چونکہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کوٹ سارنگ جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا، جہاں بقول ماں کے،سبھی مسلمان ان کے بھائی بہنیں تھے اور کوئی واردات نہیں ہو سکتی تھی، اس لئے یہی طے کیا گیا کہ آریہ محلے کے کرائے کے مکان میں صرف اشد ضرورت کا سامان ہی لے جایا جائے۔ اپریل انیس سو سینتالیس کو ہم بابو جی کو آریہ محلے کے گھرمیں چھو ڑ کر کوٹ سارنگ پہنچ گئے۔بابوجی کا خیال تھا کہ اگر ان کے پریوار کے لیے کوئی جگہ واقعی محفوظ ہے، تو کوٹ سارنگ ہے، جہاں وہ صدیوں سے رہتے آئے ہیں، وہاں ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو سکتی۔
کوٹ سارنگ!
جب گلی میں آئے۔ میں نے سوچا اب مکان مجھ سے کچھ بات چیت کرے گا۔ کچھ پوچھے گا، کچھ اپنی بپتا سنائے گا۔ لیکن ایک چپ، خاموشی، مکان مہر بلب لیے کھڑاتھا، جیسے اینٹ، گارے اور چونے کا ایک ڈھانچہ ہو۔
گھر کا تالا کھولا۔ پتہ چلا کہ ساتھ کے گھروں کے کئی ہندو خاندان پہلے ہی راولپنڈی کو ہجرت کر چکے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں گاؤں میں رہنے میں اب کوئی حفاظت نہیں۔ چاچا بیلی کی دکان البتہ کھلی تھی. لیکن آس پاس کے بہت سے گھر اور دکانیں تالا بند تھیں۔ ”واپس کیوں آئے؟“ چاچا بیلی نے پوچھا۔ ”عجیب بیوقوف لوگ ہو تم! بابو جی کہاں ہیں؟“ ”وہ تو راولپنڈی میں ہی ہیں۔“ میں نے جواب دیا۔
”تو ایسے کرو، تم بھی کچھ دن گزار کر، اگر کوئی سامان بکتا ہے تو اس کو بیچ کر، واپس پنڈی چلے جاؤ۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ چاندی رام بھسین، بیربل، رچی رام، اور سب سناروں کے کنبے پچھلے ہفتے ہی چلے گئے ہیں۔ یہ گاؤں تو اب مسلمانوں کا گاؤں ہے، ہمارا نہیں ہے! پنڈی گھیب سے یہاں تک اور آگے تلہ گنگ تک چھوٹے چھوٹے دیہات میں حملے ہو چکے ہیں۔ ابھی یہاں کچھ نہیں ہوا، لیکن کل کی خبر نہیں۔ فسادی اور لٹیروں کا ایک گروہ پنڈی گھیب میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہے۔ ٹہی ڈھوک کے کچھ لوگ ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، حملہ ہوا تو کوئی بھی نہیں بچے گا۔۔۔“ چاچا بیلی نے میرے بازو میں کھڑی مجھ سے دو برس بڑی میری بہن شانتا کی طرف دیکھا اور اپنے ماتھے کو پکڑ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ”تمہیں کچھ بھی خیال نہیں ہے، کہ اس کا کیا حشر ہو سکتا ہے۔ بیوقوف سب، تم بھی اور تمہارے بابو جی بھی!“
پھر ایک منٹ کے توقف کے بعد بیلی رام نے کہا، ”چنتا کرنی تو چاہیے، لیکن میں نے ایک اُپائے کیا ہوا ہے۔ پنڈی گھیب میں میرے جان پہچان کے کچھ لوگ ہیں، جومجھے اس شام تک خاص بندہ بھیج کر اطلاع دیں گے، کہ اس رات یا اس سے اگلی رات حملہ ہونا ہے۔اس لئے تم بس اب اپنا کپڑا لتا، گہنا گوٹا،روپے وغیرہ یا اور کوئی قیمتی چیزیں باندھے ہوئے ہر وقت تیا ر رکھو، نا معلوم کب جانا پڑ جائے۔“
اگست کا تیسرا ہفتہ 1947ء
پاکستان بن چکا ہے۔ اس کی خوشی ہر جگہ منائی جا رہی ہے۔ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ کوئی سچی خبر نہیں ہے، لیکن افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ فلاں گاؤں میں اتنے لوگ مارے گئے۔ تلہ گنگ کے پاس دھرابی میں اکیلے ایک قصائی کے ہاتھوں ہی چودہ ہندو مارے گئے۔ کئی دنوں سے ہمارا باہر نکلنا بند ہے۔ گائے کو چرانے بھی نہیں لے جاتے۔ گھر میں بہت بھوسہ ہے۔ گائے کا ’گتاوہ‘ بھوسے اور سرسوں کی ’کھل‘ کے ساتھ میں روزانہ خود بناتا ہوں‘ اناج کافی ہے۔ چولھا جلانے کے لیے ایندھن ہے۔ گائے کا دودھ ہے۔ البتہ کچھ جٹ عورتیں اب بھی دن کے وقت میری ماں کے پاس بیٹھنے آ جاتی ہیں۔”تم لوگ چلے جاؤ گے تو ہمیں قرض کون دے گا؟ مت جاؤ، یہیں رُک جاؤ۔ تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔“
پچیس اگست 1947ء
ماں اور دادی چیختی چلاتی ہوئی کمروں سے صحن اور صحن سے پھر کمروں میں جاتی ہیں۔ ”جلدی کرو، جلدی کرو!“ ومیں خود ادھر سے ادھر اور اُدھر سے ادھر سب کو اکٹھا کر رہا لوں۔ چاچا بیلی رام ابھی آ کر گیا ہے۔ پنڈی گھیب کی چمارن نے اپنا وعدہ نبھایا ہے اور اپنا ایک خاص بندہ وہاں سے بیلی رام کے پاس بھیجا ہے یہ بتانے کے لیے کہ آج رات ہی پنڈی گھیب سے مارنے لوٹنے والے اپنی کلہاڑیاں، چھریاں، چاقو، لاٹھیاں وغیرہ لے کر آئیں گے،”نکل چلو، نکل چلو، نکل چلو!“ تبھی ایک لاؤڈ سپیکر پر جوگیوں کی درگاہ کی چھت پر سے ایک سرکاری اعلان ہوتا ہے، کہ جو ہندو چکوال ریلوے سٹیشن تک جانے کے لیے تیار ہوں، باہر سڑک تک آ جائیں۔ سامان کے لیے جگہ نہیں ہے۔ پکا ہوا کھانا البتہ لا سکتے ہیں، ملٹری کی حفاظت میں انہیں چکوال تک پہنچایا جائے گا جہاں سے آگے وہ ریل گاڑی میں راولپنڈی میں بنائے گئے کیمپ میں ٹھہر سکتے ہیں۔
”جلدی کرو، جلدی کرو!“ بابو جی پنڈی میں ہیں، لیکن وہ ہمیں کیمپ میں کیسے ڈھونڈیں گے؟ ماں رو رہی ہے۔ پتہ نہیں بھگوان کو کیا منظور ہے۔ پنڈی میں جو خون خرابہ ہوا اس کی خبریں تو یہاں تک آ چکی ہیں۔ ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہوا۔ ہزاروں عورتیں اغوا کی گئیں۔ میں سولہہ برس کا ہوں۔ اب سب ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے۔ میں اپنے چھوٹے بھائی اور اس سے چھوٹی بہن کو تیار کر رہا ہوں، جو رو رہے ہیں۔
ماں چیختی ہے، ”ہائے میری سلائی مشین! کیا یہیں رہ جائے گی؟“ دادی روتی ہے، ”میرے کاڑھے ہوئے اٹھارہ ’باغ‘! بڑے صندوق کو اب کیا کروں۔ باغوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسے کہاں اٹھاؤں؟“
باغباں دادی مری زندہ نہیں ہے
’باغ‘ جو وہ کاڑھتی تھی
سادے لسّے سُرخ کپڑے پر
چمکتے زرد یا زرتاب ریشم کی سبک، باریک تاروں سے
وہ سارے باغ، پھُلکاری، گلوں کی لہلہاتی کہکشاں سی
باغ، پھولوں، پتیوں، لہروں،ستاروں، چاند جیسے
باغ، پیلے، زعفرانی کھیت سرسوں کے
جنہیں اس کے بڑھاپے کی نظر پہچانتی تھی!
باغ، جو بکسوں میں چوبی پیٹیوں میں
بند رہتے تھے….فقط کھلتے تھے شادی یا ولادت کے دنوں میں
باغ، جن کو دلہنیں، بیٹوں کی مائیں
سارے کنبے کی سہاگن بیبیاں اپنے سروں پر
اوڑھتی تھیں
”گھوڑیاں“ گاتی تھیں لڑکوں کے بیاہوں میں
ملا کر لے میں لے اپنی
مگر بیٹی کی شادیوں میں یہی سُرلمبا ہو جاتا تھا
برہا کی اداسی میں!
باغ گھر کی آبرو تھے۔ اس روایت کے محافظ
جو ہمیں پرکھوں سے ورثے میں ملی تھی!
باغ صحرا بن چکے ہیں
ؓباغباں دادی مر ی زندہ نہیں ہے!!
(یہ نظم کوٹ سارنگ سے ہجرت کے چالیس برس بعد یعنی 1987ء میں خلق ہوئی اور ”اوراق“ میں شائع ہوئی)
ماں کی سلائی مشین، باتوں والا باجہ (گراموفون) اور بے بے کے باغ وہیں چوبی صندوق میں بند کر کے ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ تالہ نہیں ملتا، تو ماں کہتی ہے، ”چلو کنڈی چڑھا دیتے ہیں۔ گائے کو تو پہلے ہی تمہاری پھوپی بخت بی کے ہاں چھوڑ آئے ہیں۔ بوڑھی ہو کر مر جائے گی یا اس کا دودھ سوکھ جائے گا، جو بھی ہو گا، وہ کبھی اسے بوچڑوں کے حوالے نہیں کرے گی، مجھے وشواس ہے۔“
ڈیوڑھی سے پاؤں باہر نکالتے ہی آوازیں میرا پیچھا کرتی ہیں یا میرے کان بجتے ہیں، یا ذہن کے سمندر میں کچھ لہریں مچلتی ہیں، لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ میں روہنکا سا ہو جاتا ہوں، لیکن مجھے سارے پریوار کی ذمہ داری سنبھالنی ہے۔ میں ان آوازوں کے لیے اپنے کان بند کر دینا چاہتا ہوں، لیکن۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہے، جو مجھ سے شکایت کر رہا ہے۔۔کیوں جا رہے ہو؟ کب لوٹو گے؟ مجھے کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو؟ سنو، اگر بہت برسوں کے بعد لوٹے، تو مجھے ایسا نہیں پاؤ گے۔ میری پچھلی دیوار آخری سانس لے رہی ہے، آدھا چھت بھی کچا ہے۔میں کان بند کر لیتا ہوں کیونکہ میرا جانا تولازمی ہے۔ میں ہی گھر میں بڑا ہوں، مجھے ہی سب کو بچانا ہے!
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں