جشنِ آزادی نہیں بلکہ صدقہ ءِ آزادی کو فروغ دیں۔۔ابو عبداللہ

بفضلِ الہٰی، کل پاکستان کا  یومِ آزادی گزرا  ہے۔  آج سے تقریباً74 سال پہلےخالقِ کائنات کی مدد و نصرت کی بدولت،  ماہِ ررمضان کی بابرکت ساعتوں     کے  جھرمٹ  میں 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب ،  آزادی ءِ پاکستان کی نوید  دُنیا کے نقشے پر سورج کی کِرنوں   کے ساتھ طلوع ہونے کو تیار تھی۔     ایک نئے دن کے ساتھ نئے حوصلے، نئے  عزائم، نئی ذمہ داریاں   بھی سَر اُٹھانے کو تیار تھیں۔  ممکنہ اعتبار سے دُنیا  میں  اتنی بڑی ہجرت کبھی  دیکھنے میں نہ آئی تھی جس میں لاکھوں  مسلمانوں نے اپنی جان، مال، عزت و آبرو   ،قربان کر کے   پاکستان  کی بنیاد میں  اپنے لہو  سے  آبکاری کر کے اِس نئے پودے کو تن آور درخت   بننے تک کے سفر کے لئے گھٹی   کے   طور پر استعمال کیا تھا۔

جس پاک وطن کی   آزادی بزرگوں کی دُعائیں،     قربانیوں کا تسلسل ،    مسلمانوں کے مقصد   اور  خدائے برتر کی عطا ءِ نعمت   کی مرہونِ منت ہے آج  وہ   ہم سے سوال کر رہا ہے کہ کیا یہ وطن  جشن کےنام پر  شور شرابا ،  آتش بازی، گانے بجانے،    بازاروں میں خریداری کرنے کے  لیےہی آزاد ہو ا تھا؟  کیا خون کی قیمت پر حاصل ہوئی سر زمین پر   نمود و نمائش کے سمندر کوٹھاٹیں مارتے دیکھنا ہی جشنِ آزادی ہے؟  آج کے  بچے اور اِن کے والدین اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں   کو محسوس کرنے کے بجائے  ، رنگ برنگے کپڑوں اور    جشن کے نام پر  بازاروں میں خریداری کو   آزادی کے دن  کی روح سمجھ بیٹھے ہیں؟ کیا ہم اور ہمارے بچے کبھی ضرورت پڑنے پر اپنے اس پاک وطن  کے لئے اپنا لہو تو درکنار پسینےکی قربانی  دینے کا حوصلہ   بھی رکھتے ہیں؟   ہم اپنی آنے والی نسل کو ایسی کھائی میں لے جارہےہیں  جہاں   قربانیوں کے بجائے خواہشوں    کے کانٹے نشو نما ء پاتے ہیں ، جہاں  نسلوں کی آبادی کا نہیں بلکہ بربادی کا ساماں بننے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں،  نعمتوں کی ناقدری   اس کے چھن جانے  کی وجہ بن سکتی ہے جبکہ نعمتوں میں اضافہ شکربجا لانے سے یقینی  ہوجاتا ہے۔ اور شکر کاصحیح انداز   وہی ہوگا جو  خالقِ کائنات کے غضب کو ٹھنڈا کرے اور   اُس کی خوشنودی کا باعث بنے۔

اِ س کا سب سےآسان طریقہ  صدقہ ہے کیونکہ اس سے بلائیں بھی  ٹلتی ہیں،   قربانی کا لطف بھی ملتا ہے،  سادگی کا انتخاب بھی ہوتا ہے، عبادت کے آداب بھی پورے ہوتے ہیں اور    نعمتِ خداوندی میں برکت بھی  رہتی ہے۔  راقم اپنے وطن کی خوشحالی اورتا قیامت  کامیابی کے لئے دعا گو ہونے کےساتھ ساتھ، اپنے اور اہلِ خانہ کی طرف سے جشنِ آزادی کے بجائے صدقہءِ آزادی کا آغاز کرچکا ہے  تاکہ  مُلک و ملّت کے لئے   خیر پر مبنی نئے رجحان اور روایت  کی بنیاد ڈال سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ تمام لوگوں سے  یہی گذارش ہے کہ  جشنِ آزادی تو صرف سال کے سال ہی  منایا جاتا ہے لیکن صدقہءِ آزادی کے لئے دن ،وقت یا سال کی کوئی قید نہیں، تو  آئیے آج ہی اپنے اور اپنے پیاروں کی طرف سے تھوڑی قربانی دے کر اپنے ملک  کے لئے مثبت قدم آٹھائیں  اور خدائے ذوالجلال کو  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منا نے کی پوری کوشش کریں(آمین)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply