ٹھٹہ اور ملیر کے بھوتاروں کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ جب وہ ایک مظلوم کو اپنے ڈیرے پر بُلا کر بے تحاشا تشدد کر کے قتل کر دیں گے، تو سندھ ایسے کروٹ لے کر جاگ جائیگا، سندھ کا کروٹ لینا دھرتی کا کروٹ لینا ہے۔ اب مظلوم تو منوں مٹی تلے سو رہا ہے پر کشمور سے لیکر کیٹی بندر تک دھرتی جاگ رہی ہے۔اب اس مظلوم کا ذکر بس معرفت میڈیا ایوانوں میں نہیں ہو رہا،پر ان دور دراز مسجد و مندروں میں بھی ہو رہا ہے جہاں مُلا دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا تے ہیں اور پنڈت پپر سوز آواز میں بجھن گا کر رام سے کہتا ہے
”اس کی آتما کو شانتی دے“

اب وہ کیس کراچی کے مضافات،ٹھٹہ،ملیر اور سندھ کا نہیں رہا اب یہ کیس عالمی کیس بن گیا ہے۔ اب تو سرحد پار بھی پنچھیوں کے محافظ اسے سلام پیش کر رہے ہیں، جس نے اپنی جان پر لوہے کی راڈوں کو سہہ کرتلور کی زندگی کو محفوظ کیا،اب جہاں جہاں تلور کا ذکر ہو رہا ہے وہاں اس پنچھیوں کے محافظ کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ اس وقت یہ کیس سوشل میڈیا سے لیکر روایتی میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے اور بھوتار سوچ رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، پر سردار،بھوتار دلال،یہ جان ہی نہیں پائے کہ سندھ نے کروٹ لی ہے دھرتی نے کروٹ لی ہے۔
پر اس سارے کیس میں ایک کونج گیت بن کر گونجی ہے
ایسا گیت جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”کونج بہ کائی گونج پرین ء جی“
کس کو معلوم تھا کہ کسی کونج کی گونج وہاں تک جائے گی جہاں نیندوں میں کوئی خلل نہیں ڈالتا
جہاں رقص اور قتل
مہ اور محبوبہ کے بوسے سب خاموشی میں لیے جا تے ہیں
جہاں قتل کرامات کی طرح ہو تے ہیں
جہاں مارے انسانوں کے لاشے بھی نہیں ملتے
جہاں زندہ انسان در گور کیے جا تے ہیں
جہاں قاتلوں کے نشانات بھی نہیں ملتے
جہاں رقص کی محفلوں کے گھنگرو ؤں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں
جہاں سرداروں سے پہلے کمدار پہنچتے ہیں اور انسانیت کو موردِ الزام ٹھہرا تے ہیں
جہاں مائیں اپنے پرچموں جیسے پوتر دوپٹے سرداروں کے نجس پاؤں میں ڈال کر اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتی ہیں
جہاں مائیں رو تی ہیں پر ان کی آہیں باہر نہیں آتیں
جہاں مائیں گونگی خاموشی میں رو تی ہیں
جہاں جوان محبوبائیں اپنے محبوب کی زندگی کے لیے درندگی کا شکار ہو جا تی ہیں
جہاں کمینہ سردار اوپر اور بوڑھا مجبور باپ ان سرداروں کے پیروں میں بیٹھتا ہے
جہاں پولیس سردار کی ونگھار(نوکر) ہو تی ہے
جہاں سرداروں کا حکم چلتا ہے اور ان کے ہر حکموں کی بجا آوری ہو تی ہے
جہاں پر دھرتی بھی مجرم ہو تی ہے اور سکھی بھی
جہاں پر دلال اور بھڑوے موچھوں کو تاؤ دیتے نظر آتے ہیں اور مجبور بوڑھے والدین سرداروں کے پیروں میں بیٹھ کر اپنے مغوی بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں
جہاں سرداروں کے پائیدار مضبوط جو تے کمزور رعایا پر پھاڑے جا تے ہیں
پر اس کونج کی آواز وہاں تک گونجی وہ سردار جو بس جرگے کرتے ہیں اور اپنی رعایا پر رعب ڈالتے ہیں آج وہ سردار خوار ہو رہے ہیں اور دھرتی ان پر تھوک رہی ہے
جب سے اس سکھی کا پیا اس سے جدا ہوا ہے وہ خاموش نہیں اور اس سکھی کی ایسی حالت ہے جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”ویو وسکارے میں مور مری
تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے!“
”وسکارو!“ضرور نہیں کہ وہ ”وسکارو“بارش پانی کی ہو
وہ ”وسکارو“بارش وحشت کی بھی ہو سکتی ہے،دہشت کی بھی ہو سکتی ہے۔لوہے کے راڈوں کی بھی ہو سکتی ہے۔ڈنڈوں،سریوں،کلہاڑیوں،جوتوں،بندوقوں کی نوکوں،تھوکوں اور نفرت کی بھی ہوسکتی ہے۔
ایسے ہی وسکارو میں اس سکھی،اس کونج کا پیا مارا گیا ہے
اور وہ خاموش نہیں ہے
وہ لہک رہی ہے
وہ چہک رہی ہے
وہ رو رہی ہے
وہ بول رہی ہے
اس انداز میں جس انداز میں کونجیں کُر لاتی ہیں
جب جب ان کے ولر سے کسی کا شکار کیا جائے
اور کونجیں اداس اور خالی آکاش پر اُڑ تی رہیں اور کُر لا تی رہیں
”کونجن کُر لاتو جڈھن!“
اس کونج کی ہو بہ ہو ایسی ہی حالت ہے
اور سندھ اس کونج کی ایسی حالت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا
وہ اکیلے گیت کی طرح گونج رہی ہے
سندھ میں اس کی صدا دور تک چلی گئی ہے
صدا آپ سرا پا صدا بنی ہوئی ہے
پر جب سندھ خاموش ہوگا وہ تب بھی
اکیلے گیت کی طرح گونج رہی ہو گی
اب جب سندھ اک بھر پور صدا بنی ہوئی ہے
وہ جب بھی
اکیلے گیت کی طرح گونج رہی ہے
وہ خاموش ہونے کے لیے نہیں
وہ تو اس لیے کہ سندھ سے لیکر پو رے جہاں کو یہ بتا پائے کہ اس کے ساتھ لطیف کی نگری میں سرداروں نے کیا وحشت و بر بریت کی ہے!
وہ ساز ہے
وہ نئے سحر کا ساز ہے
وہ اُمید ہے
وہ نئی سندھ کی اُمید ہے
وہ سوتے سندھ کی جاگ ہے
وہ بھاگ ہے
اور سندھ اس بھاگ کے ساتھ ہے
جو بھاگ میرا بھی
تیرا بھی ہے
اور بھٹائی کے سندھ کا بھی!
Facebook Comments
ایک شاندار تحریر