• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ والا روّیہ ۔۔نصرت جاوید

’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ والا روّیہ ۔۔نصرت جاوید

میرے اور آپ جیسے جاہل وبے اثر پاکستانیوں کو خارجہ امور کی نزاکتیں سکھانے پر مامور کئے ذہن ساز بہت شاداں ہیں۔ سوشل میڈیا پر “41برس” کے عنوان سے ایک ٹرینڈ بھی چلایا گیا۔ مقصد اس کا ہمیں یہ باور کروانا تھا کہ اکتالیس برس کے طویل وقفے کے بعد بالآخر پاکستان اپنے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک عالمی اجتماع منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ تمام اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ افغانستان کو مزید انتشار، خانہ جنگی اور قحط سالی سے بچانے کے لئے او آئی سی کے خصوصی اجلاس جسے ہنگامی بھی کہا سکتا ہے کیلئے جمع ہوئے۔ ہماری دعوت پر باہمی اختلافات بھلاکر مسلم ممالک کا متاثر کن تعداد میں جمع ہوجانا یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ عمران خان صاحب کی قیادت میں اسلام کے نام پر قائم ہوا پاکستان ایک بار پھر مسلم اُمہ کے اجتماعی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ نام نہاد عالمی برادی کو ہمیں اب سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلینے کے بعد ہمارے وزیر اعظم صاحب نے پرچی کے بغیر جو برجستہ خطاب کیا ہے وہ ہفتے کے اجلاس میں بیٹھے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی اکثریت کو دل وجان سے پسند آیا ہوگا۔ مغرب کو ان سے بہتر کوئی اور مسلم رہ نما جانتا نہیں۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ کرکٹ کے سٹار رہے ہیں۔ آکسفورڈ کے ایک کالج میں تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ برطانیہ کی اشرافیہ انہیں سٹار شمار کرتی تھی۔ ان کی دل وجان سے فریفتہ رہی۔ اسی باعث وہ گوری چمڑی اور انگریزی بولنے والوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلم شناخت کے کلیدی نکات بیان کردیتے ہیں۔

عمران خان صاحب کے علاوہ شاید طالبان کا کوئی طاقت ور نمائندہ بھی امریکہ اور یورپ کو سادہ ترین الفاظ میں یہ سمجھا ہی نہ پاتا کہ انسانی حقوق سے جڑے تصورات دنیا کے ہر خطے پر یکساں انداز میں لاگو نہیں کئے جاسکتے۔ دیگر اقوام کو یورپ کے بنائے معیار پر جانچتے ہوئے نام نہاد عالمی برادری کوان ممالک کی تاریخ اور مخصوص ثقافتی روایات کو نظرانداز کردیتی ہے۔ طالبان کو مثال کے طورپر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ افغانستان کی خواتین کو مخلوط تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے دیں۔ انہیں سرکاری دفاتر میں اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے۔ طالبان حکومت میں ان کی مؤثر نمائندگی بھی لازمی ہے۔ یہ سب نہ ہوا تو طالبانی بندوبست کو بطور حکومتِ افغانستان سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

کئی ٹھوس مثالوں سے عمران خان صاحب نے عالمی برادری کو تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ طالبان بنیادی طورپر پشتون ثقافت کے نمائندہ بھی ہیں۔ پشتون مگر افغانستان کے کابل جیسے شہروں ہی میں مقیم نہیں ہیں۔ ان کی اکثریت بلکہ دیہات میں صدیوں سے قیام پذیر ہے اور وہ اپنی خواتین کو تعلیم کے حصول کے لئے گھروں سے باہر نکالنے کو آمادہ نہیں۔ عالمی برادری اس ضمن میں لہٰذا صبر دکھائے۔

پشتون ثقافت کا میں ایک پنجابی ہوتے ہوئے ہرگز ماہر نہیں۔ تاریخ کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے لیکن مجھے گماں ہے کہ خان عبدالغفار خان نامی ایک پشتون قوم پرست رہ نما بھی ہوتے تھے۔ ان کے مداحین عقیدت سے انہیں “بادشاہ خان” پکارتے ہیں۔ وہ پشتون ثقافت پر فخر کرتے ہوئے بھی اس ثقافت کے چندپہلوئوں کی بابت ہمیشہ پریشان رہے۔ بندوق کے بل بوتے پر اپنی سوچ تمام معاشرے پر مسلط کرنا بھی اس ثقافت کا حصہ تصور ہوتا تھا۔ باچہ خان نے مگر عدم تشدد کا پرچار کیا۔ اس باعث ناقدین کے ہاتھوں “سرحدی گاندھی” بھی کہلوائے۔ پشتونوں کا یہ رہ نما خواتین کو بنیادی ہی نہیں اعلیٰ تعلیم دینے کا بھی شدید حامی تھا۔ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے ماضی کے صوبہ سرحد میں بے تحاشہ غیر سرکاری سکول بھی قائم کئے تھے۔ اپنے خاندان کی خواتین کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی۔

خان عبدالغفار خان کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن بنیاد پرست ملا شمار ہوتے ہیں۔ 2002میں لیکن جب ان کی جماعت ماضی کے صوبہ سرحد میں برسراقتدار آئی تو مولانا ذاتی طورپر میری موجودگی میں اسلام آباد میں موجود کئی غیر ملکی سفارت کاروں کو اپنے صوبے میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لئے مختص اداروں کی مالی سرپرستی کو مائل کیا کرتے تھے۔ بذاتِ خود طالبان بھی 20سال تک پھیلی جنگ کے اختتام پر فاتحانہ انداز میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد خواتین کی تعلیم کی بابت فکر مند ہوئے عالمی ادارو ں کے نمائندوں کو بتائے چلے جارہے ہیں کہ انہیں درحقیقت خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر اعتراض نہیں ہے۔ وہ مگر اس ضمن میں مخلوط تعلیمی بندوبست کے حامی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پاس وافر وسائل ہوں جن کے ذریعے ایسے تعلیمی ادارئے قائم ہوسکیں جو محض خواتین کی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص ہوں۔ عمران خان صاحب نے لیکن حسب عادت اگر مگر سے کام نہیں لیا۔ ان کی دانست میں افغان پشتونوں کے دل ودماغ میں کئی نسلوں سے خواتین کی تعلیم کے بارے میں جو تحفظات ہیں انہیں برملا بیان کردیا۔ امید ہے نام نہاد عالمی برادری اب طالبان پر خواتین کے حقوق اور ان کے تعلیم کی بابت خواہ مخواہ کا دبائو نہیں ڈالے گی۔

عمران خان صاحب کو مگر یاد نہیں رہا کہ خواتین کی تعلیم کی بابت فقط پشتونوں ہی کو سوطرح کے تحفظات لاحق نہیں رہے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برصغیر پاک وہندکے مسلمان بہت پریشان تھے۔ 1857کی جنگ آزادی کا ذمہ دار بھی انگریزوں نے مسلمانوں ہی کو ٹھہرایا تھا اور اس جنگ کو غدر پکارا۔ سرسید احمد خان اس کے بارے میں بہت متفکر رہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ زندہ رہنے کے لئے مسلمانوں کے لئے اب لازمی ہوگیا ہے کہ وہ جدید تعلیم بھی حاصل کریں۔ اس کے فروغ کو یقینی بنانے کے لئے انہوں نے علی گڑھ کو اعلیٰ تعلیم کا مرکز بنانے کی تحریک چلائی۔ انہیں قدامت پرست حلقوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے کئی جید علماء نے ان کے خلاف کفر کے فتوے بھی صادر کئے۔ شدید ترین مخالفت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوجانے والے سرسید احمد خان بھی لیکن مرتے دم تک علی گڑھ میں خواتین کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے کو آمادہ نہ ہوئے۔ ا ن کے انتقال کے کئی برس گزرنے کے بعد ہی مسلم خواتین علی گڑھ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے داخل ہوپائی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عرض فقط یہ کرنا ہے کہ ہر ثقافت میں اچھے اور برے پہلو ہوتے ہیں۔ قوموں کی ترقی کے لئے لازمی ہے کہ مثبت پہلوئوں کو مزید آگے بڑھایا جائے اور معاشرتی ترقی کی راہ روکتے خیالا ت کو رد کرنے کی جرأت دکھائی جائے۔”زمین جنبد نہ جنبد گل محمد” والا رویہ قوموں کے کام نہیں آتا۔ ویسے یورپ بھی خواتین کی تعلیم کے لئے ہمیشہ سے آمادہ نہیں تھا۔ وہاں کی خواتین کو بھی تعلیم کا حق حاصل کرنے کے لئے طویل جدوجہد کرنا پڑی تھی جو کم از کم دو سو سال تک جاری رہی۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply