کا مشاہدہ کریں گے، جو ماہرین نفسیات بتا رہے ہیں۔ نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز گلیگان نے تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے امریکی تاریخ کے بہت سے خطرناک مجرموں قاتلوں اور زانیوں کو دیکھا ہے، تاہم میں اس بات کا قائل ہوچکا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں خطرے کو ایک میل دور سے بھانپ سکتا ہوں۔ کسی خطرے کو بھانپنے کے لئے مہارت درکار ہے یا میری طرح پچاس برس کا مطالعہ۔

ڈاکٹر گارٹنر نے اس سال کی ابتداء میں ایک آن لائن پٹیشن بھی دائر کی۔ جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی مریض ہیں، لہذا انہیں وائٹ ہاوس میں نہیں رہنا چاہیے۔ اس پٹیشن پر اب تک اکتالیس ہزار ذہنی امراض کے ماہرین دستخط کرچکے ہیں۔ اس پٹیشن کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم ذہنی امراض کے ماہرین جنھوں نے اس پٹیشن پر دستخط کئے، اپنی ماہرانہ تشخیص کی بنیاد پر یقین رکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ شدید ذہنی بیماری کا شکار ہیں، جس کے سبب نفسیاتی طور پر وہ اس قابل نہیں کہ اپنی صدر امریکہ ہونے کی ذمہ داریوں کو بااحسن انجام دے سکیں۔ پٹیشن میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ انہیں آئین کی پچیسویں ترمیم کے آرٹیکل چار کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا جائے۔ بعض سیاستدانوں اور نفسیاتی ادارے کے افسران نے ڈاکٹروں کی اس تشخیص اور پٹیشن کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی ڈاکٹر کسی مریض کو چیک کئے بغیر اس کے بارے رائے نہیں دے سکتا، جبکہ ڈاکٹر گارٹنر اور دیگر ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ ڈاکٹر مریض کا انٹرویو کرے، کیونکہ تحقیقی شماریات بتاتی ہیں کہ انٹرویو کرنا مرض کی تشخیص کے حوالے سے کوئی زیادہ قابل وثوق طریقہ نہیں ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ نیویارک کے ماہرین نفسیات نے سیاہ لباس پہن کر صدر ٹرمپ کے خلاف وائٹ ہاوس کے سامنے مظاہرہ بھی کیا۔

اگر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی بیانات، ٹویٹس اور سیاسی اقدامات کو دیکھا جائے تو ان ماہرین نفسیات کی باتیں حقیقت نظر آتی ہے۔ حیرت یہ ہوتی تھی کہ پوری امریکی قوم کو یہ نظر نہ آیا کہ ہم ایک ذہنی مریض کو ملک کا اہم ترین عہدہ دینے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے آج کل جمہور کی رائے کو عصمت کا درجہ دیا جاتا ہے، یعنی وہ تو نہ غلط ہوسکتے ہیں، نہ کرسکتے ہیں، تاہم امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے چناؤ سے اس مخمصے پر سے بھی پردہ اٹھ گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک ذہین صدر ہیں اور ان کی ذہانت اپنے سیکرٹری خارجہ ٹیلریسن سے زیادہ ہے۔ ٹیلریسن کو وہ اس بات کا اظہار متعدد بار کرچکے ہیں۔ سی آئی اے اور ایف بی آئی کے سربراہوں کو اچانک سے معزول کرنا بھی اسی ذہانت یا ذہنی مرض کی مثالیں ہیں۔ ادارے کے کارکنان کہتے ہیں کہ ہمارا سربراہ وطن اور ادارے کا مخلص تھا اور صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ نہیں وہ اس عہدے کا اہل نہیں تھا۔ گذشتہ دنوں امریکہ میں ہونے والے ایک نسلی فساد میں سارا امریکہ ایک جانب تھا اور صدر ٹرمپ اور دیگر چند نسلی امتیاز پر یقین رکھنے والے افراد ایک جانب۔ صدر ٹرمپ نے مرنے اور مارنے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا، جس سے امریکہ بھر میں بے چینی کی لہر پیدا ہوگئی۔ بعد میں عسکری اداروں کے تمام سربراہوں کو معاملے کو سنبھالنا پڑا اور امریکیوں کو بتانا پڑا کہ ہم اپنے اداروں میں نسلی برتری پر یقین نہیں رکھتے اور صدر کے بیان کی توثیق نہیں کرتے۔ جب قطر پر سعودیہ نے پابندی لگائی تو صدر ٹرمپ نے بغیر سوچے سمجھے قطر کو بے لاگ سنانی شروع کر دیں، ایسا لگتا تھا کہ مسلم دنیا میں دہشت گردی کا اصل مرکز قطر ہی ہے۔ قطر جہاں امریکہ کا بڑا بحری اڈہ ہے، نے ان بیانات کے بارے متعلقہ اداروں سے شکایت کی، جس پر ان اداروں کے سربراہان کی جانب سے بیانات آنا شروع ہوئے اور امریکیوں کو پیدا شدہ صورتحال کو سنبھالنا پڑا۔

پھر شمالی کوریا ٹرمپ کے زیر عتاب آیا، ہم تمھیں آگ کے دریا میں نہلا دیں گے، تمہارا ککھ نہیں چھوڑیں گے، تمہیں لگ پتہ جائے گا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ شمالی کوریا میں بھی نسبتاً ایسا ہی ایک سربراہ موجود ہے، اس نے گذشتہ ماہ یکے بعد دیگرے ہائیڈروجن بم کے تجربات کرکے پورے خطے کو ہلا کے رکھ دیا اور بیان دیا کہ تم نے ادھر دیکھا تو آنکھیں نکال دیں گے۔ صدر ٹرمپ کو کسی نے سمجھایا کہ اس بات کو چھوڑیں، کوئی اور بات کریں تو ان کا دھیان افغان پالیسی کی جانب ہوگیا۔ بس پھر کیا تھا صدر ٹرمپ لاؤ لشکر لے کر پاکستان پر چڑھ دوڑے، اب ہم برداشت نہیں کریں گے۔ ہم سے پیسے بھی لیتے ہو اور ہمارے دشمنوں کی مدد بھی کرتے ہو۔ انتہائی غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ، غیر سفارتی بیانات جس کا جواب بہرحال پاکستانی اداروں کو دینا تھا۔ بعد میں امریکی سیکرٹری خارجہ معاملات کو سنبھالتے ہوئے نظر آئے۔ افغان پالیسی کے بعد صدر ٹرمپ کا اگلا جنون ایران کے ساتھ ہونے والا جوہری معاہدہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ٹھیک نہیں ہے۔ کئی ماہ کی محنت شاقہ، سفارتی دنیا کے عظیم کرداروں کی گھنٹوں کی سوچ وچار اور لائحہ حل کو صدر ٹرمپ نے ایک جملے سے ہی کالعدم کرنے کی کوشش کی، برطانیہ، جرمنی اور دیگر یورپی اداروں نیز ملکی ذمہ داروں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ایک عالمی معاہدہ ہے، اب اس سے پیچھا ہٹنا امریکہ کے مفاد میں نہیں، ایران اس معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہیں کر رہا، مگر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔۔ نہیں! میں نے توثیق نہیں کرنی۔ اب امریکی اس مشکل کا شکار ہیں کہ یورپ، روس، چین تو اس معاہدے سے پیچھے ہٹ نہیں رہے، ہم نے ہٹ کر کہاں جانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکی عوام کو بھی صدر ٹرمپ کی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوچکی ہے گذشتہ دنوں امریکہ میں ہونے والے ایک سروے کے نتائج کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی عوام صدر ٹرمپ کو ملک کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں، امریکی وفاق کے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں، ان کی قائدانہ صلاحیات پر اعتماد نہیں کرتے، انہیں جھوٹا انسان سمجھتے ہیں اور ان کے انتخاب پر شرمندہ ہیں۔ اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اس انتخاب کردہ آفت سے جان خلاصی کیسے ہو۔ میری نظر میں پوری دنیا کو ان ماہرین نفسیات کا شکر گزار ہونا چاہیے، جنھوں نے صدر ٹرمپ کی ذہنی کیفیت سے امریکی عوام اور دنیا کو آگاہ کرنا اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھی، ورنہ تو پوری دنیا اسی مخمصے میں رہتی کہ دنیا کا یہ ارسطو کیا چال چل رہا ہے۔ ان ماہرین نفسیات کی تشخیص کے بعد اب لوگوں کو صدر ٹرمپ کے بیانات کو سمجھنے اور ان کے سیاسی اقدامات کے حوالے سے رائے قائم کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اسی طرح امریکہ کے ادارے بھی اپنی لائن آف ایکشن کو متعین کرنے میں کسی تشویش کا شکار نہیں ہوں گے۔ آخر میں اس خطرناک صورتحال سے ملتا جلتا ایک مزاحیہ واقعہ۔ کہتے ہیں کہ کسی ملک میں یہ رواج تھا کہ بادشاہ کے انتقال کے بعد جو پہلا شخص شہر میں داخل ہوتا تھا، اسے بادشاہ بنایا جاتا تھا۔ بادشاہ کے انتقال پر حسب معمول انتظار شروع ہوگیا۔ اس دوران ایک فقیر اپنی گدڑی اٹھائے شہر میں داخل ہوا۔ روایت کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا گیا۔ ابتداء میں تو ملک چلتا رہا، اچانک کسی جانب سے ملک پر حملہ ہوگیا۔ لشکر کے کمانڈر بادشاہ سلامت کے پاس جمع ہوگئے کہ کیا کریں۔ بادشاہ سلامت نے غور کیا اور کہا حلوہ پکاؤ، تھوڑی دیر بعد کمانڈر کہنے لگے بادشاہ سلامت دشمن قلعے کی دیواروں پر پہنچ گیا۔ بادشاہ اطمینان سے بولا حلوہ پکاؤ۔ آخر ایک کمانڈر ہانپتا کانپتا اندر آیا کہ سب کمانڈر پکڑے گئے، دشمن شہر میں داخل ہوگیا اور محل کی جانب آرہا ہے۔ بادشاہ نے کہا اچھا یہ رہی میری گدڑی اور یہ رہا تمھارا ملک۔۔۔۔ کہیں دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت کے سربراہ جناب ٹرمپ بھی امریکہ کے ساتھ ایسا ہی نہ کریں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply