• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزاد ہندوستان میں فراموش کردیے گئے ملت کے مجاہد ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے آخری سپاہی بدر کاظمی کے ساتھ خصوصی بات چیت(حصہ اوّل)۔۔۔ایم غزالی خان

آزاد ہندوستان میں فراموش کردیے گئے ملت کے مجاہد ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے آخری سپاہی بدر کاظمی کے ساتھ خصوصی بات چیت(حصہ اوّل)۔۔۔ایم غزالی خان

آج، 19 مئی کو مسلمانان ہند کے ایک ایسے بے لوث خادم کی چھیالیسویں برسی ہے جسے ملت توکیا وہ لوگ بھی فراموش کر چکے، جن پرانھوں نے ذاتی احسانات کیے تھے۔ یہ وہ شخصیت تھی جو اگر اپنے لئے مفاد پرستی کا راستہ منتخب کرتی اور اس وقت کی مضبوط ترین سیاسی جماعت کانگریس میں شمولیت اختیارکرلیتی تو اعلیٰ ترین منصبوں سے سرفراز کردی جاتی، مگر ملی جذبے سے سرشار اس شخص نے ملت کے تحفظ کے لئے جس طرح اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا ،آزاد ہندوستان میں اس کی نظیر کم ہی ملے گی ۔

رامپور میں ایک جلسے میں ڈاکٹر فریدی اسٹیج پر سامنے ٹیپ ریکارڈ رکھے ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر صاحب پر پے درپہ دفعہ 353 الف کے مقدمات قائم کئے جارہے تھے کہ وہ فرقہ وارانہ منافرت پیدا کر رہے ہیں ،لہذا ڈاکٹر صاحب ہر جگہ تقریر ٹیپ کراتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی

اس عظیم شخصیت کا نام ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی تھا۔وہ ہندوستان کے گنے چنے ٹی بی کے ماہرڈاکٹروں میں سے ایک تھے جنھیں ا ﷲ تعالیٰ نے پیشہ ورانہ شہرت، وقار اور دولت سبھی سے نوازا تھا۔وہ چاہتے توآرام دہ زندگی بسر کرتے اور ملی مفادات کا سودا کر لیتے تو شاید ہندوستان کے صدوریا نائب صدور میں ایک نام ان کا بھی ہوتا۔مگر انھوں نےبغیر کسی لالچ اور نام و نمود کے ملت کی خدمت کو ترجیح دی اور اس کے لیے اپنا تن ، من ، دھن سب کچھ نچھاور کر دیا ۔

انھوں نے مسلمانان ہند کو متحد کرنے اور ایک سیاسی پلیٹ فارم پرلاکرانہیں ایک ناگزیرسیاسی قوت بنانے کے لئے   ایک سیاسی تنظیم ‘مسلم مجلس’ قائم کی تھی، جو اگرچہ آج تاریخ کا حصہ بن چکی ہے لیکن انتہائی کم مدت میں اس نے جس انداز سے خصوصی طور پر شمالی ہند میں اپنے اثرات مرتب کیے تھے اور یوپی میں کانگریس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا آج اس کا تصور کرنا بھی محال ہے ۔
آج ضرورت ایسے مجاہدین ملت سے نئی نسل کو روشناس کرانے کی تھی لیکن افسوس ہم اپنے بزرگوں کے کارناموں کو خود ہی فراموش کر رہے ہیں ۔ کہیں سے ایسی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دیتی جس سے آنے والی نسلیں حوصلہ لیکر آگے بڑھنے کا سلیقہ سیکھیں ، لے دے کر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا یونین ہال میں ملی قائدین میں ان کی ایک تصویر آویزاں ہے، جسے یونیورسٹی کے عام طلبا توکیا، ممکن ہے ان کے قائدین بھی نہ پہچانتے ہوں، جبکہ ڈاکٹر فریدی اس ادارے کے اقلیتی کردار کی بحالی کی جدوجہد کے سب سے بڑے علمبردارتھے اوراس مقصد کے لئے ان کی قربانیاں بھی اپنی مثال آپ تھیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا خواب تھا کہ شمالی ہند کے مسلمان ایک جھنڈے تلے متحد ایک مضبوط سیاسی قوت ہوں جن کی مرضی کے بغیر اس ملک کی قسمت کا فیصلہ نہ ہو، لیکن افسوس یہ نہ ہوسکا اور مسلمانوں نے یہ موقع صرف ضائع ہی نہیں کیا بلکہ اپنے اوپر کالی رات مسلط کرلی۔

میں نے ڈاکٹرفریدی کا نام سب سے پہلے 1972 میں سنا تھا جب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے ملک بھر، بطورخاص یوپی، میں زبردست تحریک اٹھی تھی۔ اس وقت میری عمر تقریباً 14 سال تھی۔ کیونکہ مختلف شہروں میں دفعہ 144 کا اعلان کرکے جلسے جلوسوں پر پابندی لگادی گئی تھی، احتجاج کا ایک طریقہ یہ نکالا گیا تھا کہ مکانون پرسیاہ جھنڈ ے لگائے جائیں، بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی جائیں اورمساجد میں نمازجمعہ کے بعد تقاریر کی جائیں۔ ہمارے آبائی شہر دیوبند میں ملی مسا ئل کا جھنڈا دو بھائی قمرکاظمی (مرحوم جو بعد میں مسلم مجلس کے تیسرے صدرمنتخب ہوئے) اور بدرکاظمی نے اٹھایا ہوا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جس روزسیاہ جھنڈے لگائے جانے تھے، اس سے ایک رات قبل دیوبند کی دیواریں گیروے رنگ سے پوت دی گئی تھیں، دیواریں نعروں سے مزین تھیں ، جن میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان دیواروں کو نعروں سے رنگنے والا قصبے کا ایک نوجوان بدرکاظمی تھا جنہیں عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے میں بدربھائی کہتا تھا ۔ اپنی کم عمری اور وسائل کی تنگی کے باوجود بھی بدربھائی نے ایک پندرہ روزہ اخبار ’منشور‘ کے نام سے نکالا تھا۔

میرے علم کی حد تک اگرکوئی شخص آج بھی ‘مسلم مجلس ‘ کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے اور ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی کو یاد کرتاہے تو وہ بدربھائی ہیں۔ ان کی بہت سی باتوں، خاص طور پر بعض اوقات ان کی سخت کلامی اور بے احتیاط گفتگو سے مجھے بھی سخت اختلاف ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ اگر بدربھائی مفاد پرستی کا راستہ اختیارکرلیتے تو کوئی بھی پارٹی انہیں اپنے یہاں اعلیٰ مقام عطاکردیتی اوروہ بھی بہت سے دنیاوی فائدے حاصل کرلیتے۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں تقریری اور تحریری صلاحتیوں اور خوبصورت شخصیت سے نوازا ہے۔ بدربھائی ماشااللہ حافظ قرآن بھی ہیں اور ایک مدعت بعد اس سال بعد اپنے گھر پرقرآن سنانے کا اہتمام بھی کررہے ہیں۔

تمہید لمبی ہوگئی۔ بدربھائی کا مختصرتعارف کروانا اس لئے ضروری تھا تاکہ مسلم مجلس اور خاص طورپر 1974 کی مسلم سیاست کے عروج و زوال کی کہانی ریکارڈ میں آ جائے اور قارئین مسلم سیاست کا ایک عکس دیکھ سکیں ۔ ذیل میں بدربھائی کے ساتھ کی گئی بات چیت کی تفصیلات نقل کی جارہی ہیں ، جن میں بہت سے لوگوں، بالخصوص نئی نسل کے لئے چونکادینے والی معلومات ہیں۔ موجودہ حالات کی حساسیت کے پیش نظرگفتگوسے کچھ باتیں حذف کردی گئی ہیں— محمد غزالی خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزالی: میرے علم کی حد تک آپ شاید ہندوستان کے ان گنے چنے لوگوں میں ہیں جو آج بھی مسلم مجلس کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اورڈاکٹرعبدالجلیل فریدی کے نام کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ بچپن یا جوانی میں اس تنظیم میں شامل ہوئے اور آج بڑھاپے میں بھی اسے گلے لگائے ہوئے ہیں۔ ایک وقت میں مسلمانوں کی اہم سیاسی قوت بن کر ابھرنے اور آج محض ایک لیٹرہیڈ تنظیم بن کر رہ جانے والی اس تنظیم کی کہانی آپ کی زبانی سننا چاہوں گا۔

بدر کاظمی: عروج کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو ڈاکٹر صاحب مرحوم کو دیکھنے کو نہیں ملا، کیونکہ وہ 1977 کے بعد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے 1968 میں مجلس قائم کی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے 1971 تھا، میری عمر اس وقت بہت کم تھی، مجلس کے لوگ، اقبال خان صاحب وغیرہ، بھائی صاحب (قمر کاظمی مرحوم جو 1989 تا 2003 تک سب سے زیادہ وقت صدر رہے اور جج صاحب مرحوم کے بعد سب سے زیادہ متحرک افعال آخری صدر تھے) کے پاس پُر قاضی (ضلع مظفرنگر میں ایک قصبہ ) آئے جہاں ہم نے گنا کریشیر لگایا ہوا تھا۔ بھائی صاحب مجلس سے پہلے ہی وابستہ ہو چکے تھے۔ وہ کانپور سے نکلنے والے اخبار ’قائد‘ کی ادارت کررہے تھے۔ مگر پھر اسے چھوڑ کر پُر قاضی واپس آگئے اور وہاں گنا کریشر لگالیا تھا۔
رُڑکی میں مجلس کا جلسہ ہونے والا تھا۔ ان حضرات نے بھائی صاحب سے جلسے میں چلنے کو کہا۔ جلسہ رات میں ہونا تھا۔ لہٰذا ہم رات میں جب وہاں پہنچے تو جلسہ گاہ میں محض دو چارافراد، جنہوں نے جلسے کا انتظام کیا تھا، موجود تھے۔ خلقت ضرور تھی مگرہوٹلوں میں، اور مساجد یا مکانوں کی چھتوں پر تھی۔ جلسہ گاہ میں ہرا جھنڈا اور چاند تارہ دیکھ کر وہاں آنے کی کوئی ہمت نہیں کرپارہا تھا۔ بہرحال جلسہ شروع ہوا۔ مقرررین میں جس کانام بلایا جاتا تھا وہ آکر اپنی بات کہتا تھا اورسامنے محض چند سامعین تھے۔ بہرحال آہستہ آہستہ لوگوں نے آنے کی ہمت کی اور سو دوسو لوگوہاں آگئے۔ اس طرح یہ کام دوبارہ شروع ہوا۔
اﷲ کا کرم ہے کہ 1968 میں ریپبلکن اور بیک ورڈ کلاسزفورم سے مل کر ڈاکٹر صاحب نے جو الائنس قائم کیا تھا اس میں یوپی میں ہمارے پانچ ایم ایل اے منتخب ہوگئے تھے جس میں دہ دلت تھے اور تین مسلمان تھے جن میں کانپور سے نسیم صدیقی تھے، ان کا انتقال ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔ اس وقت وہ ایک نو جوان وکیل تھے، نئی نئی وکالت شروع کی تھی جو ابھی جم بھی نہیں پائی تھی۔ اسی طرح حبیب صاحب مرحوم الہ آباد سے آئے تھے۔ غازی پور سے شاہ ابوالفیض صاحب مرحوم تھے ۔ بہت پڑھے لکھے اور قابل شخص تھے۔ وہ اقوام متحدہ میں بھی کچھ رہے تھے۔ دو دلتوں میں ننھے لال کریل اور چھوٹے لال نربھئے۔

لکھنؤ مسلم مجلس سالانہ کانفرنس مائک پر بدر کاظمی، ،سامنے قمر کاظمی، الحاج ذوالفقار اللہ صاحب، ۔ہمزہ حسنی

1974 میں مجلس اور ایس ایس پی کا الحاق ہوا۔ 1971 میں شیخ عبداللہ کے دباؤ میں آکر ڈاکٹر صاحب نے کانگریس سے بھی اتحاد کر لیا تھا ۔ مسز گاندھی 1971 کے انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ جیتی تھیں۔ مگرانہوں نے مسلمانوں سے کیا ہوا ایک بھی وعدہ وفا نہیں کیا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش کا معاملہ شروع ہوگیا۔ یہاں ایک واقعہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ان سیکولرلیڈروں سے جتنا بھی اتحاد کرلیں مگر یہ آپ پر کبھی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود کہ اس وقت کے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں عوام پر مظالم ڈھائے جانے کے خلاف انسانی بنیادوں پر ڈاکٹر صاحب بگلہ دیش کی آزادی سے متعلق کھل کر حکومت کی حمایت کر چکے تھے، جب بنگلہ دیش بن گیااور پاکستان کو شکست ہو گئی تو محض ڈاکٹر صاحب کے تاثرت دیکھنے اوران کا مزید امتحان لینے کے لئے ایک روز مسزگاندھی نے ڈاکٹرصاحب کو بلایا اور مشاورتی انداز میں پوچھا کہ میں سوچ رہی ہوں کہ بنگلہ دیش کو ہندوستان میں شامل کرلیا جائے۔ اس پرڈاکٹرصاحب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے اس سے اچھی خبر کیا ہو سکتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور مجھے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں مزید سیٹیں ملیں گی۔
بہرحال 1974 آتے آتے مسلمانوں کے مسائل کو لے کر ڈاکٹر صاحب مسز گاندھی سے نا امید ہوچکے تھے۔ اور1974 میں مجلس نے سمیکت سوشلسٹ پارٹی (ایس ایس پی) کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ اسی دوران 1972 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکی کی بحالی کی تحریک شروع ہوچکی تھی۔ اس سلسے میں ہم ڈاکٹرصاحب کی قیادت میں جیل گئے۔ لکھنؤ سینٹرل جیل میں تقریباًڈیڑھ ماہ ہمارے ساتھ راج نارائن اور ایس ایس پی کے دو چار ایم ایل اے ساتھ تھے۔ بہرحال ڈیڑھ ماہ بعد عدالت نے ہمیں رہا کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹرصاحب نے مجھے مغربی یوپی کا انچارج بنایا تھا۔
اس وقت میری عمر چوبیس پچیس سال تھی۔ میں نے اس زمانے میں میرٹھ میں کانفرنس بھی کروائی جو بہت کامیاب رہی۔ اسی دوران اسدالدین اویسی کے والد سلطان صلاح الدین اویسی کو میں نے یوپی کا دورہ بھی کروایا اور مختلف اضلاع میں ہم نے مجلس کے جلسے کروائے جن میں اویسی صاحب نے شرکت کی اور مجلس کی حمایت میں تقریریں کیں۔
1974 کے اتحاد کے بعد یو پی اسمبلی میں ہمارے تین ایم ایل اے، حبیب صاحب، مسعود خان صاحب اوروہ دو دلت بھی آگئے۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب بیمار رہنے لگے تھے وہ خود ڈاکٹر تھے تو اکثر اپنے ہاتھوں کی دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میری کیا پوزیشن ہے۔ وہ خود ٹی بی کے ماہر ہونے کے باوجود اس مو ذی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اورعلاج کے لئے بیرون ملک بھی جا چکے تھے۔ ڈاکٹروں نے انہیں سختی کے ساتھ آرام کرنے کی تاکید کی تھی۔ ان کے پھیپڑے پہلے ہی جواب دے چکے تھے اور 1974 میں انتخابی مہم میں لمبے لمبے سفر کے دوران دھول دھکڑ کی وجہ سے طبیعت مزید خراب ہوگئی اور و ہ ا ﷲ کو پیارے ہوگئے۔
1974 تک ڈاکٹرصاحب اپنی انتھک کوششوں سے یوپی کی حد تک چرن سنگھ کی قیادت والی ،بی کے ڈی اور راج نراین کی ایس ایس پی وغیرہ کو یکجا کرچکے تھے۔ اس وقت تک اس میں وہ قوت پیدا نہیں ہوئی تھی مگر کام شروع ہوچکا تھا۔
اس کے بعد حبیب صاحب مرحوم پارٹی کے صدربنے۔ انہوں نے، الحاج ذوالفقار اﷲ صاحب کی سربراہی میں ڈاکٹرصاحب کے مشن کو جاری رکھا۔ اس کے بعد امرجنسی لگی۔ سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگی اور مجلس سمیت دیگر سیاسی کارکنان جیلوں میں چلے گئے۔
جیسے ہی ایمر جنسی ختم ہوئی اور یہ لوگ رہا ہوئے اسی وقت اتر پردیش میں پارلیمنٹ میں گیارہ کی گیارہ سیٹیں مجلس کے لئے طے کردی گئیں۔ مگر بد قسمتی دیکھئے کہ شاید اس لئے کہ امرجنسی تازہ تازہ ختم ہوئی تھی اور لوگ حکمراں پارٹی کے مظالم دیکھ چکے تھے، اس وجہ سے مجلس کو مسلمانوں میں کوئی امیدوار نہیں ملا۔ اس کے نتیجے میں مجلس کے محض دو لوگ،سلطان پور سےالحاج ذولفقارﷲ اور الہ آباد سے بشیراحمد خان ایڈووکیٹ منتخب ہوکرآئے۔
یوپی اسمبلی کے انتخابات میں مجلس نے 10 سیٹوں پرامیدوار کھڑے کئے جن میں آٹھ جیت گئے ،دو ہارگئے جن میں اعظم خان بھی تھے۔ وہ 74 میں بھی ہارے اور 77 میں بھی۔ اسی طرح سدت اسد حسنئ تھے جو امیہ کے قریب کسی حلقہ سے ہار گئے تھے۔ وہ 1984 میں مجلس کے صدر بھی رہے مگر جلد ہی انکی وفات ہوگئی تھی۔ یہ وقت تھا جب چودھری چرن سنگھ مجلس کے لوگوں پر اتنا اعتماد کرنے لگے تھے کہ ان کی نظر حبیب صاحب پر تھی اور یوپی کی چیف منسٹری کے لئے حبیب صاحب کا نام تقریباً  طے ہوگیا تھا۔ چودھری صاحب کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں تھیں کہ وہ فرقہ پرست تھے اورآریہ سماجی تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت صاف ستھرے ذہن کے انسان تھے۔ انھوں نے یوپی کے ان زمینداروں کو، جو کبھی مسلم لیگ میں ہوا کرتے تھے، گھروں سے نکالا اور بی کے ڈی کے ٹکٹ پر الیکشن  لڑوایا جن میں سعید مرتضیٰ، غیورعلی خان، محمود علی خان، رافع خان وغیرہ ہیں اور اس طرح انھوں نے مسلم لیڈرشپ کو کھڑا کرنے کا کام کیا۔ مجلس کے لوگوں کو قریب سے دیکھا تو وہ ان کے اخلاق اوردیانت داری سے اتنے متاثرتھے کہ مجلس کے ایک مسلمان کو یوپی کا وزیراعلیٰ بنانا تقریبا ً طے کرلیا تھا۔

مرادآباد فساد کے خلاف مظاہرہ اور گرفتاریاں لکھنو سینٹرل جیلُ کے گیٹ پر ذوالفقار اللہ صاحب، فضل الباری و دیگر لیڈر

بہوگنا، جو اس اتحاد میں شامل تھے، اس صورتحال سے پریشان ہوئے اور انہوں نے راج نرائن کا استعمال کیا اور ان سے کہا کہ یہ پھر مسلم لیگ کو زندہ کرنے جارہا ہے۔ راج نرائن نے مخالفت کی اور وہ اس حد تک گئے کہ رام نریش یادو، جنہیں صرف ڈسٹرکٹ بورڈ کی سیاست کا تجربہ تھا اور جنہوں نے کبھی کوئی الیکشن بھی نہیں لڑا تھا مگراب اسمبلی میں آچکے تھے، ان کو چیف منسٹر بنوادیا۔ یہ اندر کی بات تھی جو کبھی باہر نہیں آسکی۔ اس دوران حبیب صاحب بیمار رہنے لگے اور مستقل ڈائلسس پر رہنے لگے تھے، اعظم گڑھ کے مسعود خان، جو ایک وکیل بھی تھے، اور دیگرلوگوں نے چودھری صاحب سے مل کر انہیں سائڈ لائن کرنا چاہا اور خود پی ڈبلیوڈی کے منسٹر ہوگئے اورعارف محمد خان کو ڈپٹی منسٹربنایا گیا۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی حبیب صاحب نے بہت خوش اسلوبی سے اسے تسلیم کرلیا۔
جنتا پارٹی سے جو بھی معاملات حبیب صاحب نے کئے ہوں گے، صحت بھی ان کی جواب دے چکی تھی اور انہیں جنتا پارٹی سے شکایتیں پیدا ہوگئیں۔ اسی دوران اعظم گڑھ میں ایک سیٹ پر کسی کی موت کی وجہ سے ضمنی انتخاب آگیا جہاں سے محسنہ قدوائی کانگریس کی امیدوارتھیں۔ حبیب صاحب نے چودھری صاحب کے سامنے کچھ شکایات رکھیں جو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا اور حبیب صاحب اورمجلس نے کھل کر محسنہ قدوائی کی حمات کی ۔عارف محمد خان جو منسٹر بھی تھے، انہوں نے بھی جا کر الیکشن لڑایا اورمحسنہ قدوائی الیکشن جیت گئیں جس کے نتیجے میں عارف محمد خان کو مستعفی ہونا پڑا جس کے بعد وہ کانگریس میں چلے گئے۔

غزالی : کیا عارف محمد خان مسلم مجلس کے ٹکٹ پرمنتخب ہوئے تھے؟
بدرکاظمی: عارف محمد خان سمیت مسلم مجلس کے تمام امیدوارجنتا پارٹی کے ٹکٹ پرکھڑے ہوئے تھے مگر یہ سب مسلم مجلس کے کوٹے میں آئے تھے۔ بہرحال حبیب صاحب کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب عروج یہاں پر ہے کہ الحاج ذالفقاراﷲ صاحب مرکز میں فائنانس اسٹیٹ منسٹر بنائے گئےاور کسٹم اور ایکسائز وغیرہ سب ان کے پاس تھیں۔
اب تک مجلس اپنی شناخت کے ساتھ چل رہی تھی۔ اسی دوران سوشلسٹوں اور جن سنگھیوں میں اختلافات بڑھ گئے۔ اس کے نتیجے میں ڈیڈ لاک پیدا ہوا اور سرکار گرگئی۔ سرکار گرجانے کے بعد چودھری چرن سنگھ کی گورنمنٹ بنی تو ذوالفقارﷲ صاحب کو وزارت پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف دی گئی۔ اسی دوران چودھری صاحب سے بھی اختلاف ہوا۔ چندرشیکھر اس وقت دوسرے گروپ کو لیڈ کررہے تھے۔ وہ سوشلسٹ تھے اوران کا ذہن صاف تھا۔ ہم لوگ ان کے ساتھ چلے گئے اور دوبارہ جو الیکشن ہوا اس میں بھائی صاحب سہارنپور سے الیکشن لڑے اوردھاندلی کے نتیجے میں وہ محض پانچ ہزارووٹوں سے ہارگئے۔ ذوالفقاراﷲ صاحب کیرانہ سے لڑے وہ بھی ہارگئے اور مجلس کا جو ایک عروج ہوا تھا اس کا زوال شروع ہوگیا۔ مگر اس دوران مجلس یوپی اسمبلی میں برابر 1989 تک اپنی نمائندگی کرتی رہی ۔
دسمبر 1985 میں پھرالیشنک ہوئے جس میں فضل الباری صاحب اور ایک اور صاحب جن کانام مجھے یاد نہیں آرہا ہے، دو ایم ایل اے اس الیکشن میں بھی آگئے تھے۔ میں دیوبند سے لڑا تھا اوراﷲ کے فضل سے شاید پہلا موقع تھا جب دیوبند حلقے میں، جہاں ٹھاکروں کی اکثریت ہے، مسلمانوں کا یکطرفہ ووٹ مجھے ملا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا عثمان صاحب یا مولانا اسعد صاحب جو میرے مخالف تھے اسعد مدنی صاحب کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا البتہ مولانا عثمان صاحب کے گھرانے تک کے ووٹ مجھے ملے تھے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں میں ووٹ کا تناسب پچیس سے تیس فی صد ہواکرتا تھا۔ اس حالت میں بھی ٹھاکر مہابیرسنگھ جو بیس پچیس سال سے ایم ایل اے ہوتے آرہے تھے، انہوں نے پرانا حربہ استعمال کیا اور جگہ جگہ جا کریہ کہا کہ کیا مجھے ایک بچے سے ہروا کر پاکستان بنواؤ گے ؟
اس دوران ملک کی سیاست اتنی خراب ہوتی چلی گئی اور ہر لحاظ سے پیسے پر منحصر ہوتی جارہی تھی کہ آپ کے پاس پیسہ ہے اور آپ پیسہ جٹا سکتے ہیں تو سیاست میں آپ کا کوئی کام ہے ورنہ آپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ بہرحال 1989 آتے آتے بابری مسجد کا معاملہ شدت اختیار کرگیا۔ 1991 میں بھائی صاحب نے پورے اترپردیش میں انصاف کارواں نکالا۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ہمیں عدالت پر بھروسہ کرنا چاہیے اور ہندو مسلم بھائی چارہ بنا رہنا چاہیے۔ وہ خاص طورپر ہندوؤں سے کہہ رہے تھے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بابری مسجد رام جنم بھومی کے مسئلے کو سڑکوں پر لاکر اور اشتعال اندیشی نہ پیدا کرکے ہمیں فیصلہ عدالت پر چھوڑ دینا چاہئے جس کے بھی حق میں آئے۔ بہرحال یہ ایک کاوش تھی اورشواہد کی روشنی میں اس بات کا یقین تھا کہ فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا۔
1991 آگیا اوربھائی صاحب رات دن بہت پریشان رہنے لگے۔ شاید وہ پورے قضیے کی تاریخ لکھ رہے تھے۔ ہاں ایک بات بتانا بھول گیا۔ جس وقت بابری مسجد کا تالا کھلا تو بھائی صاحب اور فضل الباری رات میں ٹرین سے دہلی آرہے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ مشاورت کا اجلاس تھا یا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جس میں انہیں اگلے روز شرکت کرنی تھی۔ ٹرین میں ان کے ساتھ ایک دو سنگھی ایم ایل اے بھی تھے۔ فضل الباری سو گئے تھے کہ ان میں سے ایک نے آواز دی، ’اے کائد اعجم اے کائد اعجم‘ ان کے ہاتھ میں اخبار تھا۔ فضل الباری اٹھے اورپوچھا کہ کیا ماجرا ہوگیا۔ اس نے جواب دیا بابری مسجد کا تالا کھل گیا اور پوجا ارچنا شروع ہوگئی۔ باری صاحب نے اس کے ہاتھ سے اخبار لیا اس پرایک نظرڈالی اور کہا ’تالا لگ جائے گا کل پرسوں تک‘ وہ بہت پریشان ہوا کہنے لگا ’اے کائد اعجم (قائداعظم)اے کائد اعجم یہ کیا بول رہا ہے تو؟‘ چنانچہ دہلی میں میٹنگ ہوئی اس میں مولانا علی میاں، مولانا منت ﷲ رحمانی، سید شہاب الدین اور ملت کے تمام بڑے بڑے قائدین موجود تھے۔ اس میٹنگ میں فضل الباری صاحب نے ایک تجویز رکھی کہ دیکھیے انھوں نے کہا ہے کہ نقض امن کا کوئی خطرہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر تالا کھولا گیا ہے۔ آج اس میٹنگ میں طے کردیا جائے کہ اگلے جمعہ کی نماز ہم ایودھیا میں پڑھیں گے اورمولانا علی میاں نماز پڑھائیں گے۔ میں بستی، بہرائچ اور اعظم گڑھ سے اتنی بھیڑ لے آؤں گا کہ انہیں دوبارہ تالا ڈالنا پڑے گا۔ اگر اس وقت ہم نے کچھ نہ کیا تو یہ چیز ہمیں 1947 سے بھی زیادہ خراب حالات میں پہنچادے گی۔ اس وقت تک ہمیں کچھ نہیں معلوم تھا کہ دو روز قبل راجیو گاندھی سے مل کر مذہبی قیادت بات چیت کرچکی تھی کہ پرسنل لا کے بارے میں وہ اپنا موقف تبدیل کردے اوربابری مسجد پر مسلمانوں کی جانب سے مزاحمت نہیں ہوگی۔ میٹنگ میں سید شہاب الدین صاحب نے آنسو بہائے اس کے علاوہ کسی نے کچھ کرنے کے لئے کوئی حامی نہیں بھری۔ فضل الباری کوا ﷲ غریق رحمت کرے، انہوں باربار کہا کہ اس مسئلے کو مومنٹ نہ بننے دیا جائے اور یہیں پر روک دیا جائے اور روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ ہمت کریں۔ بھیڑ میں لے آؤں گا اور اس بنیاد پر تالادوبارہ لگ جائے گا۔ ورنہ ہمیں 1947 سے بدترحالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہرحال 6 دسمبر کو مسجد شہید کردی گئی، مسلمانوں کودیوار سے لگادیا گیا، قیادت بے کاراور بے وقعت ہو کررہ گئی، پورے ملک میں فسادات بھڑک اٹھے دیوبند جیسی جگہ جہاں 1947 میں بھی فسادات نہیں ہوئے تھے، وہ بھی اس آگ سے نہ بچ سکی اورچارافراد اس کی نذرہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london
مرادآباد میرٹھ فسادات کے خلاف مظاہرہ قمر کاظمی، فضل الباری

جاری ہے

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply