ہم معافی کیوں نہیں مانگنا چاہتے؟۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

توبہ خدا کو بے حد پسند ہےاور معافی مانگنے پر انسان بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کر دیتے ہیں۔

لیکن۔۔نہ ہم توبہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ معافی مانگنا چاہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہم اپنی غلطیوں،کوتاہیوں،گناہوں پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے۔؟

بڑی عجیب بات ہے کہ بتوں کے پجاریوں سے لیکر ایک خدا کو ماننے والوں تک ہر انسان سب سے پہلے اپنی انا کے بت کو جی جان سے پوجتا ہے،میں اور میری انا۔۔۔انسان کا سب سے پہلا مذہب ہیں۔میں غلط نہیں تھا،میں نے کچھ بُرا نہیں کیا،میرا کوئی قصور ہی نہیں ہے،انسان کے اندر کا دیوتا اسے یہی کہہ کر تسلی دیتا رہتا ہے۔دوبارہ گناہ کرنے کے لیے بڑھاوا دیتا رہتا ہے۔

وہ جھوٹ بولتا ہے،بے ایمانی کرتا ہے،کسی کے دل کو روندھ کر گزرجاتا ہے۔کسی کے دماغ کے نیورونز اور انکی کیمیاوی ترکیب کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے ،نفسیاتی مریض بنا کرپاگل خانے پہنچا دیتا ہے،کسی کو دھاڑیں مار مار کے رونے اور دیواروں سے ٹکریں مارنے مجبور کر دیتا ہے،کسی کی یاداشت چھین لیتا ہے،کسی کے لیے  برین ہیمرج کا باعث بن جاتا ہے۔کسی کو چھت پر سے چھلانگ لگا کر،پنکھے سے لٹک کر، سائینائیڈ زہر کھا کر،شہہ رگ کاٹ کر،ٹرین کے سامنے آکر مرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

لیکن اپنے اندر کے دیوتا کے ماتھے پر تلک لگا کر اور پھول چڑھا کرکہتا ہے۔میرا کیا قصور؟؟ میں نے کیا کیا؟ میں نے کب کہا تھا کہ مرجاؤ۔؟ ہونہہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کو میرے سر نہ تھوپو۔تم خود غلط تھے،غلطی پر تھے اور الزام دھرتے ہو مجھ پر؟جاؤ  جاؤ۔۔۔۔کسی اور کو پاگل بناؤ!

میں تمہارے چکروں میں آنے والا نہیں ۔۔انسانی دیوتا ان معاملوں میں بہت ہی خود پرست اور ظالم ہوتا ہے،اسے اپنی ذات سے اس قدر محبت اور عقیدت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوپر سے ہر روز کسی انسان کی زندگی کا چڑھاوا چڑھا سکتا ہے اور  چڑھاتا بھی ہے۔

اپنے اندر کے دیوتا کا بت توڑنا خود پرستوں کے لیے بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ انھیں تو ہمیشہ خود کو معاف کر دینے اور اپنے گناہوں کا بوجھ دوسروں پر دھر دینے کی عادت ہوتی ہے۔معافی مانگنے کا عمل انکے لیے بے حد تکلیف دہ ہوتا ہے۔

معافی مانگنے سے پہلے انھیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ عام تھے خاص نہیں،وہ بھی نفس اور اسکی کمزوریوں سے مغلوب ہوئے تھے اور ہوتے ہیں،انکا دل بھی گناہوں کی دلدل میں پاؤں دھرنے کو مچلتا ہے۔وہ بھی وقت اور موقع سے فائدہ اٹھا کر کسی کے جذبات،احساسات کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔کسی کا زر،زمین اور مال چھیننا چاہتے تھے۔کسی کو قدموں میں گرانا چاہتے تھے۔

معافی مانگنے کا عمل انکے بُت کو محدب عدسے کے نیچے سے نکال کر دور پھینک دیتا ہے۔ ان کا قد چھوٹا کرکے انھیں بونا بنا دیتا ہے اور خود پرستوں کے لئیے بونا بننا موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے،اس لئے وہ معافی مانگنے سے ایسے ہی منکر ہوتے ہیں جیسے ابلیس خدا کے حکم کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے منکر تھا ۔

جیسے ابلیس کی اکڑ اور تکبر نے اسے تاقیامت اور بعد از قیامت تک کے لیے راندۂ درگاہ کردیا ،ایسے ہی اپنے گناہوں اور غلطیوں کو تسلیم نہ کرنے والا بھی راندۂ درگاہ انسانیت ہو جاتا ہے۔ اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ نظروں سے گرا کر دھتکار دیا جاتا ہے،نفرتوں اور بد دعاؤں کا شکار ہوجاتا ہے،زمین پر رینگتا ہوا کیڑا مکوڑا بن جاتا ہے ۔اللہ کی نظر میں بھی اور اسکے بندوں کی نظروں میں بھی۔

اس لیے معافی مانگنا سیکھ لیں،اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا سیکھ لیں،جھکنا سیکھ لیں،توبہ کرنا سیکھ لیں ۔

یہ جو آپکے سینوں میں اپنا بُت سجا ہوا ہے اسے توڑ دیں ورنہ اس شرک کی پاداش میں خدا آپکےدل اور سینے کے معبد کو ڈھا دے گا ۔  معافی مانگ کر تو دیکھیں،اشک ندامت بہا کر تو دیکھیں،جن کے دل دکھائے ہیں انکے قدموں میں جھک کر کہیں تو سہی کہ آپ سے غلطی ہوگئی ہے۔ خدا آپکی غلطیاں معاف کرانے کے لیے ان سلگتے ہوئے دلوں کو ٹھنڈا کر دے گا  ۔انکے درد میں کمی کر دے گا کہ درد سہنے والوں کے دل گداز اور حساس ہوتے ہیں۔ وہ معاف کر دیتے ہیں اور ان سے معاف کرا دیا جاتا ہے کہ۔۔ میرے رب کو جھکے ہوئے سر بہت پسند ہیں ۔جُھکے ہوئے دل بہت پسند ہیں۔

اور  جب آپ معاف کر دئیے جائیں گے تو ایک خنک اور شبنمی سکون آپکی ہر رگ و شریان میں سرسرائے گا۔ ایک لطیف احساس آپکے جھکے ہوئے سر میں نور کی طرح سرائیت کر جائے گا ،آپکی روح اور جسم اپنے بوجھ سے آزاد ہو کر اسقدر ہلکے پھلکے ہو جائیں کہ اس زمین کی کشش ثقل آپکو اپنی طرف کھینچنا بھول جائے گی۔

آپ اپنی ذات کے بُتکدے سے نکل کر اللہ کی پناہ میں آجائیں گے  ،آپکی توبہ زمین اور آسمان  ہر دو جگہ قبول کر لی جائے گی ۔ آپ ابلیس کے جال سے نکل کر رحمان ورحیم کی پناہ میں آجائیں گے۔

جائیے اور اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگیے کہ کہیں دیر ہوگئی اور موت نے اکڑی ہوئی گردن ڈھلکا دی،ناک کا بانسا ٹیڑھا کر دیا، روح نے اس گناہگار جسم کو چھوڑ دیا تو پھر روز محشر کسی کا ہاتھ ہوگا اور آپکا گریبان۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر اس دن جب تک وہ ستے ہوئے لوگ معاف نہیں کریں   گے۔خدا بھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔۔اور اس دن ان لوگوں  سے  دید کی توقع بھی مت رکھیے گا  کہ وہ انکا دن ہوگا جنہوں نے زندگی میں آپ جیسوں کے جبر کو صبر سے برداشت کیا تھا ۔جائیے اور ابلیس کی شاگردی سے نکل کر رحمان کے عاجز بندے بنیے کہ ابھی زیست باقی ہے، آس باقی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply