• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا کرونا کا علاج گرم پانی پینا اور بھاپ لینا ہے ؟۔۔مرزا یوسف بیگ

کیا کرونا کا علاج گرم پانی پینا اور بھاپ لینا ہے ؟۔۔مرزا یوسف بیگ

فیسبک پر ایک پیغام بہت گردش کر رہا ہے کہ گرم پانی پینے اور بھاپ لینے سے کرونا وائرس مر جاتا ہے  یہ بات بالکل غلط ہے  وائرس گلے یا سانس کی نالی میں نہیں  پلتا جو گرم پانی پینے یا سٹیم سے مرے گا   بہت سے لوگ تفصیلاً بتا چکے ہیں کہ  وائرس خون میں جا کر سیل میں داخل ہوتا ہے اور سیل کے اندر سسٹم کو ہائی جیک کر کے اپنی کاپیاں بناتا ہے  جب سیل میں بہت سارے وائرس بن جاتے ہیں تو یہ پریشر کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے اور بہت سارے وائرس نکلتے ہیں، جو جسم کے باقی سیلز میں داخل ہو جاتے ہیں  جب وائرس کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ جسم کے  بہت سارے سیلز کو ختم کر دیتے ہیں تو بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں  لہٰذا اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ سب کچھ سیل کے اندر ہوتا ہے اور پورے جسم کے سیلز میں ہوتا ہے  گرم پانی یا بھاپ ان سیلز تک نہیں  پہنچتی  ویسے بھی گرم چائے اور کافی تو ہم ہر وقت پیتے ہی رہتے ہیں اور یورپ میں بھی بہت زیادہ   پی جاتی ہے  اگر گرم لیکویڈ کا کوئی فائدہ ہوتا تو کم از کم یورپ میں وائرس نہ پھیلتا

اگر وائرس منہ سے داخل ہوتا ہے تو چانس ہے کہ شاید گلے تک جائے اور وہاں سے جذب ہو کر خون میں شامل ہو  یہ سب کچھ  چند  منٹوں میں مکمل ہو سکتا ہے لیکن اگر وائرس کے جسم میں جذب ہونے سے پہلے کُلی کر لی جائے یا گرم پانی یا چائے وغیرہ پی  لی جائے،  تو شاید وائرس مر جائے  اس کے  برعکس اگر وائرس ناک یا آنکھ سے جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہیں سے ہی جسم میں جذب ہو کر خون میں پہنچ جائے گا  اتنی معمولی سی بات کو بھائی لوگ طریقہ علاج بنا کر پیش کر رہے ہیں جو کہ غیر مناسب ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والی بات ہے

بھاپ کا تھوڑا بہت فائدہ ایک اور طریقے سے ہو سکتا ہے  کرونا آخر میں پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے جس سے نمونیہ ہو جاتا ہے اور پھر مریض سانس نہ لے سکنے کی وجہ سے مر جاتا ہے  بھاپ لینے سے وائرس تو نہیں  مرتا لیکن پھیپھڑوں کی حالت ذرا بہتر ہو جاتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں آسانی ہو جاتی ہے  اس سے مریض کو مزید کچھ دن مل جاتے ہیں  اس دوران چانس ہوتا ہے کہ مریض کی باڈی وائرس پر قابو پا لے اور وہ مرنے سے بچ جائے  یہ بھی خیال رکھیں کہ بھاپ کا شروع میں ہی فائدہ ہوتا ہے  اگر مریض نمونیے کی آخری اسٹیج پر ہو تو بھاپ الٹا نقصان دیتی ہے اور زندگی کا ٹائم مزید کم کر دیتی ہے

کافی لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وائرس کئی دن منہ میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر وہاں سے سانس کی نالی میں جاتا ہے اور پھر وہاں سے پھیپھڑوں میں جا کر انفیکشن کرتا ہے  اسی کم علمی کی وجہ سے لوگوں نے یہ گرم پانی والا فارمولا فرض کر لیا ہے  اب مکمل وآئرولوجی تو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں  ہے  مختصر طور پر اتنا عرض ہے کہ وائرس کے منہ میں جانے سے فوری طور پر کچھ نہیں  ہوتا  وائرس ایک چھوٹا سا کیمیکل ہے جو منہ میں پورا سال بھی پڑا رہے تو انسان کو کچھ نہیں  ہو گا  جب تک وائرس جسم کے کسی سیل میں داخل نہیں  ہوتا، اس وقت تک یہ ایک بے ضرر سی چیز ہے  سیل تک پہنچنے کے لیے اسے خون میں داخل ہونا پڑتا ہے  ہمارے منہ اور گلے کی جھلی یا میوکس ممبرین عام طور پر کسی بھی چیز کو جسم میں جذب نہیں  ہونے دیتی  میوکس ممبرین پر میوکس میں وائرس کی نشونما نہیں  ہو سکتی  اگر کسی طرح یہاں وائرس ہزار سال بھی پڑا رہے تو ایسے ہی بے ضرر پڑا رہے گا

Advertisements
julia rana solicitors

وائرس کی نشونما کے  لیے اسے کسی سیل میں داخل ہونا پڑے گا , جس کے  لیے پہلے اسے خون میں جانا پڑے گا  اب اگر وائرس گلے سے معدے کی طرف چلا جائے تو وہاں یہ مر جائے گا  لیکن اگر یہ منہ سے سانس کی نالی کی طرف جائے تو وہاں سے یہ جسم میں جذب ہو سکتا ہے  جیسے ہی  وائرس جذب ہو کر خون میں جائے گا تو پھر یہ سیکنڈز میں جسم کے  کسی بھی حصے میں پہنچ سکتا ہے  خون کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ایک منٹ سے بھی کم ٹائم میں دل سے نکلنے والا خون پورے جسم کا چکر لگا کر واپس دل میں پہنچ جاتا ہے  مطلب خون کے  اتنے تیز بہاؤ میں وائرس چند سیکنڈز میں جسم کے کسی بھی حصے کے سیل تک پہنچ سکتا ہے اور اس سیل سے اس کی کارروائی شروع ہو جائے گی  لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ وائرس منہ سے سیدھا پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے  ہاں البتہ ہر وائرس کے  اپنے پسندیدہ سیل ہوتے ہیں  کرونا کو گلے اور پھیپھڑوں کے  سیل زیادہ پسند ہیں , اسی لیے ابتدائی علامات میں خشک کھانسی شامل ہے  لیکن اس سے یہ نہ سمجھیں کہ وائرس گلے کی میوکس ممبرین پر موجود ہے اور گرم پانی سے مر جائے گا  بلکہ وائرس گلے کی اندرونی تہوں کے سیلز میں ہوتا ہے اور گرم پانی ان سیلز تک نہیں  پہنچ سکتا

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply