حریت کا استعارہ ۔۔۔ حسینؑ ۔۔۔۔ انعام رانا

برسوں پرانی بات ہے کہ شبِ عاشور تھی، نسبت روڈ کا چائنہ ہوٹل تھا اور ہم دونوں تھے، میں اور پروفیسر۔ اس دن اکثر کامریڈ غائب تھے اور میرا بس نہیں چلتا تھا کہ پروفیسر سے سارا علم کشید کر لوں کہ یہ تنہائی خال ہی میسر آتی تھی۔ دوران گفتگو بات کربلا پہ آئی کہ شب عاشور تھی اور پروفیسر نے امام کی بہت تعریف کی۔ اب ہم تو چلو عقیدتوں کے مارے مگر یہ پروفیسر کو کیا ہوا؟ سو میں نے حجتیں شروع کیں۔ پروفیسر سے کشیدِ علم کا بہترین طریقہ میں نے یہ پایا تھا کہ سوال کر کے اسے مشتعل کرو اور بولنے پہ مجبور کر دو۔ سو اب میں نے اس سے ایسے ایسے سوال کیے کہ اس وقت دل میں اور گھر آ کے مرغا بن کر اللہ سے مغفرت اور امام سے بھی معافی مانگی۔

جب بات کافی ہو چکی اور پروفیسر امام کی جدوجہد، کربلا کے فلسفے اور اسکی اہمیت پہ بات کر چکا تو میں نے کہا، استاد جی، یہ ایک ملحد کو امام حسینؓ اتنے پیارے کیسے ہو گئے۔ پروفیسر نے حسب عادت ماتھے پہ تیوری لیے مجھے گھورا، سگرٹ کا لمبا کش مارا اور پھر حسب عادت گالی دیتے ہوے کہا “اوئے ۔۔۔۔دیا، تیرا کی خیال اے حسین ؓ صرف مسلماناں دا اے؟ حسینؓ  استعارہ ہے اور استعارہ نوع انسانی کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے”۔ شاید امام کی جدوجہد کی یہی بہترین تعریف ہے جو میں نے آج تک سنی۔

صاحبو، امام حسین رضی اللہ عنہہ سے قبل بھی قربانی کی داستانیں ہیں، اور بعد بھی ہر دور میں سچ کے پروانے جان وارتے رہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ امام ایک ایسا سورج ہیں کہ انکی روشنی میں باقی سب قربانیاں آنکھیں چندھیا کر ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔

ایک عام سی کہانی لگتی ہے کہ ایک شخص نے حکومت کو ماننے سے انکار کیا، اپنے حامیوں کے بلانے پر ان کی طرف کوچ کیا مگر رستے میں ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں مار دیا گیا۔ سوچیے دل پہ زرا بھی اثر ہوا؟ نہیں نا؟ کیونکہ یہ تو بہت بار ہوا ہے۔ تو پھر امام حسینؓ کی شہادت کیوں ہمیں بے قرار کر جاتی ہے؟ کیوں ایک مجھ سا ناقص العمل و عقیدہ مسلمان بھی انکا تذکرہ سن کر رو پڑتا ہے؟ شاید آپ کہیں گے کہ اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے نبیﷺ کے نواسے تھے اس لیے یا یہ جو شیعہ ہر سال چین سے گھر نہیں بیٹھتے نا تو ہم ان سے متاثر ہو کر کچھ کچھ ان جیسے ہو جاتے ہیں۔ اچھا چلئے ہم تو جیسے تیسے بھی مسلمان ہوے، یہ جو غیر مسلم، حسینؓ، واہ حسینؓ کرتے ہیں، انکو کیا ہوا؟ مارکس ہو یا برناڈ شا، گاندھی جی ہوں یا ڈکنز، نیلسن منڈیلا ہو یا سوامی شنکر اچاریہ؛ یہ سبھی بغیر کسی مذہبی وابستگی کہ یہ ماننے پہ مجبور ہوے کہ حسینؓ عظیم ہیں۔

امام حسینؓ کی قربانی کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ آپ نے جبر کی وقتی اطاعت تک سے انکار کر کے یہ سبق دیا کہ حرف انکار ہی حرف حق ہے۔ وہ لا الہ الا اللہ جسے ہم فقط زباں سے ادا کرتے ہیں، امام نے اپنے کردار اور قربانی سے ادا کیا۔ جن کیلیے بہت آسان ہوتا کہ دولت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے، زندگی وارث بنو ہاشم بن کر تکریم و آسائش سے گزار لیتے، ایک حرف انکار کو حرف حق بنا کر حریت کا پرچم بلند کیا اور جان وار دی۔ بارہ گھنٹے سے پانی کی بندش، ساتھیوں کے لاشے، بیٹوں اور عزیزوں کا لہو اور پھر اپنے سینے پہ آتے ہوے بھالے، کچھ بھی امامِ سربلند کو نگوں نا کر سکے، حتی کہ قدرت نے بعد از موت بھی نیزے پہ سر بلند ہی رکھا۔ حسینؓ کا سر آج بھی بلند ہے اور یزیدیت اسی لمحے سے سرنگوں ہے اور تا قیامت رہے گی۔ بقول سورج سنگھ سورج؛
کرب و بلا میں دیکھیے شبیر کی “نہیں”
ہر دور کے یزید کو جڑ سے مٹا گئی

دنیا کربلا کے بعد سے ہمیشہ کیلیے دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی، حسینی اور یزیدی۔ بلا تفریقِ مذہب و ملت آپکو لوگ دونوں دھڑوں میں نظر آئیں گے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ حسینیت کا پرستار ہر وہ شخص ہے جو حرف انکار کی، حریت کی حرمت جانتا ہے۔ ہر وہ مسلم ، غیر مسلم شخص حسینی ہے جو جبر، غلامی، غضب اور استعمار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ اسی لیے کشمیر کا حریت پسند ہو یا فلسطین کا، کوئی افریقہ میں حقوق کی جنگ لڑے یا بلوچستان میں، حسینؓ  اس کے ہیرو ہیں۔حسینؓ استعارہ بن چکے، عظمت کا، غیرت کا، سچ کا، سربلندی کا، انکارِ باطل کا، اقرارِ حق کا، شجاعت کا، قربانی کا اور شہادت کا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج جب ہم، جو عملا یزیدی فکر کے پیروکار ہیں اور فکر حسینی سے کوسوں دور، حسینیت کو فرقوں میں بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں؛ یہ جانتے ہی نہیں کہ حسینؓ کسی ایک کے نا رہے، سب کے ہو گئے، مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا اثاثہ بن گئے۔ حسینؓ  استعارہ بن گئے، ایک عالمی استعارہ۔ یا امامِ حریت وحمیت، ہر حرف انکار بلند کرنے والے حسینی کا سلام قبول کیجیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply