روح کی سرگوشی (ناظم جو کھیو کے نام)۔۔محمد وقاص رشید

میری بیٹی میرے بغیر سوتی نہیں ہے سائیں,بڑی بے چین ہوگی,میری راہ تکتے روتی بلکتی ہو گی, مجھے آج کی رات جانے دو۔۔   میں نے کہاں جانا ہے, صبح آ جاؤں گا!

اسے اور مارو اوئے۔ ۔کم دارو ۔۔  تمہیں کس دن کے لیے کھلا کھلا کر پالتے ہیں ہم,اس نے ہمارے مہمانوں کو تلور کا شکار کرنے سے منع کیا,اب یہی ہے ہمارا تلور, کاٹ دو اسکے پَر جن سے یہ اڑنا چاہتا ہے اور مارو، ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز ایسے آنی چاہیے جیسے تلور کے کھمب ٹوٹتے ہیں۔۔۔ مارو۔۔۔۔ مارو۔ ۔۔اسے!

سائیں۔۔۔۔آہ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ ان لوگوں نے  ہمارا  رستہ بند کر رکھا تھا۔۔ہائے ے ے۔۔
اوئے رستے بھی ہمارے گوٹھ بھی ہمارے۔ ۔ تمہاری اوقات ہی کیا ہے۔ ۔ اوئے مارو اوئے تم کیوں رک گئے۔  اس تلور کی ایک ہڈی پسلی بھی بچ گئی ناں تو تمہیں اپنے کتوں کے آگے ڈال دوں گا۔

سردار ۔۔۔  سائیں معاف کر دو ،میری جان بخش دو،بہت درد ہو رہا ہے،میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آ رہا ہے ۔ سائیں ۔۔۔آہ۔۔ آہ۔۔۔۔ ہائے ۔ او خدایا۔۔  سائیں خدا رسول کا واسطہ

نہیں نہیں۔ ۔ تو ویڈیو بنا ۔ تیری جرات کیسے ہوئی ہمارے مہمانوں کو روکنے ٹوکنے کی۔  اب بلا کس باپ کو بلانا ہے، بتا تیری ویڈیو دیکھ کر کون آیا، تجھے بتانے ۔۔سوشل میڈیا کا ہیرو بننے چلا تھا میرے۔۔۔

ادھر لاؤ۔ ۔ اوئے مجھے پکڑاؤ۔ ۔ یہ ڈنڈا تمہیں میں بتاتا ہوں حرام خور کمدارو۔ ۔ یہ دیکھو ایسے تلور کا شکار کرتے ہیں۔ ۔ ایسے۔ ۔ کھوپڑی کا نشانہ لیتے ہیں

سائیں وڈا۔۔۔۔میں مر ر ر۔۔۔ رہا ہوں۔۔۔ رحم کرو۔۔۔ سائیں۔۔۔ آہ ہ ہ۔۔۔۔۔ میری بیٹی ۔۔ میرے بغیر کیسے سوئے گی۔  آہ ۔ اوہ ہ، کیسے جئے گی۔ ۔۔کیسے۔

الوداع میری بیٹی!  الوداع۔  لا الہ۔۔۔۔ میری بچی۔۔ رونا نہیں، اپنی ماں سے ہی سو جانا ۔ خدا۔۔۔۔ آہ۔۔۔ ہ۔۔۔۔ ہائے ے ے خدا حافظ میری بچی۔

ہاں ہاں۔ ۔ تجھے خدا خدا کرنے کا بہت شوق تھا۔۔۔۔ ہا ہا ہا ہا ۔۔ ویڈیو میں بھی۔ ۔ یہ کہتا تھا کہ میں صرف خدا سے ڈرتا ہوں۔ ۔ خدا سے۔ ۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔ ۔تو پھر اب موت سے کیوں ڈر رہا ہے۔  ؟

یہ بھی تو خدا نے ہی بھیجی ہے۔۔ ۔۔ یہ دیکھ اوئے کمدار تلور کی طرح تڑپا کہ نہیں۔۔  چلو اسے اٹھا کر پھینک آؤ اسکے گھر کے پاس۔

ناظم جوکھیو کو کمدارو نے واقعی ایسے اٹھایا جیسے کوئی مرے ہوئے پرندے کو اٹھا کر پھینکتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے بازو اور ٹانگیں  اور ڈھلکی ہوئی گردن، نیلے پڑے جسم سے خون رس رہا، جگہ جگہ سے جسم کٹا پھٹا اور اُدھڑا ہوا۔  ناظم جوکھیو آخری سانسیں لیتے یہ سوچ رہا تھا کہ اے خدا۔۔ ۔ یہ وڈیرے تو اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہی ہیں،تو بھی تو انہیں خود کو خدا سمجھنے دیتا ہے۔  کہ میرے جیسا کوئی پرندہ اس قفس کو توڑ کر ۔۔اگر اڑ کر اوپر تیری طرف آنے لگے، تجھے خدا سمجھے ۔۔ تو تُو بھی ہاتھ نہیں پکڑتا  اور زمین کے ان خداؤں کے قدموں میں ہی گرا دیتا ہے ۔تو نے ہماری زندگی موت ان زمین کے خداؤں کے ہاتھ کیوں دے دی اے خدا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ناظم جوکھیو کی روح دارالاسلام سندھ کی دھرتی سے پرواز کر گئی۔ اسکی روح  عزرائیل کے ساتھ اڑتے ہوئے اپنے گھر کے اوپر سے گزرتی ہے تو رات بھر جاگتی ایک بچی کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر بے قرار ، بے چین اور مضطرب ہو کر اسکی طرف لپکنا چاہتی ہے۔۔  مگر فرشتہ اسے لے کر آسمان کی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔روح اس سے یہی کہتی جا رہی ہے۔
“میری بیٹی میرے بغیر سوتی نہیں ہے۔  آج کی رات کے لیے جانے دو خدارا”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply