کینسر (18) ۔ عملی کیمسٹری/وہاراامباکر

“جو لوگ کیمسٹری یا میڈیسن میں تربیت یافتہ نہیں، ان کو اس کا احساس نہیں ہوتا کہ کینسر کا علاج کس قدر دشوار ہے۔ یہ تقریباً اتنا مشکل ہے جیسے کوئی ایسی دوا کی تلاش ہو جو دائیں کان کو ختم کر دے جبکہ بائیں کان کو کچھ بھی نہ ہو۔ کینسر کے خلیے اور نارمل خلیے میں بس اتنا سا ہی فرق ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔ولیم ووگلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے خلیے کو ٹیسٹ ٹیوب میں مارنا مشکل نہیں۔ کیمیائی دنیا انواع و اقسام کے زہروں سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے بہت ہی کم مقدار کینسر کے خلیے کو چند منٹ میں مار دیتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ منتخب خلیے کو نشانہ کیسے بنایا جائے۔ کسی بھی دوا میں نشانے کے انتخاب کی صلاحیت کو specificity کہا جاتا ہے اور یہ کینسر کی دوا کا چیلنج ہے۔
کینسر مر جائے جبکہ مریض بچ جائے۔ اس کے لئے ایک بڑی مختلف قسم کا کیمیکل درکار ہے۔ اور یہ کہانی کالونیل ازم اور اس کی سب سے بڑے لوٹ کے مال سے شروع ہوتی ہے، جو کپاس تھی۔
انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان اور مصر سے کپاس کی گانٹھیں برطانوی بندرگاہوں پر آتی تھیں۔ برطانوی گارمنٹ کی صنعت چلتی تھی۔ ٹیکسٹائل برآمدات برٹش معیشت چلاتی تھیں۔ صنعتی انقلاب کپاس کے کپڑے کی سلطنت نے برپا کیا تھا۔
کپڑے کی صنعت کے ساتھ رنگنے کی صنعت تھی لیکن صنعتی ترقی کے حوالے سے رنگ کی صنعت پیچھے تھی۔ کپڑے رنگنے کی ڈائی کو نباتات سے اخذ کیا جاتا تھا، جیسا کہ انڈیگو سے نیلا رنگ۔ اس عمل میں صبر، مہارت اور مستقل نگرانی کی ضرورت تھی۔ اور اس رنگ کو کپڑے پر چڑھانا اس سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔ اس کے لئے کئی سٹیپ میں کئی کیمیکل درکار تھی۔ گاڑھا کرنے، رنگ تیز کرنے اور حل کرنے کے لئے ان کی ضرورت تھی اور اس عمل میں ہفتوں لگ جاتے تھے۔ ٹیکسٹائل صنعت کو پیشہ ور کیمسٹ درکار تھے جو یہ سب کر سکیں۔ عملی کیمسٹری کا یہ نیا شعبہ لندن کے پولی ٹیکنیک اور دیگر اداروں میں پڑھایا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہی میں سے ایک ادارے کے اٹھارہ سالہ طالبعلم ولیم پرکن نے 1856 میں بڑی اہم چیز دریافت کر لی۔ یہ ایک سستی کیمیائی ڈائی تھی جس کو سٹارچ سے بنایا جا سکتا تھا۔ پرکن شورے کے تیزاب اور بینزین کو ابال رہے تھے کہ غیرمتوقع ری ایکشن ہوا جس میں جامنی رنگ کا کیمیکل بن گیا۔ اس میں جب کاٹن ڈالی تو یہ رنگ اس پر چڑھ گیا۔ اور یہ رنگ اترتا نہیں تھا۔
پرکن کی دریافت کپڑے کی صنعت کے لئے نعمتِ غیرمترقبہ تھی۔ سستا رنگ جو آسانی سے بن جاتا تھا اور ذخیرہ ہو جاتا تھا۔ پرکن نے جلد ہی دریافت کیا کہ اس کا مالیکیول دوسری ڈائیز کے لئے بھی کیمیائی ڈھانچہ تھا۔ بہت سے دیگر رنگ بنائی جا سکتے تھی۔ یورپی فیکٹریوں میں کئی شیڈ کے مصنوعی رنگوں کا 1860 کی دہائی میں سیلاب آ گیا۔ پرکن کیمسٹری کے ہیرو بن گئے اور صرف انیس سال کی عمر میں انہیں لندن کیمیکل سوسائٹی کی مکمل ممبرشپ مل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دریافت برطانیہ میں ہوئی تھی لیکن اپنے کیمیائی عروج میں جرمنی میں پہنچی۔ جرمنی کو مسئلہ تھا کہ اس کے پاس زیادہ کالونیاں نہیں تھیں جس وجہ سے اسے قدرتی رنگوں تک رسائی نہیں تھی۔ جبکہ صنعتی ترقی کے لئے رنگ ضروری تھے۔ مصنوعی ڈائی اس کے لئے ضرورت تھی۔ جرمنی کے لئے یہ صنعت کی بقا کا معاملہ تھا اور جلد ہی یہ اس دوڑ میں سب سے آگے نکل گیا۔ 1883 میں جرمنی میں سرخ ڈائی کی پیداوار بارہ ہزار ٹن تھی۔ یہ پرکن کی فیکٹری سے کہیں زیادہ تھی۔ جرمن رنگ یورپ بھر کی صنعتوں میں استعمال ہو رہے تھے۔
جرمن کیمسٹ ٹیکسٹائل سے باہر بھی کام کرنے لگے۔ نہ صرف ڈائی اور محلول بلکہ نئے مالیکیولز کی نئی دنیا تھی۔ فینول، الکوحل، برومائیڈ، امائیڈ، الیزارین ۔۔ ایسے کیمیکل جو قدرتی طور پر موجود نہیں تھے۔ اتنے زیادہ کہ یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کا استعمال کہاں پر ہو سکتا ہے۔ “عملی کیمسٹری” کی صنعت اپنی مصنوعات کے عملی استعمال تلاش کر رہی تھی۔
جبکہ دوسری طرف برلن میں ہونے والے تجربے نے غیرمتوقع طور پر اس کا ملاپ بائیولوجی سے کروا دیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply