انفرادیت۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

وراثت ہی اکثر خوائص کو طے کرتی ہے، ماحول ان خوائص کے اظہار میں مددگار یا رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے، یعنی کہ فرد کے اندر موجود قابلیت کا زیادہ دارومدار اس کی موروثیت سے ہے، اور یہ قابلیت کس حد تک آشکار ہوکر بلندی کو پہنچ پاتی ہے یہ معاملہ سماجی سہولیات کا مرہونِ منت ہے۔ اب یہ سوال کرنا کہ ان دو میں سے کیا زیادہ اہم ہے ایسے ہی ہے جیسے پوچھا جائے کہ شہد کی لذت و غذائیت میں زیادہ کردار شہد کی مکھی کا ہے یا اس پھول کا جس کا طواف مکھی کیلئے لازم ہے ؟

ماں کی کوکھ میں پلتے ہوئے بچے کی ابتداء درحقیقت اسی نسوانی بیضہ ہی کا پروان چڑھنا ہے، بالکل ایسے جیسے مرغی کے انڈے میں چوزہ اپنی بنیادی نشونما پاتا ہے، شروع میں یہ بیضہ گول ٹیوب کی شکل میں تین سطحیں یا تہیں اختیار کرتا ہے، سب سے اندرونی تہہ سے معدہ، آنتیں اور دیگر اندام ہائے شکم ترتیب پاتے ہیں، درمیانی تہہ سے پٹھے، ہڈیاں ، جوڑ اور خون کی نالیاں جنم لیتی ہیں، جبکہ سب سے بیرونی سطح جِلد اور اعصابی نظام کا مآخذ ہے، عام طور پر بیضے کی یہ تینوں سطحیں ایک ہی رفتار و شدت سے نشونما پاتی ہیں، اسی لئے ایک اوسط آدمی کے اندرونی اعضاء، پٹھے اور دماغ اوسط درجے میں فعال و صحتمند ہوتے ہیں، انسانوں کی لگ بھگ نصف آبادی اسی کیٹاگری میں آتی ہے، موروثی طور پر ان کو میسر اوسط جسمانی و دماغی صلاحیتیں پیدائش کے بعد ماحول و سماج کی مرہونِ منت ہوتی ہیں کہ تعلیم، تربیت و سہولیات کی دستیابی یا عدم دستیابی ہی فرد کی قابلیت و صلاحیتوں کا عروج و زوال طے کریں گی۔

لیکن بعض اوقات بیضے کی ان تین سطحوں میں سے کوئی ایک باقیوں کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھنا شروع ہو جاتی ہے، نتیجے میں پیدائش کے بعد یا تو بچے کا نظامِ انہضام دماغ کے مقابلے میں زیادہ قوی ثابت ہو سکتا ہے، یا پھر دماغ پٹھوں کی نسبت زیادہ فعال اور صحت مند واقع ہو سکتا ہے، ایسے بچے کی پوری زندگی پر محیط شخصیت کا تعین گاہے ایسی ہی کسی ایک تہہ کا دورانِ پرورش باقی دو سے آگے نکل جانے پر موقوف ہے، ایسے میں یہ شخص بسیار خور، قوی الھیکل یا پھر جینئس کے طور پہ سامنے آسکتا ہے یعنی کہ جو تہہ اپنی نشونما میں باقی دو سے آگے نکل گئی اسی کے متعلقہ اعضاء باقی ماندہ اعضاء کی نسبت زیادہ فعال ہونگے۔

اگر تو اندرونی سطح بہتر پروان چڑھی تو ایسا شخص جسمانی طور پر موٹا لیکن پٹھوں کی کمزوری کی وجہ سے کاہل اور دماغی طور پر زیادہ فعال نہ ہوگا، یہ افراد کھانے پینے کے شوقین ہوتے ہیں، مزاجا ً ہنس مکھ اور کرختگی سے پاک ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کیلئے چاولوں سے بھری دیگ یونانی دیوی کی ہیجان انگیز نسوانیت اور یونانی مفکرین کے اعلی ترین تخیل سے زیادہ قیمتی ثابت ہوئی ہے، طب کی زبان میں ایسے افراد کیلئے Endomorph کی اصطلاح معروف ہے ، وہ افراد جن کی نشونما کے دوران درمیانی تہہ زیادہ غذا لینے پر نسبتاً  بہتر پرورش پا سکی، ان کے پٹھے، ہڈیاں وغیرہ مضبوط ہونگے لیکن دماغ کی فعالیت میں کمی رہے گی، پیشہ ور کھلاڑیوں کی بھاری اکثریت اسی طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جو زورآور تو ہوتے ہیں لیکن ان کی کشادہ جبینی پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے, انہیں Mesomorph کہا جاتا ہے۔ اور اگر سب سے بیرونی تہہ ابتدائی دنوں میں باقی دو کی نسبت بہتر رفتار سے پروان چڑھے تو ایسے افراد اگرچہ جسمانی طور پر زیادہ مضبوط یا بھاری تو نہ ہونگے لیکن ان کی ذہنی صلاحیتیں کہیں بہتر ہونگی، مفکر، موجد اور تخلیق کاروں کے گروہ اس طبقے کے علمبردار ہیں، ان کے ذہن کی غیر معمولی صلاحیتیں انہیں علمی اور تخلیقی میدانوں میں اس مقام تک پہنچا سکتی ہیں جس کا تصور عام آدمی کیلئے ممکن نہیں، اس ٹائپ کو Ectomorph کا نام دیا گیا ہے۔

ان تینوں طبقوں کی تفریق اور ان کیلئے معروف اصطلاحات کو عموماً جسمانی خدوخال یعنی بیرونی خول کی پہچان کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ تعریف ادھوری ہے، اس کا تعلق صرف ظاہری شکل و صورت سے نہیں بلکہ فرد کی شخصیت کے اندرونی پہلوؤں، اس کے مزاج، کردار اور بالخصوص اس کی صلاحیتوں کا دارومدار بہت حد تک اس بات پر بھی ہے کہ اپنی زندگی کے ابتدائی ترین دنوں میں اگر کسی ایک مخصوص تہہ نے بہتر نشونما پالی تو فرد کے مستقبل کے حوالے سے بہت سے فیصلوں کو گویا کہ محفوظ کر لیا جاتا ہے۔

اضطراب ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس کی کامل تعریف شاید محال ہو کہ بقول ٹالسٹائی، سُکھ کا رنگ تو سب کیلئے ایک ہی ہے لیکن دُکھ اپنے رنگ میں ہر شخص کیلئے جدا جدا ہے، یہی معاملہ اضطراب کا ہے کہ ہر فرد کے اپنے احساسات ہیں، لیکن جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ انسان دو دنیاؤں کے درمیان رہتا ہے، ایک دنیا وہ جو اس کے دماغ میں چل رہی ہے، اس دنیا میں اس کا اپنا ایک تشخص، امیدیں، توقعات و خواہشات ہیں اور دوسری بیرونی یا حقیقی دنیا ہے جہاں اس شخص کا وہ مقام نہیں جیسا وہ اپنے ذہن میں سوچتا ہے، فرد کی تمام جدوجہد کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ ان دو دنیاؤں کے درمیان فاصلے کو کم کیا جائے، کیونکہ یہ فاصلہ جتنا زیادہ ہوگا، بے چینی اور اضطراب کی کیفیت اتنی شدید ہوگی، ان موضوعی اور معروضی دنیاؤں کے درمیان فاصلے کی نوعیت ہر شخص کی اپنی ایک انفرادیت کو ظاہر کرتی ہے، انسان کے دماغ کی وسعتیں اس فاصلے کو بڑھانے میں فیصلہ کن واقع ہوئی ہیں، دوسرے الفاظ میں Ectomorph ٹائپ کے افراد میں موجود نیورانز کی غیر معمولی الجھنوں نے اس شخص کیلئے زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے، ذہنی پرواز جتنی بلند ہوگی، خواہشات، توقعات ، فکر و تخلیق کا جذبہ اتنا شدید ہوگا لیکن بیرونی دنیا کی ظاہری رکاوٹیں چونکہ اس میں حائل ہیں اور خواب بے کراں ہیں تو ان کی تکمیل کے امکانات معدوم دکھائی دینے کی وجہ سے فرد اضطراب کا شکار رہتا ہے، اب ایسے افراد چونکہ ، نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز، بھی ہوتے ہیں تو ان کی شخصیت میں حساسیت کا عنصر اضافی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ باقیوں کی نسبت ان کی شخصیت میں الجھن، اور اعتماد کا فقدان دکھائی دیتا ہے ، شاید اسی لیے ان کی بابت کہا گیا کہ ایسے افراد اپنی صلاحیتوں بارے مشکوک رہتے ہیں، جبکہ ان کے برعکس باقی ماندہ دو اقسام زندگی سے بھر پور، پر اعتماد، بلکہ ایسی ایسی حماقتوں پر بھی ایسا اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے، کیونکہ ان کے تخیل میں ایسا کوئی عظیم مقصد نہیں ہوتا جس کی تکمیل کی جدوجہد میں انہیں کسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اسی لیے ان کی اندرونی و بیرونی دنیا ایک دوسرے کے قریب تر ہونے کی وجہ سے راوی ان کیلئے سکون ہی سکون لکھتا ہے۔ وہ افراد جو شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیرونی دنیا کو بعینہ ویسے دیکھتے ہیں جیسے اپنی اندرونی دنیا کو جانتے ہیں، گویا کہ ان کیلیے باہر بھی وہی کچھ چل رہا ہے جو ان کے دماغ میں ہوتا ہے، اسی لیے اگر وہ کسی ایسی آواز کو سن یا ایسی تصویر کو دیکھ رہے ہیں جو آپ کو نہ سنائی دیتی ہے اور نہ دکھائی دیتی ہے تو پریشانی کی بات نہیں کہ ایسے افراد دوسری دنیا کے مکین ہیں، ہیلوسینیشنز اور ایلوزنز اسی کو کہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ تمام احباب جو سمجھتے ہیں کہ ماں کی کوکھ میں ان کی بیرونی تہہ نے باقیوں سے بہتر پرورش پائی اور وہ اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں تو انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ جان رکھیے کہ ایسے ہی افراد انسانیت کا حقیقی سرمایہ ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلا ، بس خود پہ یقین رکھنا چاہیے اور مستقل مزاجی سے اپنے مقصد کی طرف پیش رفت جاری رکھنی چاہیے، کوئی ظاہری رکاوٹ ایسی نہیں جو آپ کے تخیل و تخلیق کی پرواز کے سامنے بند باندھ سکے، اور اس پہ بھی غور کیا جانا چاہیے کہ ایسی صلاحیت آپ کو یقینا ً کسی خاص مقصد کے تحت ہی عطا کی گئی ہیں۔
وہ لوگ جو اس الجھے ہوئے گروہ سے تعلق نہیں رکھتے، ایسا نہیں کہ وہ کوئی بڑا کام کرنے کے قابل نہیں، وہ اپنی عطا کردہ صلاحیتوں کو خاص سمت دے کر غیر معمولی کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں، یہاں ایک ضمنی مثال یاد آ گئی، ایک دور میں داغستان کی پہچان رسول حمزہ توف ہوا کرتے تھے، آج اسی قوم کا تعارف خبیب نورماگامیدوو کے نام سے کرایا جاتا ہے۔ مختلف “تہوں ” سے ابھرنے والی ان دونوں شخصیات نے اپنے اپنے میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے، شاید اسی لیے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ بچے کا رجحان دیکھ کر ترجیحات کا تعین کیا جانا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply