16 دسمبر کا سبق۔۔محمد وقاص رشید

ہائے  16 دسمبر۔۔ ہائے ہائے  16 دسمبر۔۔ میرے دل سے بھی دیگر ہم وطنوں کی طرح دو بار ہائے کی سسکیاں اس لیے نکلیں  کہ آج کے دن میری ملت کے چہرے پر دو گہرے زخم لگائے گئے۔آج کے دن سے جڑے دونوں گہرے زخم ایک ہی آلے سے لگائے گئے ہیں۔آج کے دن 1971 میں یہ ہمارا پیارا ملک دو ٹکڑے ہوا  اور آج ہی کے دن 2014 میں پوری پاکستانی قوم کا دل اے پی ایس سکول پشاور میں ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا،زخموں کے یہ گہرے نشان ہر سال آج کے دن تازہ ہو جاتے ہیں اور ان سے لہو رسنے لگتا ہے۔ان زخموں سے اٹھنے والی ٹیسیں بحیثیت قوم ہمیں کیا پیغام دیتی ہیں۔؟ پیچھے چلتے ہیں۔۔

خدا ایک عظیم ترین تخلیق کار ہے جس نے یہ کائنات بنائی۔ اگر اس کائنات اور انسان کی تخلیق کے باہمی تعلق پر ہی غور کر لیا جائے تو انسان اپنی حیات کا مقصد متعین کر سکتا ہے۔ خالقِ کائنات نے زمین و آسمان کے محور کے گرد گھومتا یہ نظام تخلیق کیا۔اس کائنات کے ہر ایک جزو میں ایک الگ کُل ہے، ایک الگ کائنات۔۔۔ خدا نے انسان کو تخلیق کیوں کیا؟کیونکہ خدا یہ چاہتا تھا کہ اسکے ان کائناتی اسرارو رموز تک کوئی پہنچے ،ہر جزو میں سے کل کوئی تلاش کرے۔اس کُل کے ذریعے خالقِ کُل تلک کوئی پہنچے،خدا نے اس مقصد کےلیے انسان کو بحیثیت اپنے نائب ،اپنے خلیفہ کے تخلیق کیا تو اسے عقل عطا کی،تو گویا کائنات کے جزو و کُل کے ذریعے خدا تلک رسائی اس عقل ہی سے ممکن ہے۔خدا نے انسان کی سرشت میں اس کائنات کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھ دی اور اس کے بعد انسان پر چھوڑ دیا۔

ذرا توقف۔۔ علم کے راستے پر عقل کا استعمال خدا کی معرفت ہے، تو خدا کی معرفت ہی تو دین ہے، اسکا مطلب خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق علم کی راہ پر چلتے ہوئے عقل کا سفر ہی خدا کا دین ہے۔
انسان نے اس دین کو جنابِ آدم علیہ السلام سے شروع کر کے لاکھوں ہا انبیاء کے ارتقائی سفر سے گزار کر جناب محمد رسول اللہﷺ پر اختتام پذیر کیا۔ ہم نے جب عقل کی دعوت دیتی خدا کی کتاب کو پڑھا تو ہمیں پتا چلا کہ خدا نے ہماری ایک بہت بڑی مشکل آسان کر دی اور ہمیں اسلامی ریاستوں میں حکومت سازی “وامروھم شوری بینہم” یعنی باہمی مشاورت کے ذریعے قائم کرنے کی راہ دکھائی ہے۔

سو مندرجہ بلا تمہید سے اگر نتیجہ نکالا جائے تو وہ یہ بنتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں یہ فیصلہ کیا کہ انہیں علم کے راستے پر عقل کے استعمال کے لیے ایک علیحدہ جمہوری ریاست درکار ہے۔اسکے لیے مسلمانوں کی جدوجہد رنگ لائی اور پاکستان بن گیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جتنے اخلاصِ نیت سے عام لوگوں نے اس دیس کے لیے جانوں کے نذرانے تک پیش کیے۔ اگر “خاص لوگ” بھی اس مقصد کے لیے اتنے ہی مخلص ہوتے تو پاکستان عالمِ اسلام کیا پورے جہان میں ایک قابلِ تقلید مثال ہوتا لیکن عوام کے خون کو اپنے چولہوں کا ایندھن بنانے والوں نے پاکستان کی بنیاد ہی میں آمرانہ ہتھکنڈوں اور سازشی ریشہ دوانیوں سے وہ بیج بو دیے کہ جسکی فصل ہم نے آج کے دن کاٹی۔۔

انسان اگر سوچے تو اسکی سرشت ایک اعتراف سے جڑی ہوئی ہے “ربنا ظلمنا انفسانا” اسے اگر اوپر بیان کردہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو۔۔ انسان نے یہ سارا ارتقائی سفر اسی اعتراف کے بل بوتے پر کیا ہے۔ انسان غلطیاں کرتا رہا ان سے سیکھتا رہا۔ دنیا کے جدید نقشے میں وہ قومیں اور ان میں بسنے والے انسان اس ازلی حیاتیاتی مقصد کے زیادہ قریب نظر آتے ہیں جو انسان کا جنہوں نے اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے جزو میں سے کُل کی وہ کائناتیں دریافت کر لیں جو خدا چاہتا تھا، مثال کے طور پر اگر آپ مندرجہ بالا اسلام اور اسکی بیان کردہ جمہوریت کے نظامِ حکومت سے اتفاق کرتے ہیں تو یہ دیکھ لیں ہم جن ملکوں کی طرف رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں وہاں جمہوری نظامِ حکومت قائم ہے۔

پاکستان کے بنتے ہی انفرادی و ذاتی مفادات کے رسیا مسندوں پر ہم نشیں ہو گئے اور ملک کی ریل کو جمہوری پٹڑی پر چڑھنے ہی نہیں دیا۔اپنی تاریخ پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ کس طرح شروع ہی سے طاقتور افراد نے ملک کا ایک آئین ہی نہ تشکیل پانے دیا تا کہ انہیں من مرضی کرنے کا موقع ملے۔آپ اندازہ لگائیے کہ کروڑوں افراد کی ایک قوم کی بے وقعتی کا کیا عالم ہو گا جب ایک فوجی جرنیل جنرل ایوب خان ملک بنتے ہی اسے توڑنے اور مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا سوچتا ہے۔ 1971 تو بہت بعد میں آیا۔

قوموں کی زندگی کا اصول ہوتا ہے کہ “لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی “۔پاکستان کے آغاز میں ہی لمحوں نے وہ خطا کی کہ پون صدی سے قوم اسی کی سزا بھگت رہی ہے اور وہ خطا تھی اقتدار کو منتخب نمائندوں تک نہ پہنچنے دینے کی۔1970 میں انتخابات پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات ہوئے اور وہ نفرت ،رعونت اور احساسِ برتری جس نے پاکستان بننے کے فورا ً بعد ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس نے بنگال یعنی مشرقی پاکستان کی اکثریت حاصل کر لینے والی جماعت کومعاہدےکی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیااور عوامی رائے کو عوام ہی کی دی ہوئی بندوق سے دبانے کے لیے فوج کشی کر دی۔ ظلم و ستم کی وہ داستان رقم کی گئی جو حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے ایک ایک صفحے پر ماتم کناں ہے۔ جسکے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور مشرقی پاکستان وہ بنگلہ دیش بن گیا جنہوں نے حال ہی میں اپنی آزادی کو افسوس کہ پاکستان سے بہتر معاشی اعدادو شمار کے ساتھ منایا۔۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھی جس اولولعزمی کا مظاہرہ بنگال کے بنگلہ دیش بننے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیا ۔۔۔ اگر پہلے کرتے اور موقع پرستی اور خود کو اقتدار میں ناگزیر سمجھنے کی سیاستدانی خو کی بجائے ایک دور اندیش قومی رہنما بن کر سوچتے تو شاید پاکستان اور وہ دونوں بچ جاتے۔
طالبِ علم نے اوپر لکھا کہ انسان نے حیات کا ارتقائی سفر “ربنا ظلمناانفسنا” کی فلاسفی پر ہی کیا، یعنی وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا رہا۔ پرانے نظام اپنے سقم لیے دفن ہوتے رہے اور ان سے نئے بہتر نظام جنم لیتے رہے۔۔۔ بادشاہت و ملوکیت کی جگہ جمہوریت نے لی ہی اس لیے تھی مگر افسوس کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔

جناب عاصم اللہ بخش نے لکھا کہ جمہوریت کیوں ضروری ہے۔اس بات کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر مارشل لاء کے بعد خصوصی انتظامات کر کے بھی جمہوریت کو بحال کرنا پڑا تو کیا گیا۔لیکن میں اس میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اگر مارشل لاءز کے بعد بھی کنٹرولڈ جمہوریت کی بجائے آئین کے تحت مکمل خود مختار جمہوریت کو ہی آنے اور پھلنے پھولنے دیا جاتا تو آج وطنِ عزیز میں تعبیر کا منظر نامہ پاکستان کے خواب سے متضاد نہ ہوتا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

16 دسمبر 1971 کو پاکستان ٹوٹنے کی وجہ وہ حالات بنے جن کی بنیاد اس سے پہلے کے نہ جانے کتنے 16 دسمبروں میں رکھی گئی۔۔۔۔کاش کہ 16دسمبر 1971 کے بعد ہم نے کوئی سبق سیکھا ہوتا۔۔۔۔۔یحییٰ خان کا ملک توڑ مارشل لاء آخری مارشل لاء ثابت ہوتا۔ 90دن کے بعد الیکشن کروانے آنے والے مردِ مومن مردِ حق جنرل ضیاءالحق 11 سال تک ملک میں کلاشنکوفی اسلام کے بیج بو کر 16دسمبر 2014 کے بد بخت اور سیاہ ترین دن کی بنیاد نہ رکھتے۔جب لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں آنکھوں کے آگے اندھیرا نہیں سرخی آتی ہے۔۔ سرخی ان معصوم بچوں کے خون کی جنہیں اے پی ایس پشاور میں حیوانیت و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے بے دردی سے مار دیا گیا۔۔سچ کہوں تو اسطرح کی جملے بازی سے بھی بے حسی کی بو آتی ہے جو محض جذباتی دکھاوے کے لیے ان بچوں کی بہیمانہ موت کو قربانی میں ملفوف کرے کیونکہ اس قوم کو ویسے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سوچنا چاہئے کہ جو اپنے بچوں کو زندگی دینے کی بجائے ان سے قربانی مانگے  اور دوسرا قربانی کے تقدس کی دھند میں ذمہ داروں کے چہرے بھی تو چھپائے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پچھلے دنوں ٹی وی پر اکثر نظر آنے والے ایک دفاعی تجزیہ کار (گو کہ یہ اصطلاح طالب علم کی سمجھ سے بالاتر ہے۔۔کیونکہ ایسے تجزیہ کار دفاع کے سوا ہر چیز پر بات کرتے پائے جاتے ہیں ) نے کہا تمام مارشل لاءز غلط تھے۔قابلِ مذمت تھے۔کاش اے کاش کہ قوم مل کر اس سوچ کو عملی جامہ بھی پہناسکے۔۔
اس کا آغاز 16دسمبر کی طرح دوسرے سیاہ دنوں کے آئینے میں۔ یہ آئینے توڑنے کی بجائے اپنی صورت درست کرنے سے کرنی چاہیے۔ آج پیارے پاکستان میں کہیں بلوچستان کو حق دو تحریک چل رہی ہے تو کہیں اپنے ہی پتے پر لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین سڑکوں پر ماتم کناں ہیں  تو کہیں خود حکمران جماعت کے لوگوں سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی ضمانتوں کا سوال ہوتا ہے تو وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ “محکمہ زراعت ” سے پوچھیں اور اسکا آغاز اس آمرانہ سوچ کے خاتمے سے کیا جانا چاہیے جو ہر آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کرنے والے کو غدار کہے۔ جو سال ہا سال کسی 16دسمبر آنے سے قبل سینہ کوبی کرتا رہے کہ ہم کسی سانحے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور پھر کوئی 16دسمبر ہو جائے۔۔۔۔
آخر میں ایک چھوٹی سی نظم “16 دسمبر کا سبق” ۔۔۔
(سقوطِ ڈھاکہ کے نام)
آج کے دن اس دھرتی پر
سانحہ یہ بد بخت ہوا تھا
ملت یہ تقسیم ہوئی تھی
پیاراوطن دو لخت ہوا تھا
جبر و استبداد کے ہاتھوں
قوم کی حالت پست ہوئی تھی
اپنی ہی بندوق وطن میں
اپنوں پر بد مست ہوئی تھی
اک آمر نے دھرتی کے
لوگوں کا حق لوٹا تھا
صد افسوس کہ پاکستان
آج کے دن ہی ٹوٹا تھا
ذائقہ اس تاریخ کااپنی
کاش نہ اتنا تیکھا ہوتا
آج کے دن سے ہم نے لوگو
کوئی سبق تو سیکھا ہوتا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply