عامر لیاقت اور بڑے بول۔منصور ندیم

سیاست ہو یا مذہب یا سماجی مسائل، کسی بھی حوالے سے اگر کسی بھی معاملے کی حمایت و مخالفت پر بیک وقت رائے دینے پر اگر پاکستان میں نگاہ ڈالی جائے  تو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا خاکہ ہی ذہن میں آتا ہے۔عامر لیاقت حسین جس تیزی سے سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں ، ویسے ہی انہیں مذہبی مکتبہ فکر بدلنے پر بھی ملکہ حاصل ہے، الیکٹرونک میڈیا پر ریٹنگ کی دوڑ میں جو شعبدے بازیاں عامر لیاقت نے متعارف کروائیں، وہ شاید الیکٹرونک میڈیا میں کسی کے حصے میں نہیں آئی، گیم شو میں جوکر کا کردار ہو یا علماء کے مابین مسلکی اختلافات کے مباحث، مارننگ شوز سے لے کر سیاسی تجزیہ نگاری تک ہر فن مولا ہیں۔ان کی تھالی  کے بینگن جیسی فطرت کے باعث عوام میں شدید ناپسندیدگی کے باوجود لوگ انہیں دیکھنا ضرور چاہتے ہیں، اور اسی لیے یہ ہر چینل کے لیے پسندیدہ فرد ضرور ہیں۔

موصوف اپنی ذات میں ایک ایسی ہمہ گیریت رکھتے ہیں کہ کسی بھی چینل پر پورے دن کے دورانیے کا کوئی بھی پروگرام بخوبی کرسکتے ہیں۔  سچ کو جھوٹ ثابت کرنا ہو یا جھوٹ کو سچ یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ چونکہ فطرت میں ٹہراؤ  نہیں ہے، اس لیے موصوف نے سیاسی جماعتوں سے وابستگی تبدیل کرنے کے ساتھ مذہبی مسلک اور   میڈیا  چینلز  بھی تیزی سے تبدیل کرتے رہتے ہیں اور اپنی شعلہ بیانی اور متنازعہ بیانات اور شدت پسندی  کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں بھی رہتے ہیں۔ گزشتہ چھ مہینوں سے ریاست کے ایک مضبوط ادارے کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے تھے، پھر یکایک بیزاری ہوئی اور یہ جاننے کے بعد کہ انہوں نے اخلاقیات کی تمام قدروں کو پامال  کردیا  ہے، اب جان چھڑانے  کے لیے  موصوف نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان تو کردیا، لیکن ان کی تحریک انصاف کی پوسٹنگ روک دی گئی۔

  اس تکلیف نے موصوف کے اندر ایک کڑھن پیدا کردی اور اندر ہی اندر  پک پک کر آخر کار  لاوا  باہر  آ ہی گیا اور گزشتہ روز سے بول چینل نیوز اور عامر لیاقت کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کا ایک سلسلہ شروع ہو ہے ،عامر لیاقت ایک طرف تو اپنے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب بول ٹی وی کی جانب سے ان کے سوشل میڈیا پر آکر استعفی ٰ دینے کو غیر مناسب کہا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے بول چھوڑنے کا اعلان بذریعہ ٹوئٹر کیاہے۔ عامر لیاقت حسین نے اپنے ویڈیو پیغام میں کافی الزامات بھی لگائے ہیں اور یہ کہا ہے کہ بو ل کی جانب سے دی گئی تمام گاڑیاں واپس کر دیں ہیں تاہم ان کی ایک گاڑی اب بھی میرے پاس ہے اور وہ جب  میرے واجبات ادا کریں گے تو ہی گاڑی واپس ملے گی ،اس لیے بول چینل ان کے واجبات دیں اور گاڑی لے جائیں ۔

عامر لیاقت حسین کا کہناہے کہ اس کے علاوہ بول چینل  کی کوئی چیز بھی میرے پاس نہیں ہے ،انہوں نے   بول ٹی وی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی بول ٹی وی کا موقف بھی سامنے آ گیا جس میں عامر لیاقت کے رویے کو غیر ذمہ دارانہ اور نان پروفیشنل قرار دیا گیا تاہم ایک بار پھر عامر لیاقت میدان میں آ گئے ہیں اور بول کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کو غلط اور بے بنیاد قرار دے دیاہے ۔عامر لیاقت نے ٹویٹر پر ویڈیو پیغام جاری کیاہے جس میں ان کا کہناتھا کہ” میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ٹویٹ کیا کہ میں نے بول چینل  چھوڑ دیاہے تو بول  چینل نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں بات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیاکہ میں نے غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیاہے ،میں اپنے بول  چینل کے تمام پرانے اور سابق ساتھیوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ انہیں سب پتہ تھا اور انہیں پہلے سے بتا دیا گیا تھا ،جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔

۔عامر لیاقت  کے بقول ، “بول  چینل نے کہا کہ یہ پروفیشنل رویہ نہیں ہے ،پروفیشنل رویہ پروفیشنل ادارے میں ہی اچھا لگتاہے ،میں نے پروفیشنلی بھی ان کو بتا دیا تھا ،میں نہیں چاہتا کہ پنڈورا باکس کھلے اور بہت ساری باتیں کہی  جائیں کیونکہ جب بات نکلے گی تو بہت دور تک جائے گی ۔”  عامر لیاقت کا اپنے ویڈیو پیغام میں یہ بھی  کہناتھا کہ”ایسے نہیں چلے گا”پروگرام میں ہی کرتا تھا ، اورمیں ان تمام شخصیات کا نام لیے بغیر ان سے معافی مانگتاہوں جن کی دل آزاری اس پروگرا م کے ذریعے ہوئی ،ہوسکے تو مجھے معاف کر دیں کیونکہ یہ انتظامیہ کی پالیسی تھی جبکہ میں ایک نرم دل آدمی ہوں ،جو چیزیں مجھ سے کہلوائیں گئیں میں نے کہہ دیں ،بول کی پریس ریلیز غلط ہے” ۔

عامر لیاقت حسین کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر استعفے کے اعلان کے بعد  بول چینل انتظامیہ نے عامر لیاقت کے  اس رویے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔  بول چینل کے مطابق عامر لیاقت کا یہ رویہ غیر روایتی اور غیرسنجیدہ ہے۔ بول  چینل پر ان کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں ،تاہم بول انتظامیہ ان کے اس رویے کے باوجود ان کے بہتر مستقبل کے لیے دعا گو ہے۔ عامر لیاقت حسین کے الزامات کو انتظامیہ یکسر مسترد کرتی ہے اور مستقبل میں بھی پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں اپنا غیر جانبدارانہ اور پروفیشنل انداز جاری رکھے گی۔

خیر کون نہیں جانتا کہ بول چینل جو اپنی ابتداء  سے ہی کتنا متضاد رہا ہے ۔ اور شاید  یہ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کہ بول چینل کس کا  نمائندہ ہے، اب انہیں اپنی روایت برقرار رکھنے کےلیے ایک اور عامر لیاقت ہی ڈھونڈنا پڑے گا۔رہی بات عامر لیاقت کی تو ماضی کی بے شمار قلابازیاں اور سیاسی، مذہبی وسماجی وابستگیاں اس کی حیثیت کو  نہ صرف متضاد  قرار دے چکی ہیں بلکہ ہر حلقہ فکر نے اس کی قبولیت کو بھی رد کر دیا ہے، اس کی حیثیت ایک ابن الوقت، نفس پرست اور مداری کی سی ہے اور اب وہ بول چینل کے خلاف ایک محاذ ڈھونڈ کر مظلوم بننے کی کوشش کرے گا ۔ میرے خیال میں اس پابندی سے عامر لیاقت کی مقبولیت صرف رجعت پسندوں اور اسلام کی عامیانہ تشریحات کرنے والے حلقوں، اور معاشرتی علوم پڑھنے والے محب الوطنوں میں ہی بڑھے گی۔

عامر لیاقت نے معافی تو مانگ لی ہے ، لیکن جن لوگوں پر غداری اور توہین رسالت کے فتوے لگاتے رہے، کیا عامر لیاقت حسین کو یہ احساس ہے کہ صرف اپنی چرب زبانی اور ضمیر فروشی سے کتنے خاندانوں کو  انہوں نے ذہنی اور  نفسیاتی تکلیف پہنچائی ہے۔
عامر لیاقت کے لیے یہ سب نئی بات نہیں ہے، آنے والے وقت میں وہ پھر کسی نئے چینل پر کسی نئے خیال  کی ترجمانی کرتے نظر آئیں گے اور ان کے فالوورز بھی ان کی ماضی کی قلابازیاں بھول جائیں گے اور عامر لیاقت اپنے آج کے ہر موقف کی مکمل مخالفت ایسی ہی لچھے دار باتوں اور بھونڈی دلیلوں سے کر رہے  ہوں گے۔ اور ایسے ہی اپنے موجودہ  آج کے موقف کی آنے والے وقت میں مخالفت پر فتوی لگا رہے ہوں گے؛ اور بد قسمتی سے کچھ  جہلاء اس وقت بھی جھوم جھوم کر اس کے قصیدے پڑھ رہے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رہے نام اللہ کا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply