روشن خیالی کے اثرات

روشن خیالی کے اثرات
محمد تنویر خان
بیٹا باپ کے ساتھ ساتھ چل کر تھک چکا تھا اس کی ننھی منھی سی ٹانگیں جواب دے چکی تھیں۔باپ بچے کو گود میں اٹھا کر چلنے کے خلاف تھا کہ اب سات سال کی عمر ہوگئی ہے جسمانی ساخت مضبوط کیسے ہوگی۔ بچہ بھی بیچارا دل میں ایک چھوٹی سی خوشی لیکر چلتا جا رہا تھا کہ جو بھی ہے بابا جان آج ایک نئی جگہ لیجا رہے ہیں۔وہ نئی جگہ کیا تھی؟وہ نئی جگہ نہیں بلکہ ایک نیا لفظ تھا بچے کے لیئے۔ماں اور باپ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا آخری جملہ جو بچے کے کان میں پڑا اور ضد پکڑ لی کہ بابا جان کے ساتھ میں بھی جاؤں گا۔والدین کی گفتگو کا آخری جملہ جو باپ کی زبان سےنکلا تھا وہ کچھ یوں تھا؛ “میں پیدل جا رہا ہوں”بس یہ سنتے ہی بچے نے ضد پکڑ لی کہ مجھے بھی پیدل جانا ہے۔ جسکا خمیازہ معصوم کو ایک مشقت کی صورت بھگتنا بھی پڑا۔
بالکل اسی طرح انسانی حقوق اور روشن خیالی جیسے نئے الفاظ سادہ لوح مسلمانوں خصوصاًپاکستانیوں کے لیئے بہت غور طلب ہیں۔ہمارا یقین اس بات پر پختہ ہونا چاہئے کہ انسانیت اور روشن خیالی کا اعلیٰ ترین معیار صرف اسلام فراہم کرتا ہے۔ انسانیت سب سے بڑا مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام وہ سب سے بڑا مذہب ہے جس میں سب سے زیادہ انسانیت ہے۔اسلام ہی ہمیں درس دیتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اسی اسلام نے ہمیں بیجا جانوروں کو بھی مارنے سے روکا۔ اسلام کی پوری تاریخ میں جتنی بھی فتوحات پائی جاتی ہیں آپ سب کو کھنگال لیں سب سے کم قتال ملے گا اور سب سے زیادہ فتوحات ملیں گی۔اسی روشن خیالی جیسے لفظ نے جاپان میں ایٹم بم سے بے قصور عام شہریوں کی زندگی کے روشن چراغ بجھا دیئے۔ہٹلر کی روشن خیالی بھی دنیا کے سامنے ہے۔ سن2000 کا انتہاپسند افغانستان بھی آپکے سامنے ہے اور 2017 کا روشن خیال افغانستان بھی آپکے سامنے ہے۔ بھارت کے شہر بنگلور میں روشن خیالی کی تازہ ترین مثال بھی آپکے سامنے ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی انسانیت اور قندیل بلوچ کی روشن خیالی بھی دنیا نے دیکھی۔ جنید جمشید شہید کا روشن خیالی کا دور اور ایک اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی دونوں اس قوم نے دیکھی ہیں۔
مشرف کے سب سے پہلے پاکستان والے نعرے میں انسانیت کا تذکرہ تک نہیں ہے ۔عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ انسانیت کے ٹھیکیدار جانوروں کی طرح برہنہ گھومنے والے کو انسانیت پسند اور روشن خیال ٹھہراتے ہیں جبکہ انسانوں کی طرح با حیا با پردہ رہنے والے کو شدت پسند اور انتہاپسند کہہ کر اپنی نام نہاد انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ انسانیت تو یہ ہے کہ آپکی زبان سے بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور مجھے یہ انسانیت میرے مذہب اسلام نے بتائی ہے۔ جب کہ لبرل اور سیکولر سوچ میں جو انسانیت کا ذکر ہے اس میں فریڈم آف اسپیچ یا آزادی اظہار رائے کے نام پر آپ کسی ایک شخص، قوم، قبیلہ یا مذہب کے بارے جو منہ میں آجائےکہہ دیں، یہ کونسی انسانیت ہے؟
ہم اب آتے ہیں اپنے تعلیمی نظام کی جانب، میں اگر یوں کہوں تو زیادہ برا نہیں ہوگا کہ پیلے اسکول کی جوانی آج ہمارے سامنے ہے۔ اور یہ جوانی ہمیں انگلش میڈیم اور O لیول  A لیول اسکولز کی شکل میں ہر جگہ نظر آرہی ہے۔ جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء عصری علوم کے کارنامے سناتے ہیں مگر صحیح سے قرآن کی تلاوت نہیں کرسکتے نہ ہی پاکی نا پاکی کے بنیادی مسائل سے واقف ہوتے ہیں۔ کہیں لڑکے اسکول ٹیچر کے عشق میں گرفتار ہو کر خودکشی کر رہے ہیں تو کہیں دو طلباء کم عمری میں اسی مرض کی وجہ سے اسکول کی عمارت میں ایک ساتھ موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
اسی تعلیمی نظام سے جو نسل تیار ہوئی ہے وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر بنی ،یعنی سائنس کے میدان میں بھی پیچھے رہ گئے اور مذہبی تعلیم میں بھی پیچھے رہ گئے۔  کاش کہ اگر ایسا ہوتا کہ اس قوم کے بچے اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کرتے۔ کاش اسکولز کا یونیفارم بھی قومی لباس ہوتا کاش سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں بھی قومی لباس ہوتا ۔ہمیں روشن خیالی کے نام پر پتلون اور ٹائی پہننے پرمجبور نہیں کیا جاتا۔ انگریزی کے بجائے اردو میں تعلیم دی جاتی تاکہ تخلیقی صلاحیتیں طلباء میں پیدا ہوں سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں کاغذی کارروائی پیغام رسانی اردو میں ہوتی ہمیں کن طاقتوں نے مجبور کیا کہ ہم انگریزی اس حد تک سیکھیں کہ ہماری زندگی کا پہیہ بغیر انگریزی کے بغیر رکا ہوا محسوس ہو ، ہم نے مجموعی طور پر اس زبان کو حدسے زیادہ اہمیت دیدی جس کا نتیجہ تفریق کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔  ہمیں ہائی جیک کیا جارہا ہے ہم مجموعی طور پر پیچھے اسی لیئے ہیں کہ کسان کا بچہ تو ان کتابوں کو دیکھ کر ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ یہ کیا لکھا ہے اسے کون پڑھے گا؟؟ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ہمارے ساتھ اسی روشن خیالی جیسے لفظ کی وجہ سے ہورہا ہے کہ آپ ان جیسے ہوجائیں جیسا وہ چاہتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں ایسا تعلیمی نظام متعارف کرایا جاتا جس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء نیوٹن ، ہوکس، کلارکس اور مینڈلیو کے قوانین پر بھی بحث کرتے اور امام ابو حنیفہ کے فقہی مسائل پر بھی بات کرتے وہ صحیح بخاری بھی جانتے اور کارل مارکس  کی بھی مثال دیتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور دو الگ الگ دھڑے بن گئے ایک مدرسہ اور ایک اسکول۔ ایک کو روشن خیال کا لقب دیاجاتا ہے دوسرے کو قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو آگے چل کر ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوجائے گا جسے پر کرنا ناممکن ہے۔
ہمارے لیئے اس وقت سب سے زیادہ ضروری ہے کہ بجائے اغیار کی جانب سے انجیکٹ کی گئی باتوں میں الجھیں اور روشن خیالی اور انسانی حقوق جیسے کھوکھلے نعروں کے پیچھے دوڑیں۔ سب سے پہلے اپنے اندر ہم خیالی ڈھونڈیں۔ اختلافات کی گرد ہٹائیں اور ایسا سسٹم متعارف کروانے کی کوشش کریں جو اسلامی اصولوں کے مطابق جدید دور سے ہم آہنگ ہو۔

Facebook Comments

محمد تنویر خان
عام شہری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply