سوشل میڈیا پہ لکھنے والوں کی ترجیحات

سوشل میڈیا پہ لکھنے والوں کی ترجیحات
طاہر یاسین طاہر
ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں اسے سائنس و ٹیکنالوجی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ہزاروں مزدوروں کی جگہ ایک دو بڑی مشینیں کام کرتی ہیں ۔جنھیں ایک دو یا تین چار آدمی آپریٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ کنسٹرکشن کمپنیز کی مثال ہمارے سامنے ہے۔جدید عہد نے انسانی زندگی کو سہل اور تیز تر کر دیا ہے۔اس تیز روی نے ایک احساس یہ بھی ابھارا کہ کوئی کسی کا دکھ درد کا ساتھی نہیں۔کسی کے پاس وقت نہیں کہ وہ کسی کا دکھ بانٹے۔سوشل میڈیا نے اس دکھ کو کم بھی کیا ہے اور بڑھاوا بھی دیا ہے۔آج ہر بندہ فیس بک پہ مصروف ہے۔اس سے جہاں اپنے ہم مزاج لوگوں سے شناسائی ہوتی ہے وہیں ان خونی رشتوں کا رنج گہرا ہوتا جا رہا ہے، بالخصوص عمر رسیدہ خونی رشتوں کا یہ شکوہ موجود ہے کہ بندہ قریب ترین کے رشتوں کا چھوڑ کر کمپیوٹر کی سکرین پہ جم گیا ہے۔سوشل میڈیا کے حوالے سے کئی پہلو زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔انسانی نفسیات کی کئی کمزوریاں اس میڈیا پہ آ کر عیاں ہو جاتی ہیں۔
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے چاہا جائے،اس کے کہے کو تسلیم کیا جائے اور اس کے لکھے پہ واہ واہ ہو۔یہ جبلت ہے،پہچان،ہر صاحب ِفکر انسان چاہتا ہے کہ اس کی فکرکی پذیرائی ہو،اسے یاد کیا جائے ،سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک نے انسان کی اس جبلی کمزوری کو ایک ہمہ وقتی ضرورت میں بدل دیا ہے۔لکھنے والوں کے کئی گروپس،کئی ویب سائٹس سامنے آئی ہیں۔ جہاں بالخصوص نئے لکھنے والے یا وہ افراد جو اخبارات،رسائل و جرائد میں مسلسل نہیں لکھ سکتے تھے انھوں نے “فیس بک سٹیٹس” کے اختصاری رویے کو اپنایا اور لائیکس سمیٹنے شروع کر دیے۔بے شک سوشل میڈیا پہ چند لائنیں لکھنا اخبارات و جرائد میں لکھنے سے کئی گنا آسان ہے۔ پرنٹ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیا،تینوں کی ترجیحات مختلف ہیں۔اخبارات و ٹی وی میں خبروں،تجزیات ،رپورٹوں اور مضامین پر ایڈیٹوریل بورڈ کی گہری نظر ہوتی ہے۔جبکہ سوشل میڈیا میں ایک شخص اپنے پیج،یا اکاونٹ کا خود ہی ایڈیٹر اور خود ہی سب ایڈیٹر بھی ہوتا ہے۔میڈیا کےتینوں سیکٹرز کی ترجیحات الگ ہیں۔اخبارات و ٹی وی میں لکھنے والے یا خبر فائل کرنے والے کے پاس صحافتی تجربہ ہوتا ہے ،اگر تجربہ نہ بھی ہو تو ایڈیٹوریل بورڈ رہنمائی کے لیے موجود ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پہ لکھنے والے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ وہ فیس بک اکاونٹ بنائے اور چند سطری خیالات لکھ ڈالے۔یہ سہل طریقہ ہے۔کسی اور نشست میں اس پہ تفصیلی بات کریں گے۔(مکالمہ کا ایڈیٹوریل بورڈ موجود ہے،جو ہر تحریر کو جانچ کر شائع کرنے کا ذمہ دار ہے)
سوشل میڈیا کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان میں سے فیس بک ہمارے سماج میں مقبول ترین ہے۔کئی اردو ویب سائٹس نے بھی نئے لکھاریوں کو متوجہ کیا،اور خوب چہل پہل ہے۔میں نے مگر سوشل میڈیا پہ جو نئے لکھاریوں کا رحجان دیکھا وہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔میں ڈیڑھ عشرے سے صحافت سے وابستہ ہوں۔ اس تجربے کی بنا پرکہہ رہا ہوں کہ نئے لکھنے والوں میں سے چند ایک کے سوا،کوئی متاثر کن بات نہ کر سکا۔ بیشتر تو اپنے پیشرو کے خیالات کا چربہ کرتے ہیں یا پھر شخصی قصیدہ کاری،اگر یہ دونوں کام نہ ہوں تو بے جا تنقید ،جس کی بنیاد دلائل کے بجائے ذاتیات ہوتی ہے۔سوشل میڈیا کا ایک اور منفی رخ،نئے فتویٰ بازوں کا جنم ہے۔ چونکہ یہاں تحقیق کا رحجان نہیں ،سو جو خبر،ویڈیو یا،تصویر، من کو نہ بھائے اس کو مذہب کے پیمانے میں تول کر فتویٰ کی دکان سجا لی جاتی ہے۔یہ بڑا خطرناک رویہ ہے جو ہمارے سماج میں مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے ۔حیرت انگیز طور پہ نوجوان نسل اس رویے کی پہچان بن کر سامنے آرہی ہے۔جب تک کسی لکھنے والے،کسی ادیب،کسی شاعر کی ترجیحات نہ ہوں بے شک وہ سماج میں تبدیلی کے لیے کردار ادا نہیں کر سکتا۔سوشل میڈیا کے لکھاریوں کی اولین ترجیح زیادہ سے زیادہ لائکس اور چند سطری خیالات پہ من پسند تبصرہ ہے۔اس رویے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرےمیں موجود عدم برداشت پہلے سے گہری ہوتی چلی گئی۔کیا بڑے بڑے نامور سوشل میڈیا لکھاری اختلاف کرنے والوں کو “بیک کلک” بلاک نہیں کر دیتے؟
سوشل میڈیا میں لائیک کی ترجیحات ایک اور رویے کو بھی سامنے لائی ہیں،وہ ہے معتبر مذہبی و علمی شخصیات کے نام سےاقوال،احادیث،فرامین،جو بسا اوقات جس شخصیت سے منسوب کیئے جاتے ہیں،ان کے کہے ہوئے نہیں ہوتے۔مذہبی رحجانات کو کام میں لا کر بھی اپنے لیے لائکس سمیٹنے کا رویہ اس بات کا شاہد ہے کہ لکھنے والا تحقیق و جستجو کے بجائے جذبات کے سہارے اپنے لیے توجہ حاصل کر رہا ہے، واقعی ایسا شخص قابل ِ رحم ہوتا ہے۔کچھ لکھنے والوں نے سستی شہرت کے لیے کم تر طریقے آزمانے شروع کر دیے۔احترام آدمیت کا خیال نہ رکھا اور اپنے چند سطری خیالات سمیت کسی نہ کسی پہ چڑھ دوڑے۔
ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے بہت اچھے کام بھی ہو رہے ہیں،لوگوں کو اپنے حقوق بارے آگاہی بھی ملتی ہے،اردو کی بڑی ویب سائٹس نے نئے لکھاریوں کی ایک کھیپ تیار کی،مکالمہ نے سوشل میڈیا بالخصوص مکالمہ پہ لکھنے والوں کے لیے لاہور اور کراچی میں دو کامیاب کانفرنسز کر کے اس امر کا اشارہ بھی دیا کہ ہم نئے لکھنے والوں کی ادارتی رہنمائی کریں گے۔ سوشل میڈیا کے لکھاریوں کو چاہیے کہ ان کی توجہ لائکس کے بجائے مضمون میں بیان کردہ حقائق کی صحت اور اپنے مطالعے کی وسعت پہ رہے۔ یاد رکھیے سطحی چیزوں کو دنیا کے ہر معاشرے میں جلد پذیرائی ملتی ہے،یہ پذیرائی جس قدر جلدی ملتی ہے اسی تیزی کے ساتھ غائب بھی ہو جاتی ہے۔اپنے خیالات میں تازگی لائیے،یہ تازگی مسلسل ریاضت،مشق سخن،مطالعے اور غور و فکر سے آتی ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply