کتاب اسلامی شخصیت(جلد:دوم)۔۔رعنا خان رانا

وہ جو امن سے نوازا گیا/ تحفظ عطا کیا گیا (المُسْتَأْمِن)
“مُسْتَأْمِن” وہ کہلاتا ہے جو سلامتی (امن) کا متلاشی ہے۔ یہ ایسا شخص ہے جوکسی دوسرے وطن یا دیارمیں سلامتی کے ساتھ داخل ہوتا ہے یعنی وہ جو دیار غیر میں تحفظ کے ساتھ داخل ہوتا ہے، بطور مسلمان یا جنگجو۔ اگر مسلمان تحفظ وسلامتی کے ساتھ دارالحرب میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لیے ان کی طرف سے لاگو کسی چیز کی مخالفت کرنا حرام ہے کیونکہ مسلمان ان کی شرائط کے پابند ہیں۔ اگر وہ ان کے مال و جائیداد میں سے کوئی ایسی چیز اپنے ساتھ لے جاتے ہوۓ چھوڑ دے جسے اس نے زبردستی تو نہ ہتھیایا ہو بلکہ فریب یا چوری سے لیا ہو تو اس کا قبضہ حرام ہے، اس لیے اسے اسکو صدقہ کردینا چاہیے۔ جب کہ اگر وہ زبردستی ان سے کوئی چیز چھین لے تو اسے اسکو واپس کرنا ہوگا کیونکہ جبراً چھیننا اس کے لیے محفوظ ہے جس سے چھینا گیا ہے۔ لہذا اسے واپس کرنا ہے چاہے وہ کافر ہو یا مسلمان۔ جس طرح ایک مسلمان کو کفریہ سرزمین میں حفاظت کے ساتھ داخلے کی اجازت ہے، اسی طرح جنگجو کو مسلمانوں کی سرزمین میں حفاظت کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت ہے۔

رسول اللہﷺ  نے فتح مکہ کے دن کافروں کو تحفظ فراہم کیا اور فرمایا کہ، “جو اپنا دروازہ بند کر لے وہ محفوظ ہے”۔ (رواہ المسلم)۔ آپ ﷺنے مشرکین کے ایلچی کو تحفظ دیا اور جس کو حفاظت دے دی گئی اس کی خیانت سے منع فرما دیا۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن ہر غدیر کے لیے ایک جھنڈا ہے جو اس کی خیانت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔ اور لوگوں کے سردار سے بڑا خیانت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ (رواہ المسلم)۔

تاہم،امن وآشتی کے ساتھ جنگجو مسلمانوں کی سرزمین میں ایک سال کے عرصے تک رہنے کا مجاز نہیں ہے۔ اسے ایک یا دو ماہ یا اس سے زیادہ کے لیے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن ایک سال سے زیادہ نہیں دیا جاتا۔ اگر اسے بغیر کسی خاص مدت کے غیر محدود تحفظ دیا جائے تو وہ سال (حول) شمار ہوتا ہے، کیونکہ اس کے لیے بغیر جزیہ کے اسلام کی روسے قیام کی اجازت ہے، اس لیے اسے ایک سال دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اس سے تجاوز کرتا ہے تو اسے رہائش اور جزیہ ادا کرنے یا دار الاسلام چھوڑنے کے درمیان انتخاب کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اگر وہ ایک سال کے بعد ٹھہرے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس نے جزیہ قبول کر لیا اور ذمّہ اس پر عائد ہوتا ہے تو وہ ذمی ہو جاتا ہے اور اس سے جزیہ لیا جاتا ہے کیونکہ کافر کے لیے اسلامی سرزمین میں بغیر جزیہ کے رہنا جائز نہیں ہے۔ جزیہ سال میں ایک بار واجب ہوتا ہے، لہٰذا اگر وہ ایک سال سے زیادہ ٹھہرے تو اس پر جزیہ واجب ہے اور وہ اس کی مرضی کے خلاف ذمی ہو جاتا ہے۔ اگر سال کے آخر میں یا اس سے پہلے رخصت ہو جائے تو اس پر جزیہ واجب نہیں ہے۔ اس عرصے میں اگر وہ چلا جاتا ہے، تو اس کی سابقہ حفاظت و تحفظ کو باطل کردیا جاتا ہے لہذا اگر وہ دوسری بار داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے نئے  سرے سے تحفظ کی ضرورت ہوگی۔

خلیفہ جب تک دارالاسلام میں ہے، مستأمن کی حمایت اس پر واجب ہے، اس لیے اس کی حکومت بھی اہل ذم کی حکومت کی طرح ہے۔ اگر مستأمن کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا واجب ہوتی ہے تو اس کے خلاف تمام سزائیں اہل ِ ذم کی طرح عائد کی جاتی ہیں ،سوائے شراب کی واجب سزا (حد) کے کیونکہ دارالاسلام شرعی احکام کے نفاذ کی جگہ ہے، جہاں شریعت کی رو سےاس کے اندر ہر ایک پر احکام نافذ ہیں چاہے وہ مسلمان ہو، ذمی ہو یا مستأمن۔ رسول اللہﷺ  نے نجران کے لوگوں کو جو کہ عیسائی تھے’ ان کو لکھا کہ، “بے شک تم میں سے جس نے سود کا سودا کیا اس کے لیے کوئی ذمہ نہیں ہے”۔ سود اسلامی احکام میں سے ہے لہٰذا رسول اللہﷺ کا اہل ذم پر سود کے ساتھ تجارت نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان سے احکام کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور مستامن کے ساتھ ذمی جیسا رویہ اپنایا جاتا ہے۔

اگر مستامن اپنی جان کے لیے کوئی تحفظ کی ضمانت لے تو یہ اس کے اس مال و جائداد کی حفاظت کی بھی ضامن ہوگی جو اس کے ہمراہ ہے، خواہ اس نے اس کے لیے ضمانت نہ لی ہو۔ پس اس کا مال محفوظ ہے جیسا کہ اس کی جان ہے اور مسلمان اس کی شراب اور سور کی قیمت کی ضمانت دیتا ہے اگر اس نے ان کو تلف کر دیا۔ اگر اس نے اسے حادثاتی طور پر قتل کردیا تو اس پر خون بہا واجب ہے، اور اگر اس نے جان بوجھ کر قتل کیا تو اس کے لیے بھی قتل کیا جانا ہے۔ مستامن کو ضرر و نقصان پہنچانے سے پرہیز کرنا واجب ہے اور اس کی غیبت حرام ہے کیونکہ اس کے ساتھ ذمی جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اگر مستامن دار الاسلام میں فوت ہو جائے اور اس کے ورثاء دار الحرب میں ہوں تو اس کی جائیداد کو ثبوت کے ذریعے بحال کر دیا جاتا ہے خواہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا اہل ذمّہ کی چونکہ یہ محفوظ ملکیت ہے اس لیے اسے اس کے ان مالکوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جوکہ اس کے وارث ہیں۔

مختصر یہ کہ جس نے مسلمانوں سے امن و سلامتی کی درخواست کی، مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے اسے بہم امن و امان دیں کہ ’’اگر مشرکوں میں سے کوئی پناہ مانگے تو اس کی حفاظت کرو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سن لے، پھر اسے اس کی جگہ پہنچا دو۔ حفاظت ” [TMQ سورہ توبہ 9:6]۔ یہ اس لیے بھی ہے کیونکہ سلامتی سے مراد ضمانت اور عہد کرنا ہے اور رسول اللہﷺ  کا فرمان ہے کہ، “مسلمان اپنے خون میں برابر ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے کے خلاف ایک ہاتھ ہیں”۔ ان کا ذمہ (بیعت/ ضمانت) ان میں سے ادنیٰ سے ادنیٰ نے انجام دیا ہے۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ)۔ بہرحال یہ تمام ترتحفظ ان کو احکامِ اسلام کے پابند وتابع ہونے اور جزیہ دینے تک محدود ہونے کے لیۓ کافی ہے کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ:”یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں”-التوبۃ:9:29

Advertisements
julia rana solicitors

یعنی ان سے قتل کو ختم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں قتل سے تحفظ دیا جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ جزیہ دیں اور اسلام کے احکام کے تابع ہوں۔ دارالاسلام میں رہتے ہوئے ان کا اسلام کے احکام کو تسلیم کرنا انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر وہ ایسی مدت ٹھہرے جس کے لیے ان پر جزیہ واجب الادا ہے جو کہ ایک سال ہے تو ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ چلے جائیں۔ اگر وہ انکار کرتے ہیں تو ان پر جزیہ عائد ہوتا ہے اور وہ ذمی ہو جاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply