کینسر (46) ۔ شماریات سے کھوج/وہاراامباکر

“انیسویں صدی میں شماریات کی مدد سے کئی بہت اہم دریافتیں کی گئی تھیں۔ لندن کے شماریاتی یونٹ کے سیمینارز میں دنیا بھر سے لوگ شرکت کے لئے آتے تھے۔ اس یونٹ کے کمروں میں بھاری بھرکم برونسویگا کیلکولیٹر کی ٹھکاٹھک جاری رہتی تھی۔ یہ اس دور کے کمپیوٹر تھے۔

ماہرینِ امراض نے شماریات کی مدد سے دریافت کر لیا تھا کہ مچھر ملیریا پھیلاتے ہیں یا سیاہ بخار کی وجہ سینڈفلائی ہے۔ یہ بڑی کامیابیاں تھیں۔
لیکن کئی ماہرینِ امراض کہتے تھے کہ صرف انفیکشن سے پھیلنے والے امراض کے بارے میں اس طریقے سے پتا لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں پر ہمارے پاس ایک معلوم جرثومہ ہے۔ اور ایک معلوم کیرئیر (ویکٹر) ہے۔ مچھر اور ملیریا یا سونے کی بیماری اور زی زی مکھی کا تعلق پتا لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن کرونک بیماریاں، جیسا کہ ذیابیطس یا کینسر کا نہیں۔ یہ انتہائی پیچیدہ ہیں اور بہت ویری ایشن رکھتی ہیں۔ یہ تصور کرنا کہ پھیپھڑوں کے کینسر جیسی بیماری کا بھی کوئی ایک ویکٹر مل جائے گا اور اس دریافت کی ٹرافی شماریاتی ادارے کی بالکونی پر ٹانگ دی جائے گی، ایک دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے۔
برطانیہ میں اس مخالفت سے بے نیاز ہو کر ہل اور ڈول اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی معیشت تباہ حال تھی۔ ملک دیوالیہ تھا۔ جنگ سے تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ سگریٹ پر اضافی ٹیکس عائد کیا گیا۔ عادی سگریٹ نوشوں کو سگریٹ ٹوکن جاری ہوتے تھے۔ ڈول خود سگریٹ نوش تھے۔ انہیں شبہ بھی نہیں تھا کہ کینسر اور سگریٹ میں تعلق ہو سکتا ہے۔
ڈول اور ہل نے بیس ہسپتالوں میں جا کر کینسر کے مریضوں (کیس) اور دوسرے مریضوں (کنٹرول) کے گروپ بنائے۔ انٹرویو میں بہت سے سوالات رکھے۔ گھر گیس پائپ لائن سے کتنا دور ہے؟ تلی ہوئی مچھلی کتنی بار کھاتے ہیں؟ گوشت کونسے جانور کا استعمال کرتے ہیں؟ سوالوں کی اس طویل فہرست میں سگریٹ کی عادت کے بارے میں سوال بھی تھا۔
یکم مئی 1948 تک 156 انٹرویو کر لئے گئے تھے۔ ان کے تجزیے میں ایک چیز فوراً اچھل کر سامنے آئی۔ یہ سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔
ہر ہفتے نئے انٹرویو آتے گئے اور یہ تعلق مضبوط ہوتا گیا۔ ڈول کا پہلے اپنا ذاتی خیال یہ تھا کہ شہروں میں سڑکوں کی تعمیر ہونا اس کی وجہ ہے اور جواب کولتار نکلے گا لیکن ڈیٹا سے جھگڑا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نتائج سے گھبرا کر انہوں نے سب سے پہلے خود سگریٹ نوشی ترک کر دی۔
نیویارک میں وائنڈر اور گراہم کو بھی ایسے ہی نتائج مل رہے تھے۔ دو الگ سٹڈیز جو الگ برِاعظموں میں الگ آبادیوں پر کی جا رہی تھیں ایک ہی نتائج دے رہی تھیں (اگرچہ یہ دونوں ایک دوسرے کے کام سے بے خبر تھے)۔
ڈول اور ہل نے فٹافٹ پیپر تیار کیا اور ستمبر کے جریدے میں چھپوایا۔
برٹش میڈیکل جرمن میں ان کا انتہائی اہم مضمون شائع ہوا۔ اس کا عنوان “تمباکونوشی اور پھیپھڑوں کا کینسر تھا”۔ اس سے پہلے وائنڈر اور گراہم اپنی سٹڈی جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع کروا چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا تصور کر لینا آسان ہے کہ ان دو پیپروں نے طے کر دیا تھا کہ پھیپھڑے کے کینسر اور سگریٹ نوشی کا تعلق ہے لیکن شماریات اتنی آسان نہیں۔
یہ تعلق “آفٹر دی فیکٹ” تھا۔ اور یہاں تعصبات در آنا آسان ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ کھانسی کا شربت لینے اور گاڑی کا حادثہ ہونے کے تعلق کی سٹڈی کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر حادثے کا شکار ہو جانے والوں سے حادثے کے بعد سوال کریں گے کہ “کہیں آپ نے کھانسی کا شربت تو نہیں پیا تھا؟” تو غیرشعوری طور پر اس فیکٹر کو زیادہ وزن ملنا شروع ہو جائے گا۔ اور جواب کا تعلق اس سے ہو گا کہ سوال کو فریم کیسے کیا جا رہا ہے۔
ہِل کو اس تعصب کا مقابلہ کرنے کا آسان طریقہ معلوم تھا۔ یہ ان کا اپنا ایجاد کردہ ہی تھا۔ دو گروپس کو رینڈم بنایا جائے۔ ایک کو سگریٹ پینے کا کہا جائے، دوسرے کو منع کیا جائے۔ دونوں گروپس کی برسوں سٹڈی کی جائے اور دیکھا جائے کہ کینسر کس گروپ میں زیادہ ہے۔ اس سے کازیلیٹی نکل جائے گی۔ لیکن انسانوں پر ایسا تجربہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ میڈیکل ایتھکس کے ہی خلاف ہے۔
لیکن چونکہ یہ کرنا ناممکن ہے تو کیا اس سے اگلی آپشن استعمال کی جا سکتی ہے جو نیم پرفیکٹ ہو؟ کیا کسی طرح کینسر ڈویلپ ہونے سے پہلے کی حالت پر جایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ سٹڈی کی جا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ہی مسئلہ آکسفورڈ کے ماہرِ جینیات ایڈمنڈ فورڈ کو درپیش تھا۔ ارتقا بھی اسی طرح “آفٹر دی فیکٹ” سٹڈی ہے۔ انہوں نے آگے کی طرف اسے دیکھنے کے لئے پتنگوں کے ارتقا پر ایک ہوشیار سٹڈی ڈیزائن کی تھی جس میں پتنگوں کو نشان زدہ کر کے ان کی آبادیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ڈول اور ہل نے فورڈ کے کام کو دلچسپی سے دیکھا تھا اور اسی کی بنیاد پر ہل کو 1951 میں نیا تجربہ کرنے کا خیال سوجھا۔ کیا انسانوں کے نشان زدہ گروپ بنائے جا سکتے ہیں جن میں سگریٹ نوش اور سگریٹ سے دور رہنے والوں کا مکسچر ہو؟ اگر سگریٹ نوشی موجبِ کینسر ہے تو ان میں سگریٹ نوشوں کو زیادہ اور جلد کینسر ہو گا۔ اور اس سے تمباکو اور کینسر کا تعلق ٹھیک طرح سے سامنے آ جائے گا؟
لیکن اتنا بڑا گروپ کیسے ملے گا؟ اور یہاں ایک خوش قسمتی نے مدد کی۔ برطانیہ میں صحت کے نظام کو قومیانے کی وجہ سے ڈاکٹروں کی مرکزی رجسٹری بن رہی تھی جس میں ساٹھ ہزار ڈاکٹر تھے۔ جب کسی کا انتقال ہوتا تو رجسٹرار کو خبر دی جاتی۔ اور اس میں موت کی وجہ بھی دی جاتی۔ یہ اس سٹڈی کرنے کی ایک اچھی جگہ ہو سکتی تھی۔
ڈول اور ہل نے تمام ڈاکٹروں کو خط لکھے۔ اس میں مختصر سوال تھا۔ یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ سگریٹ پیتے ہیں اور اگر ہاں تو کتنے؟ اس سروے کو دو منٹ میں بھرا جا سکتا تھا۔
ان میں 41024 ڈاکٹروں نے واپس جوابات ارسال کر دئے۔ اب ان میں سموکر اور نان سموکر الگ ہو گئے۔ جب بھی رجسٹرار کے پاس ان میں سے کسی کے انتقال کی خبر آتی تھی تو انہیں اس کا اور انتقال کی وجہ کا معلوم ہو جاتا تھا۔ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے ہونے والی موت آیا سگریٹ نوش کی ہوئی تھی؟ ڈول اور ہل اس سوال کا جواب اپنے سامنے دیکھ سکتے تھے۔
اگلے انتیس مہینوں میں 789 اموات ہوئیں۔ ان میں سے 36 کی وجہ پھیپھڑوں کا کینسر تھا۔ جب ان میں سے یہ دیکھا گیا کہ آیا مرنے والا سگریٹ نوش تھا یا نہیں تو جواب بالکل سامنے تھا۔ ان میں سے سو فیصد سگریٹ نوش تھے۔
جواب سامنے تھا۔ اس پر کسی پیچیدہ شماریاتی تجزیے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
اس ٹرائل کو باریک بین اور تفصیلی شماریاتی تجزیے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا تا کہ پھیپھڑے کے کینسر کی وجہ کا تجزیہ کیا جا سکے، اس نے کسی کی بھی امید سے زیادہ آسانی سے بنیادی ریاضی کی مدد سے اس سوال کا جواب دے دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply