نوزائیدہ شعراء۔۔سکندر پاشا

ہمارے ہاں آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں، حساب کتاب لگایا جائے تو سب سے زیادہ حادثات شعراء کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں۔
گویا ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ہی ڈھیر سارے شعراء جنم لیتے ہیں۔

شاعری سے ہمیں بھی کسی زمانے میں لگاؤ تھا، شاید جوانی کا جوش ہی تھا، جلد ہی توبہ تائب ہوئے کیونکہ بروقت ابا جان نے شادی کروا دی، ورنہ شادی کے بعد بھی کچھ لوگ جون ایلیاء ہی رہتے ہیں اور ہم اس عذاب سے محفوظ رہے۔
ہر کسی کی ذات میں اسکی زندگی ایک جنت ہوتی ہے لیکن شاعر کی زندگی جہنم سے کم نہیں ہوتی اس لئے شاعر ہمیشہ خوار ہی جیتے ہیں۔

ہمیں شعر و شاعری سے دلچسپی ضرور ہے، لیکن بس اس حد تک ہے کہ آج تک کبھی کسی شاعر کا شعری مجموعہ یا دیوان خرید کر دولت کی ناقدری کے مرتکب نہیں ہوئے، جس پر ہم شکر ادا کرتے ہیں۔

شعراء کی محفل میں اکثر جانا ہوا ہے، کیونکہ فرصت کے لمحات اگر آپ لغویات میں صَرف کردیں تو وہ ان لمحات کا سب سے بہترین مصرف ہوا کرتا ہے، ایسا ہمارا ماننا ہے۔

ہمارے ایک دوست ہیں، اتفاقی و حادثاتی شاعر ہیں، شاعری کے شین سے واقف ہوتے تو ہم کبھی ان کے حق میں ناحق لکھنے کی جرات نہ کرتے، پر کاش ایسا ہوتا۔

صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ کسی کے چاہنے والے اس کو اپنی صدی کے عظیم لوگوں میں  شمار کرتے ہیں اور وہ صدی اس کے نام کر دیتے ہیں، یونہی اگر ہم اس صدی کے سب سے بڑے شاعر کا ایوارڈ کسی کو دینا چاہیں تو محترم جناب مولوی محمد عظیم تھوکپوری صاحب کو دیں گے۔ آپ بیک وقت مولوی، مفتی، مدرس، اور غلطی سے شاعر بھی ہیں۔ گویا خدا نے اخروی عذاب کا کچھ حصہ ہمارے مولوی شاعر کو دنیا میں ہی چھکا دیا ہے اور قیامت بپا ہوتے ہی ہم یوں بھی جلدی جنت میں جائیں گے، کیونکہ ہم نے دنیا میں ہی موصوف کی شاعری سن رکھی ہے اور جس کی سزا ہم بھگت چکے ہیں۔
بقول مرشد کہ محمد عظیم تھوکپوری صاحب کو انسان پیدا ہونا تھا لیکن غلطی سے شاعر پیدا ہوگئے۔ مطلب کہ کیا ہی بکواس شاعر ہیں۔

جولائی کے مہینے میں شاعری سے ذوق رکھنے والے احباب کیلئے “دار العلم والتحقیق” کے زیر اہتمام محترم جناب ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن صاحب کی سرپرستی میں “زوار اکیڈمی” میں چند روز کا ایک دورہ منعقد کیا گیا تھا جس میں روزانہ کی بنیاد پر بحور و عروض اور قوافی کے ذریعے شعر کی جانچ پڑتال اور تقطیع وغیرہ کے حوالے سے جناب فضل اللہ فانی صاحب کے اسباق طے ہوئے تھے، اس دورہ کیلئے خصوصی طور پر پشاور سے کراچی تشریف لائے تھے، ہم نے بھی ملاقات کی غرض سے شرکت کی تھی، وہاں موصوف سے ملاقات ہوئی، صوابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہے لیکن اردو اور فارسی میں بھی شاعری کرلیتے ہیں۔

موصوف تینوں زبانوں پر شعری حوالے سے اچھا خاصا عبور رکھتے ہیں، ہمیں عزلیں بھی سنائیں، کچھ اشعار ترنم سے بھی سنائے، بہت ہی اچھا لگا تھا۔

یہ ہماری واحد ایسے شاعر سے ملاقات تھی جس پر ہم کبھی نہ پچھتائیں گے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہرانسان شاعر ہوتا ہے لیکن ہر شاعر انسان نہیں ہوتا، جبکہ موصوف واقعی شاعر بھی ہیں اور کمال کے انسان بھی ہیں۔

پہلی ملاقات میں ہمیں للہ فی اللہ ان سے محبت ہوگئی، خدا گواہ ہے کہ ان کی ذات، ان کی باتیں، سادگی، انداز تکلم اور نازک اشارے اپنے آپ میں غزل کی حیثیت رکھتے ہیں، گویا اگر موصوف نازک چنبیلی ہوتیں تو ہم رشتہ ازدواج کیلئے امید وار ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے کہنے کا مقصد ہے کہ ضروری نہیں کہ آپ کو مولوی محمد عظیم تھوکپوری کے مرتبے کے شاعروں سے واسطہ پڑ کر ناکردہ جرموں کی سزا دنیا میں دی جائے، بلکہ اگر آپ کی روح عالم ارواح میں اچھے لوگوں کے ارد گرد بھٹکی ہے تو زندگی میں آپ ضرور اچھے لوگوں سے بلکہ اچھے شاعروں سے بھی ملیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply