ذکر ایک صبح کا۔۔غلام قادر چوہدری

صبح کا وقت تھا۔ موصوف جانے کس حسین،نازنین،مہ جبیں  کے خیالوں میں کھوئے سر جھکائے چلے جا رہے تھے۔ سڑک کنارے مختلف جگہوں پر پانی کا چھڑکاؤ نظر آ رہا تھا۔ اکا دکا خاکروب بھی جھاڑو دے رہے تھے۔

 انہی خیالوں میں گم،ایک گیلی جگہ پر پاؤں رکھتے ہی کسی اللہ والے کی بدولت موصوف کو پلک جھپکتے ہی اتنی وسعت نگاہ اور بلند نظری عطاء ہو گئی کہ فرش کی جگہ عرش نظر آنے لگا۔۔

موصوف اپنی خوش بختی پر ابھی ناز کر ہی رہے تھے کہ احساس ہوا ،یہ معاملہ کوئی اور ہے۔

موصوف بمشکل اٹھے اور کھڑے ہو کر اس مقام معرفت کو گھورنے لگے ،جیسے اس صاحبِ  کردار کو ڈھونڈ رہے ہوں جس کی بدولت یہ مقام حاصل ہوا تھا۔

اس تمام سفرِ  معرفت کے دوران دہی کا خالی برتن بدستور بائیں ہاتھ کی گرفت میں تھا۔

جبکہ دایاں ہاتھ اب نہ جانے کیوں چِپ چِپ کر رہا تھا حالانکہ گھر سے نہا کر نکلے تھے۔۔اب کنارے پر موجود ایک نل سے ہاتھ دھو رہے ہیں،  لیکن وہ دُھل نہیں رہا۔

اچانک قریب موجود ایک واقف حال کی آواز آئی۔

” کیمیکل ہے باؤ جی۔۔۔ اس ۔۔۔۔(کسی کی والدہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے)کو کہا بھی تھا کہ اسے صاف کر دے مگر۔۔”

اب باؤ جی نے پھر غور سے اس مقام آہ و فغاں کو دیکھا۔موصوف نے کسی صابن یا سینی ٹائزر کی عدم دستیابی پر وہاں موجود سیمنٹ کے کھمبے پر اپنا ہاتھ رگڑنا شروع کر دیا۔ خاطر خواہ شفاء ہوئی تو جوتا اتار کر فٹ پاتھ پر اپنے نشان پا ثبت کرنے لگے کہ اب ان پر پاؤں کی چِپ چپاہٹ بھی آشکار ہو چکی تھی۔

کھمبے پر دست شفقت پھیرنا ترک کیا اور آگے بڑھے۔ کپڑوں کی طرف سے مطمئن تھے کہ بیک سائیڈ مجھے کونسا نظر آ رہی ہے۔ نیا اپڈیٹڈ ڈیزائن بن گیا ہو گا۔

دہی لیا اور واپس ہو لئے۔۔۔  گھر کے دروازے پر پہنچے تو ،

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

تو کیا دیکھا

کہ سب افراد خانہ ابھی خواب خرگوش میں تھے۔ گھر کا دروازہ لاکڈ تھا گو چابی جیب میں تھی لیکن دایاں ہاتھ چِپ چِپ کر رہا تھا اور بایاں ہاتھ دہی والے برتن کو سنبھالے ہوئے تھا۔۔۔

اب دروازہ کون کھولے اور کیسے کھولے۔۔

اچانک ان پر ظہور ہوا کہ چپچپانے والے ہاتھ کی ہتھیلی کھول کر اس پر دہی کا برتن رکھا جا سکتا ہے اور الٹے ہاتھ کی انگلیوں سے گھی کی طرح ڈور کی بھی نکالی جا سکتی ہے۔

اب کی ہول میں چابی گھما رہے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھل رہا۔

“یا حیرت۔۔۔ ابھی تو بند کر کے گیا ہوں۔”

ایک عرصہ عالم استغراق میں گزارنے کے بعد انکشاف ہوتا ہے کہ الٹے ہاتھ سے الٹی جانب چابی گھما رہے ہیں اور دروازہ کھلنے کی بجائے لاک در لاک ہوتا جا رہا ہے۔

خدا خدا کر کے اندر داخل ہوئے اور دہی رکھ کر سیدھا اوپر والے واش روم  میں چلے گئے۔ اپنے تئیں صابن سے اچھی طرح ہاتھ پاؤں جوتا دھو کر نیچے اترے۔۔۔ کچن کے باہر جوتا اتار کر کچن فلور پر بچھی چادر پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ چادر نے پاؤں پکڑ لیا حالانکہ وہ بے گناہ تھی۔۔۔دوسرا پاؤں رکھا تو اس کا بھی یہی حال تھا۔۔۔ پہلا اٹھایا تو چادر بھی اٹھتی گئی۔۔ مجبورا ً اسے واپس رکھ دیا اور دوسرے کو اٹھانے کی کوشش کی مگر ندارد۔

موصوف نے جوانی میں بھلے ٹوئسٹ نہ کیا ہو لیکن اس بڑھاپے میں کرنا پڑا کیونکہ وہ چادر پیر تسمہ پا بنی جا رہی تھی۔۔۔

“اے کی کرنا پیا ایں۔”

اچانک باجی کی آواز آئی جو نہ جانے کب سے یہ لائیو ڈانس دیکھ رہی تھیں۔۔۔

“کچھ نہیں”

کہا اور دوکان پر چلے گئے۔۔۔

تقریبا ً نو بجے کے قریب ناشتہ کے لئے وقفہ کیا۔ ناشتہ کے بعد سیدھا چھت پر چلے گئے۔ اور گوہر مقصود تلاش کرنے لگے۔ ایک کونے میں تھوڑی سی مٹی اور ریت کا مکسچر نظر آیا جیسے کسی آندھی کے بعد یا دو تین دن کی صفائی نہ ہونے سے اکٹھی ہو جاتی ہے۔ 

لپک کر وہاں پہنچے اور جوتا اتار کر اس کیمیا کو پاؤں اور جوتے پر ملنے لگے بلکہ رگڑنے لگے کہ صابن سے دھونے کے باوجود وہ چِپ چپاہٹ قائم تھی۔۔۔ پاؤں کے بعد ہاتھوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا کہ وہ بھی استحقاق رکھتے تھے۔

نیچے آ کر پھر صابن سے دھوئے اور شاپ پر چلے گئے۔۔۔

دوکان پر کچھ کتابیں جلد کیں، کچھ بچوں کو بھگتایا۔۔۔

کچھ کام کیا کچھ عشق کیا

کچھ موبائل سے چھیڑ چھاڑ کی

جتنی دیر مصروف رہے، غنیمت تھی۔۔۔ جونہی ذرا فرصت ملتی تو احساس ہوتا کہ

Advertisements
julia rana solicitors

آج صبح دہی لینے گئے تھے!

Facebook Comments

Ghulam Qadir Choudhry
​غلام قادر سیالکوٹ میں مقیم ایک نوجوان جو اپنے آپ کو لکھاری سے زیادہ ادب کے طالب علم کہتے ہیں۔ واجبی سی تعلیم، ایک چھوٹا سا کاروبار اور ادب سے ڈھیر دلچسپی۔ کالج میگزین میں بھی لکھتے رہے۔ سیالکوٹ کے مقامی جریدے میں بھی ان کے کچھ مضامین چھپ چکے ہیں۔ مثبت تنقید اور اختلاف رائے کو فریق مخالف کا حق سمجھتے ہیں۔​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply