عزت اور شہرت۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

لغت میں ہم مترادفات و متضادات تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن انسانوں کی طرح ہر لفظ یکتا و منفرد ہے۔ انسان کی طرح کوئی لفظ کسی کا ہم شکل نہیں ہوتا ، اس لیے ہم معنی بھی نہیں ہوتا ہے۔ انسان کی طرح ہر لفظ بھی ایک الگ جذبے اور احساس کی نمائند گی کرتا ہے۔ اُنسیت ، دوستی، اُلفت، محبت اور پھر عشق ایسے الفاظ کو ہم عام طور مترادفات کے طور پر بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں ٗلیکن خدا گواہ ہے‘ ہر لفظ ایک الگ جہان کی خبر دیتا ہے۔ راہِ عشق کے مسافروں سے اس بابت پوچھیں تووہ کسی وضاحت کے بغیر حیرت میں گم ہیں، مسکرا دیں گے یا پھر لفظوں اور جذبوں کی ایسی ناشناسی پر رو پڑتے ہیں۔ انسان فطری طور پر نرگسیت پسند واقع ہوا ہے‘ وہ اپنے احساس کے لیے ہمیشہ بلند آہنگ لفظ کا انتخاب کرتا ہے اور پھر باقی تمام عمر اُس کی وضاحت میں گزار دیتا ہے۔ ہمیں کسی کے ساتھ معمولی سی اْنسیت بھی ہو‘ تو ٹھک سے اور دھک سے اپنے نوزائیدہ جذبے کیلئے عشق و محبت سے کم کسی لفظ کا انتخاب نہیں کرتے۔

وزیراعظم صاحب کافروں سے ہی کچھ سیکھ لیں۔۔عبدالستار
یہی حال عزت اور شہرت ایسے الفاظ کا ہے۔ یہ ہم معنی ہیں‘ نہ ہم مرتبہ و ہم مآل! شہرت کا تعلق ظاہر سے ہے اور عزت کا تعلق باطنی نظام سے ہے۔ شہرت کی چکا چوند اَسباب کی محتاج ہے اور اَسباب ایندھن سرد ہوتے ہی شہرت کا ستارہ غروب ہو جاتا ہے۔ شہرت بے تعلق ہوتی ہے، عزت تعلق والوں کے ہاں ملتی ہے۔ کسی صلاحیت یا کسی خیر کے کام کے صلے میں شہرت ایک خیرات کے طور پر بھی میسر آ جاتی ہے، جبکہ عزت سرتاپا خیر ہے ! اس کا اوّل و آخر خیر ہے ،شہرت میں شر کا پہلو بھی برآمد ہو سکتا ہے، عزت ہمیشہ خیر کا پیغام لے کر آتی ہے۔ شہرت میں مقابلہ ہے، مجادلہ ہے اور انجامِ کار مقاتلہ ہے۔ شہرت میں نمبر وَن اور ٹاپ ٹین کی جگہ پانے کے لیے ہمہ وقت مسابقت ہے، شہرت کے پوڈیم پر جگہ بنانے کے لیے سیاست اور دولت کا بے دریغ استعمال ہے۔ عزت کے مقامات کیلئے کوئی مقابلہ نہیں۔ عزت تو ایک عطا ہے، رب العزت کی خاص مہربانی اور فضل ہے۔ شہرت ناقابلِ اعتبار ہے ، ناپائیدار ہے ـــ ناپید ہو جاتی ہے۔ شہرت کا کچھ بھروسہ نہیں‘ کب گمنامی کا گھاس پھونس بن جائے اور کب عبرت بن کر ٹھہر جائے۔ عزت پائیدار ہے، قابلِ اعتبار ہے، معتبر ترین اثاثہ ہے ـــ عزت والوں کے ہاں قابلِ پذیرائی ہے۔ عزت میں ہمیشگی کا پہلو ہمیشہ نمایاں ہوتا ہے۔ شہرت شہر میں شہرہ چاہتی ہے۔عزت ـــ تھل ، بن اور بیلے میں سکون کے آسن  پر مسرور ہے!

عزت کا تعلق دل کی دنیا سے ہے‘جہاں کسی کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔سچ پوچھیں‘ تو عزت کسی کمال کی محتاج نہیں، وہ عزت پہلے دیتا ہے اور کمال بعد میں عطا کرتا ہے۔ عالم ِ اَسباب میں یہ بلاسبب میسر آنے والی نعمت ہے۔عزت کا تعلق دولت سے ہے ‘ نہ حکومت سے اور نہ کسی منصب و صلاحیت سے! عزت کا تعلق   جس حکومت سے ہےٗ وہ دلوں پر حکومت ہے۔ سب سے بڑی معزولی تو دِلوں سے معزول ہونا ہے۔ رب العزت کی طرف سے دی گئی عزت پر معترض لوگوں کے دلوں سے معزول کر دیا جاتا ہے۔

عزت تو ایک اَمر ہے ‘ جو دِلوں پر نافذ ہوجاتا ہے۔ مخلوقِ خدا کو حکم ہوتا ہے کہ اِس بندے کی عزت کی جائے، یہ آسمانی حکم نامہ ایک غیر محسوس طریق پر مخلوق کے دلوں میں راتوں رات بھیج دیا جاتا ہے۔ ہو نہ ہو‘ یہ ولایت ہی کی کوئی قسم ہو! خدائی رازوں میں ایک راز ہے ‘ جس کانام عزت ہے،عزت اتنا بڑا راز ہے کہ وہ ذات اپنی عزت کی قسم کھاتی ہے۔

جو تیری چاہت ہے۔۔سید مہدی بخاری
عزت نعمت نہیں ٗ بلکہ انعام ہے۔ نعمت کی پوچھ گچھ ہوتی ہے ، اس کا حساب ہوتا ہے ـــانعام بے حساب ہوتا ہے۔اپنے خاص بندوں کو عطا کردہ عزت کا یہ انعام اور پیغام کسی وائرلیس سگنل کی طرح مخلوقِ خدا کے دلوں میں پہنچ جاتا ہے، لیکن ہر دل یہ سگنل موصول نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے خاص بندوں کی عزت اپنے خاص بندوں ہی کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ وہ ـــ اپنوں کو اپنے غیر سے متعارف نہیں ہونے دیتا ہے، اور نہ کسی غیر ہی کو اپنوں کا عارف بناتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص بندوں کی عزت اپنے مختص شدہ دلوں میں القا کرتا ہے۔ عزت شہرت کی طرح شاہراہِ عام نہیں۔عزت وہ راستہ ہے جو صرف ایک مخصوص گھر کو جاتا ہے۔اس گھر کی نسبت‘ نسبت والوں کوخوب معلوم ہے!

عالمِ اسباب میں صبح و شام بسر کرنے والوں کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کوئی واقعہ بلاسبب کیسے رونما ہو سکتا ہے۔ انسان کی خوئے عقل ہر بات کی توجیہہ چاہتی ہے۔ یہ ٗوہ راز ہے ‘ جو تسلیم کو تحقیق سے جدا کرتا ہے۔ تحقیق کسی سبب کے نتیجے یا کسی نتیجے کے سبب تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ تحقیق کا دائرہ عالمِ صفات ہے ــ یہی شش جہات ہے۔ عزت کا راز تسلیم والوں پر کھلتا ہے۔تسلیم کا انتساب ـــذات اور فقط ذات ہے۔ اُس کا کوئی نام بھی ہو ‘ خوئے تسلیم ہر نام سے اُسی ایک ذات تک پہنچتی ہے، ہر صفاتی نام اسے ذاتی تعارف تک ہی لے کر جاتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں ـــ اور وہ کہہ سکتے ہیں ـــ اللہ ذات ہے اور بندہ مظہر ِصفات ـــاگر مظہرِ صفات ٗذات تک نہ لے کر جائے تو کہانی راستے میں اْلجھ کر رہ جاتی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں:
آدم کے کسی روپ کی توہین نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر

تسلیم انسان کو ذات آشنا کرتی ہے ، مزاج آشنا کرتی ہے بلکہ مشیت آشنا کرتی ہے۔ وہ ذات جس کو چاہےـــ
نوازے۔ اَسباب و نتائج کی کڑیاں جوڑنے والے سر جوڑ کر بیٹھے رہیں‘ کس کو کیا سے کیا کردیا اور ـــ کیوں کر دیا؟ فضل ، رحمت ، شفا اور شفاعت استثنیات میں سے ہیں ـــیہ آسمانی حقیقتیں ٗقاعدے کلیے اور عقل کے نصاب میں شامل نہیں!

بر سبیلِ تذکرہ‘ برادرم محمد یوسف واصفی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اِس آیت کی تلاوت کے دوران میں معانی کی تفہیم میں الجھ گئےـ’’ وتعز من تشاء و تذل من تشاء‘‘(وہ جسے چاہتا ہےٗ عزت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہےٗ ذلت دیتا ہے)۔کہتے ‘ میرا ذہن اِس بات میں اُلجھ گیا کہ عزت اور ذلت کا آخر کوئی سبب ہونا چاہیے ۔ یہ بات دل کو لگتی ہے لیکن عقل کیلئے یہ تسلیم کرنا دشوار ہے کہ بغیر ’’میرٹ‘‘ کے عزت اور بغیر کسی’’جرم‘‘ کے ذلت؟ چہ معنی دارد؟؟ کہتے ہیں‘ اگلے ہی دن اِس کا مفہوم روزِ روشن کی طرح مجھ پر عیاں ہو گیا۔ اِن دنوں ایک فارما کمپنی چلا رہا تھا ٗ اُن کی چند ادویات کی سپلائی جناح ہسپتال کی فارمیسی میں ہوتی تھی، ایک دن دفتر جاتے ہوئے ‘ جناح ہسپتال کے قریب سے گزراٗ تو خیال آیا کہ آج ادھر سپلائی ہے، دفتر جا کر کسی ملازم کو بھیجوں گا‘ انجیکشن کا کارٹن گاڑی میں موجود ہے‘ کیوں نہ خود ہی فارمیسی میں پہنچا دوں ۔ چنانچہ میں نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور ٹیکوں کا کارٹن اٹھا لیا، کارٹن کے اوپر رکھے ہوئے چند ٹیکے اس خیال سے اپنی پینٹ کی جیب میں اڑس لیے کہ راستے میں کہیں گر نہ پڑیں۔ فارمیسی پر موجود سیلز  مین مجھ سے ناواقف تھے، میں نے اپنا تعارف نہ کروایا بلکہ اپنی کمپنی کا نام بتایا اور کہا کہ یہ سٹاک وصول کرلو اور رسید دے دو۔ سیل مین نے ٹیکوں کی گنتی کرنے کے بعد میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ چار ٹیکے کم ہیں، اچانک مجھے خیال آیا‘ وہ تومیری جیب میں ہیں، میں نے ہڑ بڑا کر جیب ٹٹولی اور کاؤنٹر پر ٹیکے رکھ دیے، یہ دیکھ کر سیل مین نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلا لیا اور لگا بے عزتی کرنے، اِن سب لڑکوں نے مجھے کھڑے کھڑے چور بنا دیا، اب شرم کے مارے میں یہ بھی نہ بتا پاؤں کہ میں اس کمپنی کا مالک ہوں‘ مجھے اپنا ہی سامان چوری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگلے دن میرا ملازم مجھے ہنس ہنس کر بتا رہا تھا ٗ سر! وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ تمہاری کمپنی سے کل ایک نیا بندہ آیا تھا، وہ چور ہے‘ پکا چور! کل ہم نے اس کی جیب سے ٹیکے نکلوائے۔ یوسف صاحب کہتے ہیں کہ اس دن مجھے یقین آگیا کہ کم از کم ذِلت تو بغیر کسی وجہ کے بھی مل سکتی ہے۔ درحقیقت عزت بھی بغیر وجہ کے میسر آتی ہے۔ یہ مالکِ کائنات کا اِذن ہے‘ جو کسی سبب کا محتاج نہیں۔ اَسباب اَمر کے محتاج ہوتے ہیں، اَمر کو اَسباب کی احتیاج نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہزارہ نسل کشی پر مکالمہ۔۔ذوالفقار علی زلفی
قرآن کریم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے’’ اگر کوئی عزت کا طالب ہے تو جان لے کہ تمام کی تمام عزت اللہ اور اس کے رسولؐ کیلئے ہے‘‘ رب العزت نے اپنی بے پایاں رحمت اور محبت کی طرح اپنی عزت کا مرکز و محور بھی بلاشرکت ِ غیرے اپنے حبیبﷺ کی ذاتِ بابرکات ہی کو ٹھہرایا ہے۔ جو اِس ذاتؐ کے قریب ْ وہ عزت کے قریب! جو اِ ِ س ذاتؐ سے دُور‘ وہ عزت کے ہر مفہوم سے دُور!

Facebook Comments