حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمت اللہ علیہ

حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمت اللہ علیہ
احسان عابد
گردش ایام کی روانی ہے۔ صبح و شام قطار در قطار آ, اور جارہے ہیں۔ کار جہاں اپنی ترتیب پر رواں ہے۔ نفوس دنیا کے سٹیج پر جلوہ افروز ہوتے ، اپنا کردار ادا کرتے اور مقررہ وقت پورا کر کے جاتے جا رہے ہیں۔ لاکھوں افراد کی بھیڑ میں سے چند افراد ہی ایسے ہوتے ہیں جو کہ عالم کے لئے کچھ کر جاتے ہیں اور انکی خدمات کو تا قیامت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو ہمارے دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں۔ ہمارے شعور کے کینوس پر نقش چند شخصیات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کا ہمارے ساتھ ہماری روح تک کا رشتہ ہوتا ہے۔ میرے دل کی تختی پر نقش ایسی ہی ایک شخصیت مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی ہیں۔
آہ!! استاد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمت اللہ علیہ۔ بانی وفاق المدارس۔ لاکھوں علماء کے بالواسطہ یا بلاواسطہ استاذ۔ اپنی ذات میں ایک انجمن۔ چند دن قبل دار فانی سے واصل حق ہوگئے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
زندگی میں تین مرتبہ حضرت والا کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ پہلی بار فیصل آباد کے جھنگ روڈ پر واقع جامعہ ابو بکر صدیق میں۔ دوسری بار حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید لدھیانوی صاحب رحمت اللہ علیہ کے جنازہ پر اور تیسری مرتبہ بہاول پور کی ایک جامعہ میں دورہ حدیث سے فارغ طلبہ کی دستار بندی کے موقع پر۔اس جامعہ میں سال کے اختتام پر صرف چھ طلبہ نے دورہ حدیث مکمل کیا تو مدرسہ انتظامیہ کی درخواست پر حضرت والا تشریف لائے ۔
ملک کی اٹھارہ ہزار سے زائد جامعات (یونیورسٹیوں) کے چیف وائس چانسلر کی سادگی اور عاجزی نے اس طرح متاثر کیا کہ اتنی بڑی شخصیت اور صرف چند طلبہ کی دستار بندی کیلئے 900کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے چلے آئے۔ یہ امر دیکھ کر اور زیادہ حیرت ہوئی کہ اس وقت حضرت والا کی عمر کوئی نوے سال یا اس بھی متجاوز تھی۔
حضرت کو ویل چیئر پر بٹھا کر پنڈال میں لایا گیا۔ حضرت والا ویل چئر پر تشریف فرما تھے۔ جسم انتہائی نحیف کہ بس ہڈیوں میں روح تھی۔ لیکن حوصلے اتنے بلند کہ کراچی سے بہاولپور تک کا طویل سفر طے کر کے صرف چند طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے آ پہنچے۔
شام کا وقت تھا۔ حضرت کے پنڈال میں تشریف لاتے ہی ٹھہری ہوئی حبس زدہ فضا میں ہل چل سی مچ گئی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل پڑی اور فضا نے تازگی کا احساس دینا شروع کر دیا۔ ایک غیر محسوس قسم کی بھینی بھینی خوشبو اچانک فضا میں پھیل گئی ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے عالمِ ربّانی کی آمد پر فضا بھی خوشی کے مارے رقصاں ہو۔ ایسے جیسے اپنے محبوب کے دیدار پر ماحول کا دل بھی مچل کے رہ گیا ہو۔ پنڈال میں موجود تھوڑا بہت شور بھی اب ختم ہو چکا تھا۔ مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے صبح صادق کا وقت ہو۔
حضرت والا نے نقاہت بھری آواز میں درس حدیث دینا شروع کیا تو فضا کا سکوت ٹوٹا۔ شیخ الحدیث کی دھیمی دھیمی کمزور آواز دلوں میں اتر رہی تھی۔ دلوں کی سیاہی اور زنگ دور ہو رہا تھا۔ ایمان کو جلا بخشنے والے الفاظ کانوں سے دلوں میں اتر کر دلوں کو مچلا رہے تھے۔ حاضرین محفل کی آنکھیں انکے نورانی چہرے کو دیکھ کر ٹھنڈی ہو رہی تھیں۔
مختصر درس دیا۔ دعا ہوئی اور محفل بر خواست ہو گئی۔ چند منٹوں کا نظارہ تھا اور دل و دماغ پر ہمیشہ کیلئے حسین یادیں چھوڑ گیا۔

Facebook Comments

احسان عابد
نا معلوم منزل کا راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply