• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پارلیمانی نظام کی ناکامی- خواہش یا خبر؟۔۔آصف محمود

پارلیمانی نظام کی ناکامی- خواہش یا خبر؟۔۔آصف محمود

پارلیمانی نظام کی ناکامی یا کامیابی کی بحث نئی نہیں۔ قیام پاکستان کے محض پانچ سال بعد ہی ہم نے یہ طے کر لیا تھا کہ یہ نظام ناکام ہو چکا۔جی ڈبلیو چودھری جیسے صاحبان دانش نے تو پچاس کی دہائی میں پارلیمانی نظام کی ناکامی کے اسباب بھی بیان کرنا شروع کر دیے تھے۔ وہ تو خدا نے خیر کی کہ جی ڈبلیو چودھری کا تعلق پنجاب سے نہیں مشرقی پاکستان سے تھا ورنہ پنجابیوں کی تو خیر نہیں ہونی تھی کہ یہ پہلے دن سے پارلیمانی نظام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔ بات چل ہی نکلی ہے تو یاد رہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی صرف دو سالوں میں چار وزرائے اعظم تبدیل کرنے کا اعزاز بھی مشرقی پاکستان کے عالی جاہ سکندر مرزاصاحب کے حصے میں آیا تھا ۔ موصوف پاکستان کے پہلے آئین کے صدقے پاکستان کے پہلے صدر بنے لیکن پھر پاکستان کے پہلے آئین کو پامال کرنے کا ’’ اعزاز‘‘ بھی سب سے پہلے مشرقی پاکستان کے سکندر مرزا صاحب ہی کو حاصل ہوا جو میر جعفر کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے صاحبزادے اب اپنے جد امجد میر جعفر کے فضائل میں پلاسی ٹو پاکستان لکھ کر فرائض منصبی ادا کر تے پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں پہلا مارشل لاء بھی ایوب خان نے نہیں مشرقی پاکستان کے سکندر مرزا نے ہی لگایا تھا جو اسی مارشل لاء کو سنبھال نہ پائے اور ایوب خان نے انہیں نکال باہر کیا۔ خیر یہ تو حاشیہ تھا ، پھیل گیا ،متن کی طرف واپس آتے ہیں۔ جی ڈبلیو چودھری سفارت کار تھے اورپاکستان کی وزارت خارجہ میں ڈائر یکٹر جنرل رہے اور متحدہ پاکستان کے آخری وزیر برائے مواصلات تھے۔ صاحب کی علمی وجاہت کے کمالات دیکھیے کہ موصوف نے 1958 میں جب ابھی پاکستان میں ڈھنگ سے کوئی پارلیمانی نظام قائم ہی نہیں ہو پایا تھا ، علمی مقالے لکھنے شروع کر دیے کہ ’’ پاکستان میں پارلیمانی نظام کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں‘‘۔علم کی دنیا میں اس سے بڑی درفنطنی شاید ہی کوئی اور ہو۔ پچاس کی دہائی میں لکھے گئے اپنے مقالے ’’ پاکستان میں پارلیمانی نظام کی ناکامی‘‘ میں انہوں نے ابتدائیے میں دو دلائل پیش کیے ہیں۔ پہلی دلیل انہوں نے یہ دی کہ پارلیمانی نظام ہمارے لیے ایک اجنبی نظام ہے اور یہ یہاں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں ( اس وقت تک) پارلیمانی نظام کی عمر صرف 34 برس ہے۔اور کوئی غیر ملکی اور مسلط کردہ نظام اس عرصے میں کیسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ان کے مطابق پارلیمانی نظام کے تحت ہندوستان میں پہلی بار 1924 میں حکومت قائم ہوئی۔اس سے پہلے یہاں کے لوگ کسی پارلیمانی نظام سے واقف نہیں تھے۔یہ برطانیہ کا نظام تھا جو ہمارے لیے سازگار نہ تھا بس مسلط کیا گیا تھا۔ جی ڈبلیو چودھری کے خیال میں کسی ملک کا نظام درآمدات اور برآمدات کی طرح نہیں ہوتا کہ ادھر سے ادھر اسے مسلط کر دیا جائے۔ وہ اپنے موقف کے حق میں لارڈ بالفورڈ کی یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ برطانیہ کا پارلیمانی نظام دنیا کا مشکل ترین نظام ہے اور اسے چلانا آسان نہیں ہے۔جی ڈبلیو چودھری صاحب پارلیمانی نظام کے خلاف اپنے مقدمے میں جو دوسری دلیل پیش کرتے ہیں وہ مشرقی پاکستان ہی سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے آمر سکندر مرزا صاحب کا موقف ہے ۔ وہ ایک طنطنے سے اپنے قاری کو بتاتے ہیں کہ دیکھ لو جناب سکندر مرزا بھی ایسے ہی سوچتے ہیں جیسے میں سوچ رہا ہوں۔یعنی موصوف کو پارلیمانی نظام کے خلاف جو مستند دلیل مل پائی وہ ایک ایسے صاحب کی تھے جو دو سال کے دور صدارت میں چار وزرائے اعظم کا آملیٹ بنا چکے تھے اور اس پر بھی جی نہ بھرا تو بیڈ ٹی میں پورا نظام ہی نوش فرما گئے اور پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا۔ جی ڈبلیو چودھری نے مگر اس نکتے پر قوم کی رہنمائی نہیں فرمائی کہ عالی جاہ گرامی قدر سکندر مرزا صاحب کے خیال میں پارلیمانی نظام تو ناکام ہو گیا لیکن کامیاب نظام کون سا ہے؟ ایک نیم پارلیمانی نظام میں تو صدر محترم دو سال نکال گئے لیکن جب موصوف نے خالص صدارتی نظام کے بعد مارشل لا لگایا تو موصوف دوسری جمعرات تک اقتدار سے نکالے جا چکے تھے۔ اگر آملیٹ بنانا ہی مقصود ہے تو پھر مارشل لاء سب سے اچھا ہے جس نے بارہ دنوں میں اس صدر محترم سے نجات حاصل کر لی جو دو سالوں میں چار وزرائے اعظم نوش فرما چکے تھے ۔ تاہم اگر تھوڑی دیر کے لیے ہم جی ڈبلیو چودھری صاحب کی بات کو مان بھی لیں کہ برصغیر میں پارلیمانی نظام اجنبی ہے جو برطانیہ نے 1924میں یہاں مسلط کیا اور اسی وجہ سے یہاں یہ نظام کامیاب نہیں ہو رہا تو پھر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت میں پھر یہ نظام کیسے چل رہا ہے، وہاں اس نظام کی بساط لپیٹ کر ابھی تک کوئی تجربہ کیوں نہیں کیا جا سکا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ پارلیمانی نظام ہمارے لیے اجنبی ہے تو صدارتی نظام کون سا برصغیر کی پیداوار ہے؟ کیا موہن جوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات میں کہیں یہ لکھا ملا ہے کہ صدارتی نظام یہاں کے لوگوں نے متعارف کرایا تھا، اس لیے یہاں پارلیمانی نظام لانا ، غیر وں کا نظام لانے والی بات ہو گی؟ مسئلہ کچھ اور ہے ا ور اس کا ذکر بھی پچاس ہی کی دہائی میں خالد بن سعید نے کر دیا تھا۔ وہ کوئنز یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رہے اور تاریخ پاکستان پر معتبر ناموں میں سے ایک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب پاکستان بن گیا تو مسلمان اشرافیہ کو احساس ہوا کہ اب وہ ایک الگ ملک میں رہ رہے ہیں جہاں اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ ہندو ان پر غلبہ پا لیں ۔ چنانچہ وہ ایک دوسرے سے الجھنے لگ گئے ۔ان کے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس مضبوط اور طاقتور سیاسی قیادت نہیں تھی۔ طاقت ور قیادت موجود تھی لیکن وہ اپنی طاقت صرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہی۔ خالد بن سعید کے خیال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اپنے کسی اخلاقی اصول کی بجائے مفادات کے کھیل میں الجھ کر رہ گئی۔اور یہاں ہر سیاسی اور علاقائی گروپ دوسرے گروپ کے خلاف کھڑا ہو گیا۔یہ نہ ختم ہونے والی اور بے رحم قسم کی لڑائی تھی جس کا مقصد صرف اقتدار کا حصول تھا۔ان کے خیال میں پاکستانی سیاسی قیادت کی اکثریت کی ترجیحات میں سب سے پہلے اپنی ذات ، پھر اپنا خاندان اور اس کے بعد گروہی اور صوبائی مفادات آتے ہیں اور انہوں نے پاکستان کو کبھی اپنی ترجیح نہیں بنایا ۔خالد بن سعید کے خیال میں جب تک یہ سوچ نہیں بدلتی ، یہاں ہر نظام کا انجام ایک جیسا ہو گا۔ جن خیالات کا اظہار خالد بن سعید نے پچاس کی دہائی میں کیا تھا ، وہ آج بھی حسب حال ہیں۔ سیاسی قیادت آج بھی باہم الجھی ہوئی ہے اوراس کی ترجیحات بھی وہی ہیں ۔اس ساری چاند ماری کا نتیجہ بھی وہی ہے۔اس سوچ کے ساتھ جو نظام بھی آ جائے ، کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply