• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دہشت گردی ‘باباٹرمپ کی تقریر اور چاچاٹوپک کا تبصرہ

دہشت گردی ‘باباٹرمپ کی تقریر اور چاچاٹوپک کا تبصرہ

دہشت گردی ‘باباٹرمپ کی تقریر اور چاچاٹوپک کا تبصرہ
عمران یوسف زئی
ہمارے ہاں اکثر شادیوں میں کوئی نہ کوئی چاچا یا ماما ہر چیز کا ٹھیکیدار ضرورہوتا ہے، چاولوں میں نمک زیادہ ہو یا کم، شامیانے چھوٹے لگے ہوں یا بڑے، کرسیاں کم پڑ جائیں یا خالی رہ جائیں، دلہا یا دلہن والے دیر لگادیں یا جلد آ جائیں وہ ٹھیکیدار ہر چیز میں عمل دخل اور ٹانگ اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ شادی کے آخر میں اس ٹھیکیدار کی بلاوجہ تنقید کا نشانہ بننے والا کوئی رشتہ دار ناراض ہو یا نہ ہو، یہ خود ضرور ناراض ہوجاتا ہے اور پھر اگلی کسی شادی تک خاندان بھر کی ہرمحفل میں گزشتہ شادی کے تمام ترانتظامات میں اپنی طرف سے پیدا کردہ کیڑے نکالتا رہتا ہے۔اس دنیا کو اگر ایک خاندان تصور کرلیا جائے تو اس میں یہ ٹھیکیدارانہ کردار امریکہ سے بہترکوئی ادا نہیں کرسکے گا۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں کہیں پر بھی کوئی بھی نام نہاد جمہوریت خطرے میں ہو اس کے پیٹ میں درد ضروراٹھتا ہے اور پھر “تو کون ،میں خوامخواہ”کے مصداق وہ اس درد کو اپنے طریقہ علاج سے ٹھیک کرنا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اب 45 ویں صدر کی بھی سن لیجئے موصوف نے سفیدگھر کا چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے تو “دہشت گردی&”کو اسلام سے منسوب کر ڈالا ہے کوئی اس عقل کے اندھے اور ریسلنگ کے رنگ میں ڈرامے بازی کرنے والے سے یہ پوچھے کہ یہ جو ہرپلیٹ فارم پر دہشت گردی اوردہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں کا راگ الاپا جاتا ہے، اس راگ میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیا؟ درحقیقت قابل افسوس امر یہ ہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر بھی مسلمان ہوئے اور دنیا بھر میں یہ دہشت گردی کا طوق بھی ہمارے ہی گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔ مرنے والے مسلمان، بدقسمتی سے مارنے والے بھی مسلمان اور پھر دہشت گرد بھی مسلمان۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ویسے بابا ٹرمپ سے یہ بھی پوچھنا بنتا ہے کہ دہشت گردی نے اسلام کب قبول کیا؟ دنیا بھر کے میڈیا سے دہشت گردی کا مشرف بہ اسلام ہونا چھپا کیسا رہ گیا؟ شدت پسندی کسی بھی مذہب میں ہو اس کی مذمت ہونی چاہیے اور اسلام تو سب سے پہلے خیر اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔ دین اسلام میں تو اس مسلمان کو اس وقت تک مومن قرار نہیں دیا جاتا جب تک اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسر ے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔ جو دین بلاوجہ پانی بہانے سے منع کرتا ہے وہ کسی انسان کا خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ کیوں کہ اس دین سلامتی میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا جاتا ہے۔پیٹ میں اٹھنے والا درد کچھ اور ہے جس کا بابا ٹرمپ نے آگے چل کر اظہار بھی کیا اور کہا کہ دوسروں کے دفاع پر امریکہ کے اربوں ڈالر خرچ نہیں کرسکتے۔ کس نے کہا ہے پوری دنیا کا ٹھیکیدار بننے کا؟ اپنے کام سے کام رکھو،دوسروں کے کام میں ٹانگ نہیں اڑائو گے تو خود بھی ایسی حرکات و سکنات سے محفوظ رہو گے۔ ویسے بابا ٹرمپ کو شاید پہلا ایسا امریکی صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے جن کی آمد پر امریکہ سمیت مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
امریکہ بھر میں پانچ سو سے زائد افراد گرفتار ہوئے، ٹرمپ مخالف اور حامی افراد میں جھڑپیں ہوئیں اور صرف واشنگٹن میں 90 افراد گرفتار کئے گئے۔ اطمینان اس بات پہ ہوا کہ اس حوالے سے خوارصرف ہماری ہی قوم نہیں ہے، دنیا کے طاقتور ترین ملک کی عوام بھی ہم سے مختلف نہیں۔ دوسری خوشی اس بات پر بھی ہوئی کہ باباٹرمپ نے سیاستدانوں کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا کہ یہ لوگ صرف باتیں بناتے ہیں کام نہیں کرتے۔ لوجی! ہمارے سیاستدان بیچارے تو ویسے ہی بدنام ہیں، سب سے ترقیافتہ ملک کے سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے تو ان کے مقابلے میں ہمارے سیاستدان تو قدرے بہتر ہی ہیں، عوام کیلئے نہ سہی اپنے اور اپنے خاندان کے لئے تو “بہت کچھ”کرجاتے ہیں۔ایک امریکی نائب صدر جو بائیڈن کی طرح تو نہیں جو اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو کر غربت کا ڈھول پیٹتا رہے، کیا فائدہ امریکی نائب صدر ہونے کا جب وہ اپنے کینسر میں مبتلا بیٹے کا علاج نہیں کروا سکا۔ تو طے یہ پایا کہ ہمارے سیاستدان اس معاملے میں امریکی سیاستدانوں سے بدرجہا بہتر ہیں اور پھر ہمارے سیاستدان اور ان کے اہل خانہ بھی تو اس ملک کے عوام ہی ہیں کوئی باہرسے تو نہیں آئے۔ سو اگر ان کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے تو اسے بھی تو ملک کے وسیع تر مفاد میں ترقی ہی سمجھنی چاہیے نا کہ تنقید کا چشمہ پہن کرہروقت بیچارے سیاستدانوں کے لتے ہی لئے جاتے رہیں۔
باباٹرمپ کی پہلی تقریر پر ہم نے سوچا کہ چاچاٹوپک سے کوئی رائے لے لیں، لیکن اس سے پہلے آپ کو چاچاٹوپک سے متعارف کروائے دیتے ہیں۔ بندوق خان ان کا اصل نام ہے، کس نے اور کیوں رکھا اس بات سے قطع نظر وہ اتنے کٹر پشتون ہیں کہ بچوں کی جانب سے “چاچا ٹوپک” کا نام ملنے پر ناراض ہونے کی بجائے خوش ہوتے ہیں، کئی بارمجھ سے کہہ چکے ہیں کہ شناختی کارڈ میں ان کا نام بندوق خان سے بدل کر ٹوپک خان کروانے میں ان کی مدد کروں۔ بہرحال باباٹرمپ کی صدارت پر چاچاٹوپک سے جب ہم نے پوچھا کہ ٹرمپ کی آمد پاکستان کے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ ؟ تو وہ پہلے تو خوب ہنسے اور پھر کندھے پر لٹکی بندوق ٹھیک کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئے۔ یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ کسی بھی امریکی صدر کا اقتدار میں آنا ہمارے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ دراصل امریکی پالیسیاں کسی کے آنے یا جانے سے نہ تو بدلتی ہیں اور نہ ہی کوئی انفرادی طورپر ان پالیسیوں کو اپنی مرضی سے بدل سکتا ہے۔ رہی بات پاکستان کی تو امریکہ کی مثال اس ساس کی طرح ہے جو کبھی بھی بہو کے لئے ماں بن کر نہیں سوچ سکتی،جب بھی سوچے گی ساس بن کر ہی سوچے گی اور کوئی ساس اپنی بہو کے لئے اچھا نہیں سوچ سکتی۔ لہٰذا جس وقت امریکہ کو ہماری ضرورت پڑے گی وہ ہم سے کام لے گا ،چاہے وہ ہمارے لئے فائدہ مند ہو یا نقصان دہ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ کام اس کے لئے فائدہ مند ضرورہوگا کیوں کہ امریکہ کو اس دنیا میں اگر کسی کا مفاد عزیز ہے تو وہ خود امریکہ ہے، دوسرے نمبر پر اسرائیل کے مفادات اس کے لئے اہم ہیں، لہٰذا ہر نئے آنے والے امریکی صدر کی آمد پر اپنا فائدہ یا نقصان تلاش کرنے کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دو یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔چاچا ٹوپک کی بات میں دم تھا اس لئے لگے ہاتھوں ایک اور سوال بھی داغ دیا۔ ٹرمپ کی ابتدائی تقریر سے کیا اخذ کیا جا سکتا ہے؟چاچاٹوپک نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ دیکھوبھئی! ٹرمپ کی پہلی تقریر میں مجھے تو دو پاکستانی سیاستدانوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے، اس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی طرح سب سے پہلے امریکہ کا نعرے لگایا ہے تو دوسری جانب وہ عمران خان کی طرح تبدیلی کی بھی بات کر رہا ہے۔ سب سے پہلے امریکہ کے اثرات تو بعد میں دکھائی دیں گے۔
البتہ تبدیلی والی جھلکیاں اس کی صدارت کی کرسی سنبھالنے کے ساتھ ہی دکھائی دینے لگی ہیں، سنا ہے امریکہ سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اس کی صدارت کیخلاف شدید مظاہرے ہوئے ہیں، امریکہ میں جھڑپیں، جلائو گھیرائو اور پنجاب پولیس کی طرز پر مظاہرین کیخلاف کریک ڈائون بھی ہوا ہے، اب یہ اگر آغاز ہے تو پھر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔رہی دہشت گردی کو اسلامی دہشت گردی قرار دینے کی بات تو یہ قابل تشویش ضرور ہے،امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ ضرور دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ دہشت گردی ہر مذہب میں حرام ہے اوراسلام تو سب سے بڑا سلامتی کا مذہب ہے ۔لہٰذا دنیا کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے اسے صرف دہشت گردی سمجھنا ہوگا جس کا شکار دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلمان خود ہیں۔

Facebook Comments

عمران یوسف زئی
عمران یوسف زئی کا تعلق بنیادی طور پر ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام سے ہے۔ پشاور میں شعبہ صحافت سے 16 سال سے وابستہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات کے ساتھ وابستگی رہی۔ گزشتہ 8سال سے دنیا نیوز کے ساتھ بحیثیت رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کے لئے بھی ادب تخلیق کررہے ہیں۔دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔پشاور سے بچوں کا اکلوتا رسالہ 'ماہنامہ گلونہ' شائع کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply