راہبر/سیّد سجاد نقوی

بغیر راہبر کے تنہا چلنے والا انسان اس بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ہوتا ہے جو طاغوتی طاقتوں،خیال باطل ،تشکیک اور وسوسے کی کشمکش میں غرق رہتا ہے۔ایسی زندگی بے معنویت اور اخلاقِ رذیلہ کا شاخسانہ بن جاتی ہے اور یوں انسان مقصدیت اور اپنی منزل سے بے خبر رہتا ہے۔

لیکن اگر زندگی کسی اسوہ حسنہ اور اخلاق حمیدہ جیسے اوصاف رکھنے والے راہبر سے آشنا ہوجائے تو انسان دنیاوی و اخروی دونوں جہاں میں سرخرو ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم نے راہبر کا بہترین نمونہ ہمارے سامنے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت اور سیرت میں رکھا
سورۃ احزاب:

لقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ
ترجمہ : ” بے شک تمھارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے”

راہبر انسان کی زندگی میں اشد ضروری لازمہ ہے جو اسے صراط مستقیم پر قائم رکھتا ہے۔

امام علی (علیہ السلام) علم کا در نہ ہوتے اگر سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا راہبر علم کا شہر موجود نہ ہوتا۔

مولانا روم رح جیسی بلند نگہ شخصیت بھی اگر شمس تبریز رح جیسے راہبر کی مودت میں قربان نہ ہوتی تو مولانا روم ہرگز نہ کہتے کہ

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزے نہ شد

ارسطو،ارسطو نہ ہوتا اگر افلاطون کی شاگردی نہ کرتا اور افلاطون آج عظیم مفکر اور فلسفی نہ کہلاتا اگر اسے سقراط جیسا سچا راہبر میسر نہ آتا جو زہر کا پیالہ نوش کر کے ہمیشہ کے لیے سچائی کی صورت امر ہوگیا۔

ہر ہیرا کسی نہ کسی جوہری (راہبر) کا محتاج ہوتا ہے جو اسے کوئلے سے ہیرے کی شکل دیتا ہے۔بے شک راہبر انسان کی زندگی میں بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ راہنما ہوتے ہیں جن کی باتیں انمول ، بیش قیمتی اور معرفت آمیز ہوتیں ہیں۔ انسانوں کی بستی میں یہ عظیم مفکر انسانی سوچ کی کایا پلٹ دیتے ہیں ، فکر کے زاویے بدل دیتے ہیں اور مثبت تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔راہبر ایسی شمع کی مانند ہوتا ہے جس کی روشنی سے آپ کی تاریک زندگی روشن ہوجاتی ہے۔ راہبر کبھی اپنے پرستار کو مایوس نہیں کرتا۔ یہ وہ بے باک ہستی ہے جو آپ کے اندر سے ڈر ختم کر کے آپ کو بہادر، نڈر اور شجاعت پسند صفات سے روشناس کراتا ہے۔یہی وہ اعلٰی جید شخصیات ہیں جن کے بارے ڈاکٹر اقبال گویا ہوئے کہ

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

انھیں آپ دیکھتے ہی متحرک ہوجاتے ہیں اور نگاہ فوراً مقصد کی جانب منعطف ہوجاتی ہے کیوں کہ یہ مثالی شخصیت کی صورت آپ کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔زندگی ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اپنے مفاد اور خود غرضی کی خاطر آپ کا نقصان کر کے خود کے نفع کا سوچتے ہیں جو کہ انسانیت کی توہین ہے۔
جہاں خود غرضی ،منافق پرستی ،طمع اور ہوسِ مال و متاع کی بُو ہو وہاں سے خدمتِ خلق اور انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔ایسے لوگوں کے پاس لاکھ اچھے راہبر ہوں مگر وہ سب ان کے لیے بے سود ثابت ہوتے ہیں۔کیوں کہ ایسے دلوں پر گمراہی کے تالے پڑے ہوتے ہیں۔وہ چراغ سے روشنی نہیں چاہتے اور ابو جہل کے لقب سے شہرت پاتے ہیں۔
انسانی حیات میں بہت کم ایسے فرشتہ صفت عزیز ہوتے ہیں جو آپ کی اصلاح اور آپ کا بھلا چاہتے ہیں۔ یقیناً وہ مفاد پرست نہیں ہوتے اور صرف آپ کی خوشی کا خیال رکھنا اور آپ کو کامیابی کے منار پر دیکھنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔یہ راہبر یا راہنما آپ کے استاد ،والدین اور شخصیت پرستی سے ہٹ کر وہ لوگ ہیں جن سے آپ بےحد متاثر ہوتے ہیں۔مزید براں آپ کے مزاج میں ان کی تمام نہیں تو کچھ خصوصیات یا وہ خوبیاں ضرور جلوہ گر ہوتی ہیں جو آپ کے دل کو بہت بھلی لگتی ہیں۔جو لوگ اپنے محسنوں یا راہبروں کے احسانات کو فراموش کرتے ہیں، ان کی عزت و تکریم پر آنچ کا سبب بنتے ہیں،قدرت ان کو فراموش کردیتی ہے اور پھر یہ بے ادب آلودہ گرد کی مانند ناکامی کی فضا میں بھٹکتے رہتے ہیں۔لیکن اپنے محسنوں اور راہبروں کی قدر آپ کو قدر و منزلت عطا کرتی ہے۔ پھر مستقبل میں ایسے قدردان لوگ ارسطو،افلاطون، رومی، رازی اور اقبال جیسے ستارے بن کر کامیابی کے افق پر پوری آب و تاب سے چمکتے نظر آتے ہیں جن کی فکر اور تخیل سے اہلِ زمانہ ہر لمحہ فیض یاب ہو رہا ہوتا ہے۔بے شک راہنما یا راہبر کی تھپکی ایک عظیم حوصلہ اور امیدِ کرن ہے۔ان کی شانِ اقدس میں ادب بجا لانا انسانی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply